”ہائبرنیشن“ کی پاکستانی شکل



پہلے شہزاد نیئر کی نظم پڑھ لیں۔ بات پھر آگے بڑھے گی۔
”ہائبرنیشن“
میں صدیوں سے تنہا
گھٹن میں گندھے حبس تاریک میں سانس روکے پڑا ہوں
بدن کے غلیظ اور سیلن زدہ دل میں بے حس و حرکت نومولود مٹی میں لتھڑا ہوا ہوں
نہ جانے میں زندہ ہوں
اک تنگ تاریک مسکن میں ساکن
میرے سرد سینے میں آدھا تنفس
نہ پتلی میں حرکت
نہ آنکھیں ہی روشن
بدن کے اسی غار میں نیم مردہ
میری ذات ہے لمبے عرصے کی قیدی
میں سسکتے سسکتے ان آنکھوں کے روزن تک آتا ہوں
اور ڈرتی ڈرتی نگاہوں سے
چو گرد پھیلا سماں دیکھتا ہوں
نہیں۔ بل کے باہر کا موسم
ابھی ساز گاری پر مائل نہیں ہے
ابھی ایسا سورج جہان کے افق پر نمودار ہونا ہے
جو میری پسلیوں میں کرنوں کا نیزہ چبھو کر کہے
اٹھ کھڑا ہو

نظم آپ پڑھ چکے۔ اب ہائبرنیشن کا مطلب بھی سمجھ لیں۔ ناموافق حالات میں پوری حیات سے کنارہ کش ہو کر آدھی حیات پر قناعت کرنے کے عمل کو ہائبرنیشن کہتے ہیں۔ میں نے بہت ڈھونڈا ہے۔ میرے خیال میں اس لفظ کا اردو میں کوئی مکمل مترادف نہیں۔ بعض جانوروں میں مثلاً سانپ، مینڈک، برفانی ریچھ اور کئی رینگنے والے کیڑوں میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے۔ آپ غور کریں تو آپ کو کچھ قوموں، شہروں، بستیوں اور سیاسی جماعتوں میں بھی یہ کیفیت نظر آئے گی۔ ایک شاعر اپنے ماحول سے متاثر ہو کر ہی لکھتا ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ اسی ہائبرنیشن کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ممبر اسمبلی کے اپنی جماعت چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شمولیت پر کبھی شہریوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

کسی ووٹر نے اس ”نقل مکانی“ کے بارے کبھی کوئی باز پرس نہیں کی۔ ہمارے ملک میں سیاسی کارکن نامی ایک مخلوق ہوا کرتی تھی۔ وہ سیاست میں زندگی کی علامت تھی۔ اب سیاسی کارکن نام کی کوئی چیز کہیں نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی ٹکٹوں کے خریدار امیر زادے ہیں جو اپنی گاڑیوں پر ممبر اسمبلی کے اسٹکر لگانے کی شدید خواہش میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ ادھر اسی پاگل پن کو سیاسی سرگرمیاں سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بے بسی سے بتا رہے ہیں کہ نیب کرپشن نہیں روک سکا۔

وزیر اعظم کے بیان سے ملا کر یہ خبر بھی پڑھ لیں۔ شوگر فیم جہانگیر ترین کے گروپ کے تمام تحفظات دور ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی محض اظہار برہمی ہی کر سکے ہیں۔ ”اربوں کے نقصان پر پوری سٹیٹ بینک انتظامیہ کو فارغ کر دینا چاہیے تھا“ ۔ اگر اختیار بھی ناتمام خواہش میں ڈھل کر رہ جائے تو اسے ہائبرنیشن کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ کی آڑ میں 131 ارب مالیت زمین کی خرید و فروخت ہوئی۔

منافع میں سے پھوٹی کوڑی بھی سرکار کے ہاتھ نہیں آئی۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کی ابتدائی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ رنگ روڈ کی نئی الائنمنٹ سے پچاس سے زائد طاقتور لوگوں نے ممکنہ فائدہ اٹھایا ہے۔ یاد رہے نواز شریف دور میں بھی ”چکری والوں“ کو فائدہ پہنچانے کے لئے موٹر وے کی لمبائی بڑھانے کا چکر چلایا گیا تھا۔ یہ فاصلہ بڑھنے سے وقت، پٹرول اور مشینری کے ضیاع پر کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا۔ ایک مردہ قوم غور کر بھی کیسے سکتی ہے۔

شیخوپورہ سے ایک دردناک خبر آئی ہے۔ یہ فرد کی بھرپور انفرادی زندگی اور قوم کی اجتماعی موت کی کہانی ہے۔ میونسپل کارپوریشن شیخوپورہ کی طرف سے اپنی ملکیتی 720 دکانوں کی نیلامی کا عمل شروع ہے۔ شہر کے معروف تاجر احمد خورشید (گلشن کراکری والے ) کی دکان محمد زبیر نامی تاجر نے ایک ارب چوبیس کروڑ روپے بولی دے کر اپنے نام کروا لی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دکان کا کرایہ عرصہ دراز سے اب تک صرف 22 ہزار روپے ماہوار تھا۔

اس دکان کے اجتماعی مالکان (عوام ) کی جانب سے اس لوٹ مار پر کوئی احتجاج، شور دہائی، غم و غصے کا اظہار، کچھ بھی تو نہیں۔ اس کے برعکس ایک شخص بعوض دس ہزار روپے ماہوار عرصہ دراز سے کارپوریشن کا کرایہ دار تھا۔ اس کی دکان اوپن نیلامی میں ایک دوسرے شخص نے ایک لاکھ دس ہزار روپیہ ماہوار کرایہ پر حاصل کر لی۔ پہلا کرایہ دار اپنا ”نقصان“ برداشت نہ کر سکا۔ اسی دم ہارٹ اٹیک کے باعث اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اردو لغت میں ہائبرنیشن کے لئے پہلے ہی کوئی موزوں لفظ نہیں۔ ہمارے ہاں ہائبرنیشن کی اک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ ہماری قوم انفرادی مفادات میں پوری طرح زندہ ہے لیکن اجتماعی قومی مفادات کے لئے اس پر موت طاری ہے۔ جب علامہ اقبالؒ نے فرمایا۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

اس وقت علامہ اقبالؒ کے ذہن میں ہائبرنیشن کی یہ نئی پاکستانی شکل بالکل نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments