کورونا وائرس اور بدلتے تعلیمی رحجانات


جیسا کہ کورونا وائرس نے اس کرہ ارض اور اس پر بسنے والی ہر شے، خصوصاً انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے وہیں طلبہ و طالبات اور ان کے رجحانات کو بھی یکسر بدل دیا ہے۔ ناصرف آج کا تعلیمی ماحول، بلکہ طالب علم بھی ویسا نہیں رہا جو 2020 کا سورج طلوع ہونے سے پہلے تھا۔ جیسا کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے مثبت اثرات کی نسبت منفی اثرات کہیں زیادہ واضح اور شدید ہوتے ہیں تو کورونا وبا کے تعلیم پر ہونے والے اثرات میں بھی یہی رجحان نمایاں ہے۔ ناصرف تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے والا انتظامی ڈھانچہ ناکام نظر آتا ہے بلکہ اس کے افسران کی ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔ جہاں طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کی تعلیمی نفسیات میں تبدیلیاں واضح ہیں تو اساتذہ بھی ان اثرات سے مبرا نہیں ہیں

وائرس کے خطرہ کے پیش نظر تعلیمی اداروں کا بار بار بند ہونا اور کھلنا غیر یقینی میں اضافہ اور تعلیم سے منسلک لوگوں کی سنجیدگی میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اساتذہ، والدین اور طلبہ کے ساتھ ساتھ پورا ایجوکیشنل سسٹم ہی ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی پر عمل پیرا نظر آ رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی حقیقت کو تسلیم کر کے متبادل تعلیمی نظام وضع کیا جاتا اس بات کا انتظار کیا جانے لگا کہ شاید دو چار مہینے میں وائرس ہی ختم ہو جائے گا۔ ایسا بھلا کیسے ممکن ہے؟ سائنس کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا طالب علم بھی اس سوال کا جواب ”نہیں“ میں دے گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خطرہ کے پیش نظر سکولز اور کالجز میں تعلیم صرف اس وجہ سے جاری نہ رہ سکی کہ بچوں اور طلبہ کی آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی نہ تو استعداد تھی اور نہ ہی ان کے پاس وہ آلات تھے جس سے ایسا ممکن ہوتا۔ مزید یہ کہ اساتذہ بھی ذہنی اور فنی لحاظ سے اس کے لئے تیار نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو تعلیم دی جا سکی اور نا ہی سالانہ طرز کے امتحانات کا کوئی مربوط نظام بن سکا۔ البتہ یونیورسٹیز کسی حد تک روایتی تعلیم کی بجائے آن لائن تعلیم کے نظام پر منتقل ہونے اور سمیسٹر طرز کے امتحان لینے میں کامیاب رہی ہیں۔

مگر تعلیمی معیار پر سوالیہ نشان ایک الگ پہلو ہے جس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ یہاں پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دو ویڈیوز کا ذکر پہلے کرتے ہیں جن میں سے ایک میں بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ آن لائن تعلیم دینا ہماری مجبوری ہے، اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر آن لائن امتحانات ایک بہت بڑا ”گھپلا“ بن چکا ہے۔ وہ اس دلیل کی سپورٹ میں اپنی فیملی سے ہی کچھ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ دوسری وائرل ویڈیو میں ایک امیدوار کا 2024 میں ہونے والا انٹرویو دکھایا جاتا ہے تو جیسے ہی یہ پتا چلتا ہے کہ امیدوار نے گریجوایشن 2021 میں آن لائن امتحان دے کر کی ہے تو اس کا انٹرویو کیے بن ہی معذرت کر لی جاتی ہے۔

البتہ کورونا وائرس سے تعلیمی نظام میں ہونے والی تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اب اساتذہ اور طلبہ نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی اہمیت کو ناصرف تسلیم کر لیا ہے بلکہ وہ اس کے استعمال میں بھی روز بروز اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طرح ہمارا روایتی معاشرہ کم از کم اس لحاظ سے تو سائنس کے وجود اور طاقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آیا ہے۔ سوسائٹی میں سمارٹ فون، آن لائن سافٹ ویئرز، اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہر اور پروفیشنلز کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم منفی اثرات کی فہرست طویل بھی ہے اور مایوس کن بھی۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پہلے سے کمزور تعلیمی معیار اب زمین بوس ہو چکا ہے۔ نہ تو گھروں میں آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی بنیادی سہولیات میسر ہیں اور نا ہی طالبعلم اس میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔

اساتذہ یہ امید کرتے ہیں کہ طالبعلم خود ہی پڑھ لیں یا ان کے والدین ان کو پڑھنے میں مدد کریں جو خود کورونا سے ہونے والے معاشی نقصان کے دباؤ میں ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طالبعلم کی نفسیات ایسی بن چکی ہے کہ وہ آن لائن کلاس میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں لیتے اور ساری توجہ آن لائن امتحان کے دوران نقل پر مرکوز کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ امتحان میں نقل کے امکانات میں اضافہ کے لیے طلبہ کے بہانے اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ممتحن کے لیے تفریح کا کافی سامان فراہم کر دیتے ہیں۔

پھر جب طلبہ کے جواب موصول ہوتے ہیں تو کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ گوگل سرچ انجن کے اشتہارات بھی جوابات میں شامل ہوتے ہیں اور طلبہ کے جوابات میں مماثلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ مجال جو فل اسٹاپ یا کوما کا بھی فرق ہو۔ دوسری جانب طلبہ بھی یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آن لائن ٹیچنگ میں ٹیچرز بھی ان پر اتنی محنت نہیں کرتے جتنی کہ ان کا بنیادی حق ہے بلکہ انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود مواد کے لنکس بھیج کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے لیکچر کی ڈیمانڈ پوری کر دی ہے۔

اب ہم ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں جن کے باعث اس وبا کے پیش نظر تعلیم کا کوئی متبادل ٹھوس نظام وضع نہ کیا جا سکا۔ ان عوامل میں سرفہرست وہ نقطہ نظر ہے جو لوگوں کو یہ امید دلاتا ہے کہ یہ وائرس کچھ دنوں یا مہینوں میں غائب ہو جائے گا اور تعلیمی ادارے جلد ہی 2020 سے پہلے کی پوزیشن میں چلے جائیں گے۔ حالانکہ ایسا شاید اب اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکے گا جب تک ہماری آبادی کے بیشتر حصے میں اس وائرس اور اس کی مختلف اشکال کے خلاف قوت مدافعت نہ پیدا ہو جائے۔

دوسرے نمبر پر تعلیم کے لیے ہماری سوسائٹی میں پائی جانے والی عمومی غیر سنجیدگی ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا کوئی ٹھوس نظام وضع کرنا سرے سے ہماری ترجیح ہی نہیں ہے۔

ان عوامل کے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے کہ کس طرح کورونا وائرس کی وبا ہمارے ملک کے پہلے سے کمزور تعلیمی ڈھانچے کو مزید کھوکھلا کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنس پر اعتماد کر کے اس وائرس کے مہلک ہونے کی حقیقت کو تسلیم کیا جائے اور ویکسین لگوانے کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر روایتی تعلیم کا متبادل نظام تشکیل دیا جائے جو آن لائن اور کیمپس کی تعلیم کے قابل عمل اشتراک پر مبنی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments