یوم تکبیر پوری قوم کا



زندہ قوموں کی تقدیر محض آرزو کرنے سے ہی نہیں بدلتی بلکہ عمل اور جدوجہد سے ہی سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بغیر جدوجہد اور قربانیوں کے تو ہم آزادی بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ جس طرح ایک آزاد مسلمان ریاست پاکستان کو بنانے کا خواب دیکھا گیا اور قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی تمام تر جدوجہد کے ساتھ ایک منتشر اور بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا اور اپنے مخالفین کی قابض فرنگیوں کے ساتھ مل کر کر بنائی گئی سازشوں اور رکاوٹوں کو پاش پاش کر کے عظیم قربانیوں کے بعد ایک آزاد اور خودمختار ریاست کو بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات تو امر ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں کہ جب صحیح وقت پر کیا گیا جراءتمندانہ فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے اور یہ بدلی ہوئی تقدیر آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔ آپ کی قربانیوں کے نتیجے میں ملنے والا پھل آپ کی نسلیں کھاتی ہیں۔

ایک ایسا ہی موقع پاکستانی قوم کو اس وقت ملا جب بھارت کے اس وقت کے نو منتخب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اقتدار میں آنے سے پہلے اپنی الیکشن کیمپین میں اپنی عوام سے کیے ہوئے وعدے کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے ایٹم بم تک چلا سکتے ہیں۔ اپنے اس وعدے کی تکمیل میں واجپائی نے 11 اور 13 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی قیادت کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جس پر عمل ایک جرات مند قیادت ہی کر سکتی تھی۔ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب ایک کانفرنس میں شمولیت کے لیے الماتی گئے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف صاحب نے وہیں سے پاکستان میں متعلقہ لوگوں کو ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے تیاری کرنے کا کہا اور خود اپنا دورہ مختصر کر کے فوراً پاکستان آ گئے۔

پاکستان واپس آنے کے کے بعد میاں نواز شریف صاحب نے تمام متعلقہ فورم کو اعتماد میں لے کر ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم صادر فرمایا اور یوں 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو حیران و ششدر کر دیا۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان عالم اسلام میں پہلا اور عالمی برادری میں ساتواں ایٹمی ملک بن گیا۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بن گیا اور خطے میں ایک توازن کی فضاء قائم ہو گئی۔ 28 مئی پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے والوں کا انجام عبرت ناک ہو سکتا ہے۔

یوں تو ہمارا پیارا پاکستان کسی جنت سے کم نہیں ہے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے والے محب وطنوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں برتا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر شہید کر دیا جاتا ہے اور پانچ ارب ڈالر کی امریکی آفر کو ٹھکرا کر اور برطانیہ اور کینیڈا کے وزرائے اعظم کے ٹیلی فون کی پرواہ نا کرتے ہوئے بھارتی جارحیت اور دہشت گردی اور ان کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکوں سے منہ توڑ جواب دینے والے میاں نواز شریف صاحب کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ 1999 میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان پر طیارہ ہائی جیک کیس بنا کر ملک بدر کرنے کی وجوہات شاید یہی ایٹمی دھماکے ہی تھے۔

اس وقت وزیراعظم میاں نواز شریف اگر چاہتے تو امریکہ سے پانچ ارب ڈالر لے کر اپنی جیب میں ڈالتے مگر انہوں نے ملک اور عوام کے ساتھ اپنے مضبوط رشتے کو مقدم جانا۔ ایٹمی دھماکوں کے 8 ماہ بعد ہندوستان کے وزیراعظم واجپائی خود پاکستان آئے اور اس نے کہا کہ پاکستان ایک ایسی قوت بن چکا ہے کہ اب کوئی بھی پاکستان کو میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ بقول میاں نواز شریف صاحب ایٹمی دھماکے کرنا پاکستان کی سیکیورٹی، عزت اور غیرت کا مسئلہ تھا۔ میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایک مہینے کے کام کو 17 دنوں میں مکمل کر دیا اور ایٹمی دھماکوں کے لیے ٹنل تیار کر لی جس کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ اب ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے کوئی پاکستان کو میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں آج تک ایک دوسرے کی حلیف نا بن سکیں۔ مانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی سخت حریف ہوتی ہیں مگر زندہ قوموں اور مہذب معاشروں میں سیاسی اختلافات بھی اخلاقی اقدار کے تابع ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر آج تک اتنی اخلاقی جرات پیدا نا ہو سکی کہ ہم اپنے حریف کے اچھے کاموں کی تعریف کو سہ سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی کو بھولنے والوں کا مستقبل بھی بھولا ہوا ہوتا ہے کیونکہ مستقبل نے بھی کبھی ماضی کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ جو اپنے مخالفین کی خوبیوں کا اعتراف نا کر سکے تو تاریخ اس کی بھی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہوتی ہے۔

چاہے میاں نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے ہوں یا موٹرویز کے جال بچھانے کا معاملہ، ملک سے بدترین دہشت گردی ختم کرنے کا معاملہ ہو یا ملک سے بدترین لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا، اعلیٰ ظرف حریف تعریف کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر ہمارے ملک میں سیاست میں تو ایسے معاملات نظر نہیں آتے۔ عوام کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اعلیٰ منصبوں پر بیٹھے نا اہل اور غیرمعیاری لوگوں کی وجہ سے قوموں کا وجود خطرات میں گھر جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ہر سال یوم تکبیر آتا ہے تو میاں نواز شریف کے مخالفین اور حکومت کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ بات تو امر ہے کہ جب جب 28 مئی کا ذکر آئے گا تو میاں نواز شریف کا ذکر ناگزیر ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب یہ ایٹمی دھماکے کرنے والوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سال یوم تکبیر منائیں۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا تو پوری قوم کے لیے قابل فخر ہے۔ یوم تکبیر بھی ہم سب کا ہے پوری قوم کا ہے۔ یوم تکبیر سے انکار کرنا دراصل پاکستان کے اس افتخار سے انکار ہے جس کی وجہ سے قوم کو عزت ملی۔ یاد رکھیں ہم بہت کچھ نیا بنا سکتے ہیں مگر تاریخ نہیں۔ تاریخ سے انکار مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے اور اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ 28 مئی پاکستانی قوم کا باطل اور دشمن قوتوں کے آگے نا جھکنے کا دن ہے۔

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو​


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments