نامعلوم افراد کو گالیاں کیوں؟


قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے ایک بار پھر صحافتی توپوں کے دہانے پر ہیں اور اس بار یہ گولہ باری صحافی اسد طور پر نامعلوم افراد کے تشدد کے باعث شروع ہوئی ہے۔ اگر اس گولہ باری کو قبل از وقت اور بلاجواز کہا جائے تو یہ درست نہیں ہو گا کیونکہ ہر بار جب بھی نامعلوم افراد نے صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے تو کسی بھی رپورٹ میں نامعلوم افراد کا کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے جس سے یہ بات کرنے میں آسانی ہو کہ فلاں کارروائی فلاں گروپ نے کی تھی اور اس میں آئی ایس آئی یا کسی دوسرے ادارے کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

ماضی قریب میں سینئر صحافی حامد میر گولیوں کی زد میں آئے اور ایک گولی ابھی تک ان کے جسم میں موجود ہے لیکن تحقیقاتی اداروں نے تاحال ایسی کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ نامعلوم حملہ آور حساس ادارے کے نہیں بلکہ بازاری غنڈے یا ڈاکو تھے چونکہ حملے کے فوری بعد سارا ملبہ آئی ایس آئی پر گرایا گیا تھا اور یہ ملبہ ابھی تک پڑا ہوا ہے اس کو اٹھانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ اسی طرح سینئر صحافی عمر چیمہ پر تشدد کیا گیا اور ان کی ٹنڈ کر دی گئی اور عمومی تاثر پیدا کیا گیا کہ حملہ آور نامعلوم افراد بھی حساس ادارے کے تھے اور مبینہ طور پر وہ سافٹ ویئر درست کر کے چلے گئے۔

ضروری تھا کہ ان نامعلوم افراد کے نام ہمارے ادارے سامنے لاتے اور عمر چیمہ سمیت تمام صحافیوں کو تسلی ہو جاتی کہ حملہ آور ہماری سلامتی کے ادارے نہیں تھے۔ مزید برآں سینئر اور تحقیقاتی رپورٹر اعزاز سید کے گھر پر اینٹوں کی بارش ہوئی اور پھر تھانے میں درخواست بھی ہوئی لیکن آج تک ان اینٹوں کی بارش کرنے والے ”جنات“ کا پتہ نہیں چل سکا ہے کہ یہ کس جادوگر کے حکم پر آئے تھے اور پھر کام دکھا کر چلے گئے۔ یہی کہانی احمد نورانی کے معاملے میں بھی دہرائی گئی اور سربازار ٹھکائی کرنے والے نامعلوم افراد تاحال نامعلوم ہیں۔

یہ سلسلہ آگے بڑھا تو مطیع اللہ جان کو دن دیہاڑے اسلام آباد کے اندر سے اٹھا لیا گیا اور پھر فتح جنگ کے قریب جا کر چھوڑ دیا گیا۔ اس واقعے کا بہت شور ہوا لیکن نامعلوم افراد ایک بار پھر ”معلوم“ نہ ہو سکے اور اس کے نتیجہ میں گالی ایک بار پھر قومی سلامتی کے اداروں کا مقدر ٹھہری۔

اب تازہ ترین واقعہ میں صحافی اسد طور پر حملہ میں اس کو گھر میں گھس کر مارا گیا ہے لیکن نامعلوم افراد کا تاثراتی کھرا ایک بار پھر حساس اداروں کے باہر پہنچا دیا گیا ہے۔ سینئر صحافی حامد میر نے پہلے سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی ہے اور کہا ہے کہ ہمیں سب نامعلوم ”معلوم“ ہیں اس لئے ہمارے گھروں میں گھس کر مارنے والے یاد رکھیں ہم کسی کے گھر میں تو نہیں گھسیں گے لیکن نامعلوم افراد کے گھروں کی باتیں منظر عام پر ضرور لائیں گے۔

حامد میر نے ایک طرف یہ بھی کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کس کی بیوی نے کس کو گولی ماری؟ مگر انہوں نے بھی نام کسی کا نہیں لیا اور نامعلوم شخصیت کو ٹارگٹ کیا ہے البتہ صحافی ایک دوسرے سے سرگوشیاں ضرور کر رہے ہیں وہ کون ہے جس کی بیوی نے اسی کے پستول سے گولی ماری؟

حامد میر نے جنرل رانی کا ذکر بھی کیا ہے اور جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف کو جب نامعلوم افراد کا باپ قرار دیا تو پھر سب کو معلوم ہو گیا کہ ”نامعلوم“ کون ہیں؟ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافیوں کے ردعمل پر غصہ دکھانے کی بجائے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے تمام وارداتوں کے پس پردہ چہروں کو بے نقاب کریں تاکہ صحافی خود کو غیر محفوظ سمجھنے کی بجائے محفوظ خیال کریں اور تمام نامعلوم افراد کا کھرا حساس ادارے کے گیٹ تک لے جانے سے گریز کریں۔

اگر ایسا ہے کہ دوسری ایجنسیوں کے لوگ صحافیوں کو ٹارگٹ کر کے کلنگ کا ٹیکہ قومی سلامتی کے اداروں کے ماتھے پر لگا دیتے ہیں تو پھر یہ ایک اور لمحہ فکریہ ہے کہ اس کو کون روکے گا؟ حیران کن بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں اپنی طاقت اور انٹیلی جنس کے حوالے سے مشہور آئی ایس آئی اس معاملے میں پیچھے کیوں ہے؟ جہاں تک حامد میر کی زبان کا تعلق ہے تو اس کو طاقت کے زور پر خاموش کرانے کی بجائے حقائق کے ساتھ خاموش کروایا جانا ضروری ہے۔ وگرنہ فساد بڑھتا جائے گا۔ پاکستان اور پاکستان اداروں سے محبت کرنے والے اداروں کے خلاف نازیبا زبان پسند نہیں کرتے مگر یہ ضروری ہے کہ یہ ادارے بھی سچی اور کھری تصویر سامنے لائیں اگر کوئی پاکستان کے خلاف سازش کرتا ہے تو یہ مقدمہ عوام اور قانون کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ ادھوری کارروائی نقصان کرے گی۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments