بھوٹان میں صحافی آزاد ہیں


کہتے ہیں کہ بہت عرصے بعد کوئی کام کرو تو اس کو کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ دماغ کو زنگ لگ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم بھی آج بہت عرصے کے بعد آپ کی خدمت میں کچھ لکھ کر پیش کر رہے ہیں۔ کسی بھی قسم کی کوتاہی، نالائقی یا کم علمی کو درگزر کیجئے گا۔ اتنا عرصہ تاخیر کی وجہ کچھ تو مسائل روزگار تھے اور کچھ یو ٹیوب کی طرف رخ تھا۔ جو بات کہنا چاہتے تھے وہ ویڈیو کی شکل میں کہہ دیتے تھے۔ نہ کہہ سکتے تو کسی سے کہلوا دیتے تھے۔

اب آپ کو اچنبھا ہو گا کہ آسٹریلیا میں رہنے والی کے لیے کوئی بھی بات کہنا کیا مسئلہ ہے۔ کس کا ڈر ہے؟ یہ کیا بات ہوئی کہ بات کہہ نہیں پاتی؟ آپ کے سوالات اپنی جگہ بجا ہیں۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ لیکن وہ کیا ہے کہ جہاں بھی رہ لوں رہوں گی تو پاکستانی ہی۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد شاید بہت سے لوگوں کو مایوسی ہو گی کہ خود کو یوں طرم خان دکھانے والی بی بی کا حوصلہ اور جگرا بس اتنا سا ہی کیوں ہے۔ لیکن زمینی حقائق سے نظر چرانا تو غالباً کبوتر کے لیے ہی ممکن ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ وہ بلی کے سامنے آنکھیں بند کر لے۔ انسان کے بس کی بات نہیں۔

بھلے میں پاکستان سے دور ایک دور افتادہ جزیرے پر رہوں جہاں کی حکومت میرے جان ہو مال کی حفاظت کی حقیقی معنوں میں ضامن ہے پھر بھی کوئی بات لکھتے یا کہتے ہوئے دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ خدا جانے اس کے ثمرات کیا ہوں۔ پاکستان میں رہنے والے میرے گھر والوں کو کس قسم کے سوال جواب کا سامنا کرنا پڑے۔ پاکستان سے نکلے پانچ برس ہونے کو آئے لیکن وہ خوف جو پاکستان کے صحافیوں کی بالعموم اور خاتون صحافیوں کی بالخصوص شخصیت کا خاصہ بن چکا ہے وہ ہماری ذات کے ہالے میں بھی بسا ہوا ہے۔

ہمارے سینئر ہمیں اکثر اوقات مارشل لاؤں کا ذکر سناتے ہیں کہ انہوں نے کس قسم کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کس طرح آزادی صحافت پر لگائی جانے والی قدغنوں کا سامنا کیا۔ کیسے جیلیں کاٹیں۔ کوڑے کھائے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آج کے بچوں کو یہ بتایا جائے کہ تمہارے دادا دس کوس کا فاصلہ پیدل طے کر کے اسکول جاتے تھے۔ کھمبے کی روشنی میں رات کو پڑھتے تھے۔ اس زمانے کی سب مشکلات بجا کہ تب یقیناً صحافت اور تخلیقی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک مشکل دور کا سامنا تھا۔

لیکن اگر جسارت کی گستاخی معاف ہو تو یہ عرض کرتی چلوں کہ یہ دور شاید تب سے زیادہ کٹھن ہے۔ کہ مارشل لاء میں کم از کم یہ علم تو ہوتا ہے کہ کسی بات کہ اجازت نہیں۔ ہر چیز پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ آج کے ڈھونگی جمہوری دور میں تو صحافیوں کو دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔ بغل میں چھری اور منہ پر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ الاپا جاتا ہے۔ صحافی تو چھوڑیے ان تو کسی سوشل میڈیا صارف کو بھی اس بات کی تسلی نہیں کہ چند مقدس جانور (جن میں گائے صف اول ہے ) کی شان میں کی گئی کسی بھی قسم کی گستاخی شمالی علاقہ جات کی سیر کرا سکتی ہے۔ محکمہ زراعت کے گیسٹ ہاؤسوں کا مہمان بنا سکتی ہے۔ کالی ویگو گاڑی میں ڈور ٹو ڈور پک اینڈ ڈراپ سروس مہیا کر سکتی ہے۔ ایسی مہمانداری کا مزہ دلا سکتی ہے جس میں نہ مہمان اپنی مرضی سے آتا ہے نہ جاتا ہے۔

اس پر اکتفا نہیں بلکہ اگر مدثر نارو کو بیوی کی موت تک پر اس کا چہرہ نہ دکھایا جائے، مطیع اللہ جان کو بیگم کے اسکول کے باہر سے ہی اٹھا لیا جائے، ابصار عالم کو گولیوں کا نشانہ بنایا جائے یا اسد طور پر اس کے گھر میں گھس کر تشدد کیا جائے تو قصور بھی اسی کا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ انہیں ڈھونگی اور توجہ کا بھوکا کہا جاتا ہے۔ ان ہی کے زخموں پر طنز و تذلیل کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ ان کے حق میں بات کرنے والوں کو بھی ایسی ہی عزت افزائی بخشی جاتی ہے۔ ان ہی پٹنے والوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ بھوٹان سے زیادہ صحافیوں کو کہیں آزادی حاصل نہیں۔

تو صاحب، ایسی ڈھونگی اور بھونڈی جمہوریت میں جہاں وفاقی وزیر بیرون ملک انٹرویوز میں طلعت حسین کو صحافی تک ماننے سے انکار کر دیں، صحافیوں کو گھر گھس کر مارا جائے، ظل الہی کا قصیدہ پڑھنے والوں کا منہ اشرفیوں سے بھر دیا جائے، حاکم وقت سے سوال کرنے والوں کے چہروں پر غداری کے طمانچے مارے جائیں، ان کی روزی چھین لی جائے، وہاں ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم ایسی بہادری سے باز آئے۔ یہاں تو گھبرانے تک کا سامان میسر نہیں۔ ہمارے لیے کون ریلی نکالے گا۔ ہم یہیں آتش دان کے سامنے بیٹھ کر مونگ پھلی کھانے میں خوش ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments