انڈیا سے معمول کے تعلقات کی بحالی کشمیریوں سے بہت بڑی غداری ہو گی: عمران خان


اتوار کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کشمیریوں کے خون پر انڈیا سے تجارت نہیں ہو سکتی اور ’اگر ہم اس وقت انڈیا سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے۔‘

خیال رہے کہ کچھ عرصے قبل وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ نے انڈیا کے ساتھ تجارت کی بحالی سے متعلق وزارتِ کامرس کی سمری مسترد کر دی تھی۔

یہ سمری دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری اور سویلین حکام کے رابطوں کے بعد عمران خان کی کابینہ کو بھیجی گئی تھی۔

‘آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ’ کے عنوان سے عوام سے لائیو ٹیلی فون پر عمران خان نے عوام کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جب فوج حکومت کرتی ہے تو بدقسمتی سے ان کو ادارے کمزور کر کے حکومت میں آنا پڑتا ہے، عدلیہ اور دیگر اداروں پر کنٹرول کر کے ان کو اپنے نیچے لانا پڑتا ہے۔

’انڈیا سے تعلقات، کشمیریوں سے بہت بڑی غداری

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انڈیا سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں۔۔ ایک طرف ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دوسری طرف انڈیا ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ساتھ بڑی مارکیٹ ہے۔۔ تو ہمارے رابطے ہوں اور تجارت شروع ہو جائے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے، جب یورپی یونین بنی تھی تو سب کو فائدہ ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان انڈیا تعلقات میں حالیہ بہتری سے کیا کوئی فوری اور بڑی تبدیلی آ سکتی ہے؟

متحدہ عرب امارات پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کا ’رسک‘ کیوں لے رہا ہے؟

کیا پاکستانی فوجی سربراہ انڈیا سے تعلقات میں ’نکسن چائنا سینڈروم‘ کا شکار ہیں؟

عمران خان نے کہا کہ اسی لیے میں نے حکومت میں آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ انڈیا سے تعلقات اچھے ہوں، ایک ہی مسئلہ کشمیر ہے جس کو بات چیت سے حل کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس وقت انڈیا سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے۔ ان کی ساری جدوجہد اور تقریباً ایک لاکھ شہدا کو نظر انداز کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہماری تجارت بہتر ہو گی لیکن کشمیر کا خون ضائع ہو جائے گا، لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ انھوں نے کس قسم کی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، اس لیے ان کے خون پر پاکستان کی تجارت بہتر ہو گی تو یہ نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائے تو پھر بات ہو سکتی ہے، پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ایک روڈ میپ لا سکتے ہیں اور بات بھی کر سکتے ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ پیشرفت اور پیغامات

خیال رہے کہ یوم پاکستان کے موقع پر انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے نام پیغام بھیجا، جس میں یہ درج تھا کہ ’انڈیا پاکستان کے عوام سے خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے‘۔

یہی نہیں، جب عمران خان کورونا وبا سے متاثر ہوئے تو مودی نے انھیں صحتیابی کا پیغام بھجوایا تھا۔ فضا میں تبدیلی کے کئی دیگر آثار بھی نظر آئے ہیں جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی جانب سے گذشتہ دنوں انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں بیانات دیے گئے۔

رواں برس فروری میں دونوں پڑوسی ممالک کے ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹرز نے اچانک کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور اس وقت سے جنگ بندی پر مکمل طور پر عمل ہو رہا ہے۔ جنگ بندی کے اس اچانک اعلان پر سبھی کو حیرت ہوئی تھی اور کئی حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دی کہ انڈیا اور پاکستان کے اہلکار حالات معمول پر لانے کے لیے پس پردہ بات چیت کر رہے ہیں۔

عمران خان: مسئلہ فلسطین بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ہے

وزیر اعظم عمران خان نے عوام سے گفتگو میں جسے ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایا گیا فلسطین پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کی طرح ہے، وہاں بھی ان کی زمینوں پر قبضہ ہے لیکن کشمیر میں ابھی شروع ہوا ہے، جہاں ان کی زمینوں کی ملکیت تبدیل کر رہے ہیں، یعنی باہر سے لا کر کشمیر میں لوگوں کو بسا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اسی طرح فلسطین تھوڑا سا رہ گیا ہے باقی سب پر اپنے لوگ لا کر بسایا اور قبضہ کر لیا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ فلسطین میں لوگوں کو ڈرا کر خوف سے دبا دے گا کیونکہ ان کے پاس طاقت ور فوج ہے لیکن یہ حل نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا ظلم کریں گے کہ وہ چپ کر کے غلام بن جائیں گے، سب کو پتا ہے یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘دو حل ہیں یا تو پھر یہ ان کو جس طرح مسلمان اور یہودیوں کو آج سے 5 یا 6 سو سال پہلے سپین سے نکال دیا گیا تھا، نسلی بنیادوں پر خاتمہ کر دیا تھا، یا تو یہ وہ کریں گے۔ یا پھر ان کو دو ریاستی حل نکالنا ہو گا یعنی فلسطینیوں کو منصفانہ گھر دینا پڑے گا، میرے خیال میں اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا میں جو شعور اور جس طرح کی تحریک چل پڑی ہے، یہ تحریک فلسطینیوں کو ایک حل دینے کی طرف جائے گی’۔

تجارت

پاکستان اور انڈیا کی تجارت کتنی مالیت کی ہے؟

انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر یعنی عالمی مرکزِ تجارت اقوامِ متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مشترکہ مینڈیٹ کے ساتھ عالمی تجارت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔

آئی ٹی سی نے خصوصی تجارتی نقشہ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے دنیا کے 220 ممالک کے درمیان تمام 5300 اشیا میں ہونے والی تجارت کے ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ اعداد و شمار رکھے جاتے ہیں۔ کسی بھی دو ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کے اعداد و شمار بھی یہاں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

آئی ٹی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں پاکستان سے انڈیا کو برآمدات کی کل مالیت 383 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ رہی لیکن یہ پاکستان کی برآمدات کا محض دو فیصد ہے۔

جبکہ پاکستان نے اسی عرصے میں انڈیا سے جو اشیا درآمد کیں ان کی مالیت ایک عشاریہ نو ارب امریکی ڈالر تھی جو پاکستان کی درآمدات کا محض 3 فیصد تھا۔

باقی دنیا کی طرح انڈیا کے ساتھ تجارت میں بھی پاکستان خسارے میں ہے یعنی تجارتی توازن انڈیا کے حق میں ہے۔

تاہم پاکستان میں کاروباری ماہرین اور صعنت و تجارت کے شعبوں سے منسلک حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جن اجناس کی تجارت ہوتی ہے ان کی عدم دستیابی کی وجہ سے دونوں جانب چند صنعتیں اور عام صارفین نقصان اٹھا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp