5 ہفتے ’5 کہانیاں


وقت کا چرخا ہی ایسا ہے ’یہ اپنی سی روانی‘ موج ’مستی اور دھن میں چلتا رہتا ہے اور دوسروں کو بھی جیسے تیسے اس کے ساتھ دوڑنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار لیکن تکلا تلخ بھی ہو جاتا۔ ایسے ہی کچھ تند پچھلے پانچ ہفتوں میں ایسے ڈالے کہ پوری‘ سرت ’قائم ہو گئی۔

جب سے ہوش سنبھالی اپنے گردوپیش میں مختلف اور منفرد رسموں اور دن منانے جیسے رواج سے پالا پڑتا رہا۔ سکول میں قائدین کے نام سے منصوب ایام ہوں یا ملکی سلامتی سے وابستہ افواج کے دن ’مزدوروں سے منسلک چھٹی ہو یا عیدین کی تعطیلات ہم نے ان میں سے کسی کی بھی اصل روح اور حقیقی پیغام کو سمجھے بغیر لوگوں کو محض ہلڑ بازی‘ غل غپاڑہ ’دھینگا مشتی‘ ہٹو بچو ’بے ہنگم باجے‘ پھٹے ہوئے سائلینسر اور چنگھاڑتے بدیسی میوزک میں ہی مگن دیکھا۔

انفرادی طور پہ کچھ عرصے سے کوشش شروع کی کہ محبت کا دم محض الفاظ ہی سے بھرنے کی بجائے اصل مطلوب و مقصود پہ کچھ توجہ دی جائے اور اس میں خاص کرم اس خالق و مالک ہر جہان کا کہ اس نے اس کی سمجھ اور توفیق دیے رکھی۔ رمضان شریف سے قبل ایک محترم استاد نے کچھ نصیحت کی کہ من حیث القوم ہمیں چند غیر ضروری چیزیں چھوڑنے کی فوری ضرورت ہے تو اس نصیحت کو حکم کا درجہ دیتے ہوئے فوری عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ’چند ایک احباب نے اسے وقتی جذباتی پن ضرور گردانا لیکن تھوڑی سے استقامت دکھانے پہ انہیں ہماری سنجیدگی کا اعتراف کرنا پڑا۔

جیسے کمان سے نکلا تیر اور زباں سے نکلی بات واپس نہیں پلٹ سکتی ایسے ہی گزرا وقت بھی واپس نہیں لوٹ سکتا۔ رمضان المبارک میں یقیناً اللہ کریم خصوصی رحمتوں اور برکات کا نزول فرماتے ہیں کہ وقت میں برکت کے باعث بہت سارے کام نپٹ جاتے ہیں۔ دس سال قبل پڑھی ہوئی ایک کتاب پھر سے ہاتھ لگی تو ایسا لگا کہ وقت واپس اسی زمانے میں لوٹ گیا ہے۔ اور حسن اتفاق یہ کہ اردگرد کے جملہ حالات و واقعات بھی کم و بیش ویسے کے ویسے ہی لوٹ آئے۔ بچوں کی کہانیوں کی ٹائم مشین کا تو پتا نہیں لیکن اس کتاب کی بدولت اپنے ماضی میں جھانکنے کا اور چیزوں کو نئے فہم سے سمجھنے کا موقع ضرور ملا۔

موجودہ وبائی دور کی مشکلات ایک طرف لیکن اس وبا نے انسان کے اختیار ’فطری کمزوری اور بے بسی کو ایسے سامنے لا کھڑا کیا کہ مساجد میں جانے کی ترتیب تک بدلنی پڑ گئی۔ رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش مچلی تو مروجہ پابندیاں اور رکاوٹیں بیڑیاں بن گئیں۔ صد ہا شکر اس رب ذوالجلال کا کہ اس نے محض اپنی خصوصی رحمت‘ کمال مہربانی ’نہایت کرم‘ اعلیٰ فضل اور حد درجہ کریم ہونے کے ناتے بازیابی کا اذن بخشا۔

عیدالفطر کی تعطیلات 24 گھنٹے کے طویل سفر پر اختتام پذیر ہوئیں اور ابھی 8 گھنٹے کی نیند بھی پوری نہیں ہونے پائی تھی کہ اگلی منزل کا پروانہ تھما دیا گیا۔ ’نوکر کی تے نخرہ کی‘ کے مصداق رخت سفر باندھا اور ہوائی اڈے پہ لائن حاضر ہو گئے۔ منزل تک پہنچنے میں رات ہو گئی تو کمرے میں پڑ کے سو رہے۔ اگلے روز معمولات زندگی شروع ہوئے۔ شام کی واک پہ نکلے تو جابجا پھول بیچنے والے نظر آئے۔ دیدہ زیب گجرے اور مہکتے ہار ’ایک دفعہ تو طبیعت پھول بہار ہو گئی کہ اچانک ذہن سٹپٹا گیا کہ کس علاقے میں ہوٹل لے لیا بھائی‘ 10 کوڑے بھی نہیں سہے جانے۔

اس سے قبل کہ ہوٹل سے سامان نکالنے کو بھاگتے ’دوست نے عقدہ کھولا کہ یہ یہاں کا مقامی رواج ہے کہ شام کو مرد حضرات ذرا ٹشن سے تیار ہوتے ہیں‘ سر پہ پھول رکھتے ہیں ’کمر بند میں چاقو سجاتے ہیں‘ اپنے حجرے میں دوست احباب کی کھانوں کے ساتھ تواضع کرتے ہیں کہ بات چیت کا ماحول کسی ادق افریقی زبان کا شکار نہ ہو جائے۔

پانچوں دن کام کی ترتیب و ترکیب بنانے میں اس قدر مصروفیت میں گزرے کہ چھٹی والے دن اٹھ کے بھاگنے کی ہی کی۔ اور سیدھا بریک السودہ کے پہاڑی مقام پہ جا کے لگائی۔ اس شاندار نظارے ’پرکیف موسم‘ گرتے ہوئے درجہ حرارت ’سانپ جیسی بل کھاتی سڑک‘ پرندوں کی کلکاریوں ’نالے پہ بنے ڈیم‘ مچھلیوں کی چبھیوں ’فضا میں اڑتی کیبل کار نے ایسا سماں باندھا اور اپنے ماحول میں رنگ دیا کہ ایک پھول بیچتے لڑکے سے پھول خریدے اور سر پہ سجائے کہ اسی دیومالائی ماحول کا حصہ ہی بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments