تحریکوں کے نشیب و فراز اور رہبر کی بصیرت


طبیعی عوامل کے باعث پیش آنے والی تبدیلیوں میں سے ایک اہم تبدیلی فرسائش کا عمل ہے، فرسائش یعنی کسی چیز کا کثرت استعمال سے فرسودہ ہو جانا، گھس جانا۔ مثلاً ہم روز مرہ زندگی کے مختلف امور میں فرسائش یا فرسودگی کا عمل دیکھتے ہیں، کبھی دھوپ میں پڑی چیزیں فرسودہ ہو جاتی ہیں، بعض چیزوں کو ہوا فرسودہ کر دیتی ہے۔ کبھی دریا اور زمین کے مابین مقابلے کا نتیجہ فرسودگی کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور دریا زمین کو کاٹ کر اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔

مختصراً یہ کہ کوئی بھی چیز ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتی، اس کے اندر کسی بھی طبیعی یا ارادی عامل کے نتیجے میں فرسودگی کا عمل جاری رہتا ہے اور یہی کائنات کی بقا کا ایک اہم اصول بھی ہے۔ ہم دن بھر کے کام کاج کے بعد ہونے والی تھکاوٹ اور خستگی کے باعث فرسودہ ہوتے ہیں تو بدن کی توانائی بحال کرنے کے لیے استراحت کرتے ہیں تا کہ پیدا شدہ فرسودگی میں کمی آ سکے اور ہم دوبارہ کام کاج کے قابل ہو سکیں۔ لیکن اگر کوئی انسان استراحت نہ کرے، آرام نہ کرے اور مسلسل ایک ہی حالت میں رہے تو اس کا بدن، اس کا ذہن فرسودگی کا شکار ہو کر نابود ہو جائے گا۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ محاذ جنگ پر فرنٹ لائن پر لڑنے والے فوجیوں کو ترتیب وار چند گھنٹے بعد واپس پچھلے مورچوں میں بلا لیا جاتا ہے اور ان کی جگہ تازہ دم فوجی دستہ بھیجا جاتا ہے تا کہ پہلے سے موجود فوجی دستے کے اندر پیدا شدہ فرسودگی کو کم کیا جا سکے۔

یہی قانون فرسائش، دیگر انسانی امور پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انسانی ذہنیت، افکار، نظریات، تحریکیں، جنگیں، بھی مختلف عوامل و آفات کے نتیجے میں فرسودہ ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات قومیں اپنی ترقی کے عروج پر پہنچ کر فرسودگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ قانون فرسائش کو سمجھنے والے بابصیرت افراد کبھی بھی اپنی زیر نگرانی امور کو فرسودہ نہیں ہونے دیتے۔ وہ ان امور کو ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رکھتے کیونکہ یکسانیت ان امور کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوتا ہے۔

ماہر جنگی کمانڈر ہمیشہ حملے کی حالت میں نہیں رہتا، جنگ کے دوران دشمن پر گہری نظر رکھتا ہے اور حسب ضرورت جنگی حربے بدلتا رہتا ہے۔ شاید کامیاب ترین کمانڈر وہی ہوتے ہیں جو اپنے جنگی حربوں کی مدد سے دشمن کو غافل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ایسے مقام اور وقت پر حملہ کرتے ہیں جس کی توقع کبھی بھی دشمن نہیں کر سکتا۔

تحریکوں کے اندر بھی اسی طرح نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، جوں جوں کوئی تحریک اگلے مراحل طے کرتی جاتی ہے اس کے اندر تصادمات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت اور انقلابی افراد کے مابین ٹکراؤ بڑھ جاتا ہے اور تحریک کے اندر شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس طرف زیادہ ذہین اور زیرک قیادت موجود ہوگی، وہ اس شدت کو اپنے حق میں استعمال کر لے گی۔ انقلاب اسلامی کی تحریک میں پیش آنے والے اکثر تصادمات انقلاب کے حق میں مددگار ثابت ہوئے۔

لیکن بابصیرت قیادت کبھی بھی تحریک کو ایک ہی حالت میں نہیں رکھتی، ضرورت کے لحاظ سے اس کے اندر تیزی اور سستی پیدا کی جاتی ہے تا کہ فرسودگی کے عمل کو روکا جس سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 1963 میں جب امام خمینی نے اپنی تحریک کا آغاز کیا تو یہ تحریک بہت جلد اپنے ابتدائی مراحل طے کر کے ملک کے گوش و کنار تک پھیل گئی جس کے نتیجے میں چند ایسے حوادث رونما ہوئے ( جن کا ذکر پچھلی اقساط میں آ چکا ہے ) جنہوں نے تحریک کے اندر شدت پیدا کر دی۔ یہاں تک کہ امام خمینی نے شاہ کو سر عام للکارنا شروع کر دیا اور رو بہ رو پیکار کا آغاز ہو گیا۔ 1963 سے 1967 تک کے چار سال کے دوران اسلامی تحریک کے اندر شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔

1967 میں شاہ نے امام خمینی کو جلاوطن کر کے ترکی بھیج دیا۔ اس کے بعد ملک میں موجود تمام انقلابی افراد چاہے وہ اسلامی تحریک سے وابستہ تھے یا کسی کمیونسٹ یا نیشنلسٹ تحریک سے، سب کو بری طرح سرکوب کیا گیا۔ انقلابی لوگوں کو ملک کے اندر ہی سخت ترین موسمی حالات والے علاقوں میں شہر بدر کر دیا گیا، انقلابیوں کو عقوبت خانوں میں سخت ترین شکنجے دیے گئے۔ ان حالات میں تمام انقلابی تحریکوں کے کئی لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے، کئی مایوس ہو کر تحریک سے دور ہو گئے اور اس بات پر یقین کر بیٹھے کہ اب حکومت کا ملک پر مکمل کنٹرول قائم ہو چکا ہے لہذا کوئی بھی حکومت مخالف اقدام نہیں کیا جا سکتا۔

اسلامی تحریک کے اندر شدت میں بھی ایک وقفہ آیا، شاہ نے ظاہری حالات کو دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور بیرونی دنیا کو بھی یہی پیغام دیا کہ اب ایران کے اندر تمام شورشوں کو کچل دیا گیا ہے اور اب ایران دوبارہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کا تعاون پہلے سے زیادہ بڑھ گیا، سی آئی اے نے پہلے سے کہیں زیادہ اس کالونی پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی۔

لگ بھگ سات سال کے اس ظاہری سکوت کے دوران انقلاب اسلامی کے مبارزین نے اس فرصت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان سات برسوں میں تحریک کا سفر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکا بلکہ اس کی شدت میں آنے والی کمی کو دشمن کے خلاف منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا گیا۔ امام خمینی ترکی سے نجف آ چکے تھے اور نجف میں قیام کے دوران امام نے زیر زمین وہ لاوا پکانا شروع کیا جس کا سطح زمین پر کوئی نام و نشان موجود نہ تھا۔ جس دوران امام خمینی نجف میں موجود تھے، تب ایران کے اندر کوئی جلسے جلوس، مظاہرے ہڑتالیں نہیں ہو رہی تھیں لیکن انقلابی تحریک مخفیانہ طور پر مسلسل جاری تھی۔ شاہ اور اس کی حکومتی مشینری انقلابی تحریک کو کچلنے کے بعد مطمئن تھے کہ اب کوئی بھی اسلامی، کمیونسٹ یا نیشنلسٹ تحریک سر نہیں اٹھا سکے گی۔

دوسری طرف اسلامی انقلاب کی کامیابی کے لیے یہ ظاہری سکوت کافی نہیں تھا، اس لیے اس سکوت کے نیچے ایسا آتش فشاں تیار کیا گیا کہ جب وہ منفجر ہوا تو ظاغوتی طاقتوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ شاہ ایسا غافل گیر ہوا کہ اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انقلابی تحریک حکومتی اداروں تک نفوذ کر چکی ہے۔ یہی وہ غفلت تھی جس کا انقلابیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سی آئی اے نے اس شکست کا بر ملا اعتراف کیا۔ یہ وہ ذلت آمیز شکست تھی جس کی خفت امریکہ اور دیگر شیطانی طاقتیں کبھی نہیں مٹا سکیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments