مریم نواز، پیپلز پارٹی کی مخالف یا اپنی ہی جماعت کی۔


پی ڈی ایم کے عملی طور پر غیر فعال ہونے کے بعد سے اب تک مریم نواز اور ان چند قریبی رفقاء خاص طور پر شاہد خاقان عباسی، اور مریم صاحبہ کی سوشل میڈیا برگیڈ جس طرح پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت یہاں تک کے شہید بھٹو اور بی بی کے خلاف تند و تیز لہجہ اپنائے ہوئے ہیں وہ ناقابل برداشت اور ناقابل فہم ہے۔ میاں شھباز شریف نے ضمانت پہ رہائی کے بعد سے بحیثیت قائد حزب اختلاف پوری کوشش کی ہے کہ کسی طرح سے تتر بتر ہوتے اپوزیشن اتحاد کو ایک بار پھر متحد کر کے حکومت کے خلاف ایک مضبوط تحریک میں تبدیل کیا جا سکے، عوامی مسائل پہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا سکے، مگر لگتا تو ایسا ہے جیسے مریم نواز نے ماضی سے بالکل بھی سبق نہیں سیکھا، وہ پیپلز پارٹی کے خلاف اس قدر نفرت کا کھل کر اظہار کر رہی ہیں اور زہر اگل رہی ہیں جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نظر نہیں آ رہی۔

لگتا ہے انہیں اب تک آصف علی زرداری صاحب کے وہ الفاظ چبھ رہے ہیں کہ ”میاں صاحب پاکستان واپس آئیں اور آ کر انقلاب کی قیادت کریں ہم سب ایک ساتھ جیل چلتے ہیں“ مگر مریم صاحبہ اپنے والد کی جانب سے زہر میں ڈوبے الفاظ بھول گئیں جب انہوں نے پیپلز پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے اسی میٹنگ فرمایا تھا کہ ”کوئی اقتدار کے لیے ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے“

میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی دراصل آج کل اپنی پارٹی میں ہی اپنے انتہائی جارحانہ اور ریاست مخالفانہ موقف کی وجہ سے مشکلات و تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ لوگ کھلے عام تو کچھ اندرون خانہ بڑے میاں اور مریم کے بیانیے سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں، بڑے میاں صاحب اسی بنا پر اپنے پارٹی اکابرین کو واضح طور کہ چکے ہیں کہ جو میرے بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ یا خاموش رہے یا راستہ الگ کر لے۔

مریم صاحبہ کی پیپلز پارٹی کے خلاف گولا باری کے بعد لگتا ہے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب یہ طے کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے ساتھ اب مزید کوئی بھی بات چیت ان کے صدر میاں شھباز شریف کے علاوہ کسی سے نہیں ہوگی، اس کا انہوں نے یہ کہہ کر برملا اظہار کیا کہ ”وہ میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ کو جوابدہ نہیں ہیں، وہ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کے بیانیے کو مسلم لیگ نون کا بیانیہ سمجھتے ہیں“ چیئرمین بلاول کی جانب سے ڈسکہ اور خوشاب کے ضمنی انتخاب میں نون لیگ کی کامیابی پہ میاں شہباز شریف کو مبارکباد دینا اور کراچی کے ضمنی انتخاب میں میاں شہباز شریف کا چیئرمین بلاول کو مبارکباد دینا مریم صاحبہ کی جھنجھلاہٹ اور فرسٹریشن میں اضافے کا باعث بن گیا۔

ابھی حال ہی میں نون لیگ کے صدر قائد حزب اختلاف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو عشائیے کی دعوت نے مسلم لیگ نون کے اندر بڑھتی چپقلش اور افراتفری کو اس وقت مزید واضح کر دیا جب اس دعوت میں مریم نواز کو نہ تو مدعو کیا گیا نہ ہی ان سے اس سلسلے میں کوئی مشاورت کی گئی، اگلے ہی روز مریم صاحبہ نے احتساب عدالت میں پیشی کے دوران جو گفتگو فرمائی وہ ان کے غصے اور جھنجھلاہٹ کو عیاں کرتی ہے، ان کے معتمد خاص شاہد خاقان عباسی جن کی ذاتی پہچان اس بات سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد حادثاتی طور پر وزیراعظم بن گئے تھے وہ اپنی مالکن سے زیادہ پیپلز پارٹی کے خلاف توہین آمیز اور زہریلا لہجہ اپنائے ہوئے ہیں جس کی پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید مذمت اور ناراضگی کا برملا اظہار کیا گیا۔

مریم صاحبہ نے اس سے پہلے جوش خطابت میں اکثر جگہوں پہ ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا، انہوں نے یہاں تک کہا کہ ”اب نواز شریف کے خلاف بولنے والے کی زبان کھینچ لیں گے“ اب وہ کتنوں کی زبانیں کھینچیں گی یہ تو وقت بتائے گا مگر فی الحال ان کی اس نابالغ سیاست اور سیاسی اپروچ نے مسلم لیگ نون کو اس دوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں اب ان کی اپنی صفوں میں انقلاب اور مفاہمت کے بیانیے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ مسلم لیگ نون کی اکثر لیڈرشپ شدید مخمصے کا شکار نظر آتی ہے کہ کس نقطہ نظر کا ساتھ دیں، یقیناً اس وقت پنجاب میں میاں نواز شریف کے بیانیے کو عوامی پذیرائی حاصل ہے مگر پارلیمانی سیاست کرنے والے پنجاب کے بڑے بڑے پنڈت اس بات پہ متفق ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج مخالف بیانیہ پنجاب میں زیادہ عرصے اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ پائے گا کیونکہ پنجاب کے ہر دوسرے گھر میں پاک فوج سے وابستگی رکھنے والا ملے گا اور پنجاب کی سیاست فوج مخالف کبھی نہیں رہی لہذا اس بیانیے کے ساتھ چلنا پنجاب میں مسلم لیگ نون کی صنعتکار، فیوڈل اور کاروباری اشرافیہ کے لیے خاصا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن فیصلہ ہوگا۔

سردار ایاز صادق کی جانب سے چودھری نثار کے اعزاز میں دیا گیا ظہرانہ بھی یقیناً کسی کی آشیرباد کے بغیر نہیں رکھا گیا ہوگا۔ ایک طرف میاں شہباز شریف مفاہمت کے ذریعے پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ رکھ کر اپنی جماعت کے کھوئے ہوئے مقام کو واپس حاصل کرنے، اپنے ساتھیوں کی مشکلات کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تو دوسری جانب بڑے میاں صاحب کے احکامات پہ مریم صاحبہ اور شاہد خاقان عباسی جیسے سیاسی نابلد نابالغ، شعلہ بیانیوں سے ان کی کوششوں کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

مریم نواز کے پیپلز پارٹی مخالف بیانات کے بعد دونوں جماعتوں کے سوشل میڈیا جنگجووں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے، اس جنگ میں مریم صاحبہ کے متوالوں نے روایتی گالم گلوچ اختیار کی ہوئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے جیالے بھی خم ٹھونک کر مخالفین کے خلاف صف آرا ہیں مگر پیپلز پارٹی کی روایتی برداشت ان کے رویوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی جیسے چند لوگ مسلم لیگ نون کو مفاہمتی سیاست کے بجائے ایک ایسے سیاسی دوراہے کی طرف لے کر جا رہے ہیں جہاں سے کسی بھی وقت مسلم لیگ نون کا کوئی اور دھڑا ان کے مقابل کھڑا ہو کر انہیں چیلنج کر رہا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی بڑے میاں اور بیٹی کی انقلابی للکار سے تنگ ایسی کارروائی کی حمایت کر رہی ہو کہ جس کے بعد پنجاب میں بھی منقسم عوامی مینڈیٹ مستقبل میں ان کے لیے اقتدار اعلیٰ پہ ان کی گرفت کو اور مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔

اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کو درپیش بدترین انتظامی، معاشی، خارجی اور سیاسی چیلنجز میں سیاسی بلوغت کے ساتھ مفاہمت کو ترجیح دی جائے ملک کی تمام محب وطن سیاسی جماعتیں اور قیادت سر جوڑ کر پاکستان اور قوم کو مشکلات، مہنگائی، بیروزگاری اور بھوک کی دلدل سے نکالنے کے کسی مربوط و منظم روڈ میپ کے مطابق ساتھ چلیں نہ کہ ذاتی خواہشات اور مفادات کے لیے جماعتوں کے درمیان رنجشیں اور نفرتیں بڑھا کر ملک کو بند گلی میں دھکیل دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments