پنجاب پولیس۔ ایک بگڑا ہوا آوا


خبر، اخبار اور اطلاع انسان کے مزاج پہ بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا ہی آج صبح صبح میرے ساتھ اس وقت ہوا جب میں نے پنجاب کانسٹیبلری میں متعین بہاولپور ضلع کے پولیس کانسٹیبل محسن جاوید کی مبینہ خود کشی کی خبر سنی۔ بٹالین ایک میں متعین محسن جاوید کو اس کی ایس پی نے چار دن کی غیر حاضری پر نہ صرف اس کی تنخواہ بند کر دی تھی بلکہ سننے میں یہ آیا ہے کہ موصوفہ نے اس کو پانچ ہزار روپے جرمانہ بھی کر دیا تھا۔

دیکھا جائے تو اس سانحہ نے ہمارے ذہن میں کئی سوال چھوڑے ہیں۔ میں نے ہمیشہ پولیس کے شیر جوانوں کی اس بنا پر تعریف اور ترجمانی کی ہے کہ پولیس کانسٹیبل ان واحد ملازمین ہیں جن کا پورے پاکستان میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ افسران کی جھاڑ کے ساتھ ساتھ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی جیسے مسائل کم ہیں کہ ان کی چھوٹی غلطیوں غلطیوں پر اکثر تنخواہ روک دی جاتی ہے۔ اپنی متجسس طبیعت کی وجہ سے میں اکثر افسران اور دوست پولیس افسران سے اس بارے میں استفسار کرتا رہتا ہوں کہ کسی بھی ضلع سے سیکڑوں میل دور ایک نوجوان کو پنجاب کانسٹیبلری میں کچھ عرصہ لازمی گزارنے کے پیچھے کون سی وجوہات کار فرما ہیں۔

مجھے اس سلسلے میں کافی تلخ مشاہدات ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک جاننے والے کو ماضی میں ضلع بہاولپور سے جب پنجاب کانسٹیبلری تعینات کیا گیا تو وہ اتنا بد دل تھا کہ روزانہ مجھے فون کرتا اور کہتا مجھے اس محکمے سے ڈسچارج کروا دیں میں اتنی دور ڈیرہ غازی خان کی پہاڑی چیک پوسٹ پر دن رات ڈیوٹی نہیں کر سکتا۔ غیر حاضر رہنے اور سزائیں جھیلنے کے بعد انتہائی مشکل سے اس کو واپس اپنے ضلع میں بھیجا گیا اسی دوران اس نے کتنے کشٹ کاٹے، اس کا تصور بھی محال ہے۔

جہاں تک میرے علم میں ہے کہ پنجاب پولیس رولز کے مطابق ہر سب انسپکٹر رینک تک کے پولیس جوان کو دو سال لازمی پنجاب کاسنٹیبلری میں گزارنے ہوتے ہیں اور جیسے ہی اس کا تبادلہ اپنے ضلع سے پنجاب کانسٹیبلری میں ہوتا ہے اس کی تنخواہ بھی لاہور پنجاب کانسٹیبلری ادا کرتی ہے۔ اب آپ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایک نوجوان اپنا بستر کاندھے پر رکھے جب لاہور کانسٹیبلری کے دفتر پہنچتا ہے تو اس لاوارث پر کرپشن کے گدھ یوں جھپٹتے ہیں جیسے ان کو تازہ شکار مل جائے، اس کے بعد ہر پولیس کے جوان کو ایک اچھی جگہ تعیناتی، کم سے کم ڈیوٹی اور گھر جانے کے لئے چھٹی جیسے معاملات کے لئے کلرک بادشاہ کی خدمت بھی کرنا پڑتی ہے۔

اسی دوران اگر کوئی پولیس والا رشوت دینے میں پس و پیش کرتا ہے تو متعلقہ راشی عہدیداران اس کا تبادلہ سخت جگہ پر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی کے اوقات بھی زیادہ کر دیتے ہیں۔ میرے علم میں کئی ایسے کیس ہیں کہ پی سی میں ڈیوٹی کرنے والے نوجوان اپنے متعلقہ کلرک کو رشوت دے کر ہر ماہ پندرہ دن گھر اور پندرہ دن ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی، اس دور جدید میں جہاں آن لائن آرڈر جیسی سہولیات میسر ہیں، وہاں ایک غریب کانسٹیبل کی تنخواہ لگنے میں چار سے چھ ماہ کیسے لگ جاتے ہیں۔

جہاں تک موجودہ واقعے کے پس پردہ عوامل کا مجھے علم ہوا ہے، ریٹائرڈ انسپکٹر عزیز اللہ خان کی ایک پوسٹ میری نگاہ سے گزری ہے کہ کچھ دن پہلے پنجاب کانسٹیبلری کے کھانے سے کوئی کیڑا نکلا تو کچھ سپاہیوں نے اس کی ویڈیو وائرل کر دی جس پر بٹالین ون کی موجودہ ایس پی محترمہ ندا عمر چٹھہ سخت غصے میں آ گئیں جس کی پاداش میں کچھ نوجوانوں پر جرمانے بھی کیے گئے، پہلے تو تنخواہ نہیں مل رہی تھی اوپر سے جرمانہ بھی کر دیا جائے تو ایسے کانسٹیبل کی کیا حالت ہو گی جس نے اپنی اولاد اور گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ شاید اپنے بوڑھے والدین کی دوائی بھی لینی ہو۔

مکان کا کرایہ، کریانہ کے اخراجات، بجلی اور گیس کے بل کے ساتھ ساتھ بچوں کے سکول کی فیس اور پھر سیکڑوں میل دور ہر ماہ دو بار آنے جانے میں کتنے اخراجات ہوتے ہوں گے؟ کیا ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھا ایک افسر بادشاہ سوچ سکتا ہے؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں محکمہ تعلیم اور پولیس دو محکمے ایسے ہیں جہاں کسی انتہائی غریب نوجوان کو ملازمت ملنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ غریب کے بیٹے نے کون سا اپنے بیٹے کو انجینئر یا ڈاکٹر بنوانا ہوتا ہے جیسے ہی وہ میٹرک پاس کرتا ہے تو سب سے پہلے والدین کو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ اسے پولیس میں بھیج دیں تاکہ روزی کمانے کے قابل ہو جائے۔

پولیس کی تربیت کے بعد غریب کا وہی بچہ افسران اور راشی اہلکاروں کے پاؤں کی ٹھوکروں میں ایک فٹ بال بن کر رہ جاتا ہے اور سونے پہ سہاگا یہ کہ اسے اپنے گھر سے سیکڑوں میل دور انجان لوگوں کے درمیان پھینک دیا جائے۔ اب بات صرف تنخواہ بند کر دینے تک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے لاہور میں بیٹھے ہوئے کسی بھی پولیس نوجوان کو حکم ملے کہ اپنا ساز و سامان باندھیں اور رحیم یار خان کی سرحد کے پاس تھانہ کوٹ سبزل رپورٹ کریں۔

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، اسے ایک دن کوٹ سبزل کسی ڈاکو یا بلوہ کرنے والے افراد کی سرکوبی کے بعد اس کے واپس لاہور رپورٹ کرنے کا حکم سنا دیا جاتا ہے۔ ابھی وہ لاہور پہنچتا ہے کہ اسے اسلام آباد کے کسی دھرنے کو روکنے کے لئے پہنچنا پڑتا ہے۔ اسی دوران گھر سے سیکڑوں میل دور بیٹھے سپاہی کے گھر میں کوئی حادثہ یا ایمرجنسی ہوتی ہے تو اس کو کلرک بادشاہ کی مٹھی گرم کرنے کے لئے گھر سے موبی کیش کے ذریعے رقم منگوانا پڑے گی کیونکہ اس کی تنخواہ تو ابھی شروع نہیں ہوئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افسران بالا کو ان کلرک بادشاہوں کی ان تمام حرکات و سکنات کا علم نہیں ہوتا یا پھر اس مال حرام سے ان کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ ایک خدا ترس افسر اور اپنے ماتحت عملے کی ضروریات کا خیال رکھنے والے افسر کا سب سے پہلا فرض تو یہ ہونا چاہیے کہ اگر اس کا جرمانہ آن لائن بھیج دیا گیا ہے تو کم ازکم جرمانہ کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لے کہ محکمہ اس کی تنخواہ کیا ادائیگی بھی کر رہا ہے یا نہیں؟

اکثریت کو مجھ یہ اختلاف ہو گا کہ آخر وہ کانسٹیبل تنخواہ بھی تو اسی بات کی لیتے ہیں لیکن جہاں تک میری ناقص سوچ کام کرتی ہے کہ کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جہاں ایک ملازم چوبیس گھنٹے کے لئے پابند ہو۔ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سالوں میں جب ایس پی یو (سپیشل پروٹیکشن یونٹ) فورس بنی تو ملازمین کی کمی کی بنا پر پنجاب پولیس کے جوانوں کو ڈیپوٹیشن پر بھیجا جاتا تھا اور ان سے بھی ایسا ہی سلوک ہوتا تھا جیسا پنجاب کانسٹیبلری کے جوانوں سے ہو رہا ہے لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کسی خدا ترس انسان نے اس محکمے کے لئے نئی بھرتی شروع کی اور اس کو پنجاب پولیس سے الگ کر دیا گیا۔

اسی طرح پنجاب کانسٹیبلری بھی ایک الگ محکمہ ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے لئے بھی ہر ضلع سے خصوصی نوجوان بھرتی کیے جائیں جن کو اپنے ہی ضلع میں تعینات کیا جائے تاکہ جس ضلع میں بھی ضرورت پڑے، وہاں فورس پہلے سے موجود ہو۔ افسران کو اپنے رویہ میں بھی لازمی تبدیلی لانی ہو گی تاکہ خود کشی کے ایسے واقعات تسلسل سے نہ ہوتے رہیں، یہ نہ ہو کہ نوجوانوں میں ایسی نفرت اور بغاوت کی آگ پھوٹے جس کا پہلا ایندھن محکمہ پولیس کے افسران ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments