حامد میر کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان کو ’چھٹی پر بھیج دیا گیا‘


 

حامد میر

پاکستان کے سینیئر صحافی اور نجی چینل جیو نیوز پر دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پروگرام کرنے والے حامد میر پیر سے اپنے شو کیپیٹل ٹاک کی میزبانی نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ جمعے کی شام کو صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طور پر تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کے بعد ان کی حمایت میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی تھی کہ آئندہ کسی صحافی پر ایسے تشدد نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ ‘گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے۔’

جمعے کو مظاہرے کے دوران حامد میر کی تقریر میں کہی گئی کئی باتوں سے واضح تھا کہ ان کی تنقید کا نشانہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ چینل کی انتظامیہ کی جانب سے انھیں کہا گیا ہے کہ پیر کو وہ آن ائیر نہیں جا رہے۔ ان کے مطابق یہ بات دو تین دن سے چل رہی تھی۔

دوسری جانب جیو نیوز کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ حامد میر پیر سے اپنے شو کی میزبانی نہیں کریں گے اور انھیں کچھ عرصے کے لیے چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق حامد میر ابھی بھی جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں تاہم اطلاعات کے مطابق جیو کے اینکر پرسن محمد جنید کو حامد میر کی جگہ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے کراچی سے اسلام آباد بلا لیا گیا ہے۔

حامد میر نے بتایا کہ ’انتظامیہ نے مجھے کہا کہ میں پریس کلب کے سامنے کی تقریر کی وضاحت یا تردید کروں۔ میں نے ان سے پوچھا یہ آپ سے کون کہہ رہا ہے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو میں وضاحت چھوڑیں، معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں۔‘

ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں حامد میر نے مزید بتایا کہ یہ سب ان کے لیے نیا نہیں۔ ’مجھ پر دو بار پابندی لگی اور دو بار اپنی نوکری سے ہاتھ دھوئے۔ میں حملوں کے باوجود زندہ ہو لیکن آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس بار کسی بھی قسم کے نتائج اور کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں کیونکہ وہ میرے خاندان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اس بار ان کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں ملی ہیں جبکہ ان کے بھائی کو ایف ائی اے نے کسی پرانے کیس میں طلب کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

یاد رہے کہ جب حامد میر کی گذشتہ ہفتے کی تقریر منظر عام پر آئی تو سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہوئی تھی، بلخصوص اس حصے پر جہاں تقریر کے آخر میں انھوں نے شدید غصے کی حالت میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر صحافیوں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا گیا اور ان پر گھروں میں گھس کر تشدد کیا گیا تو ‘گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے۔’

جوں ہی حامد میر کو آف ائیر کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی تو صارفین، خاص طور پر میڈیا سے وابستہ افراد کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور کئی لوگوں نے ان کے حق میں اور ان کے خلاف ٹویٹس کیں۔

صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق ‘اگر حامد میر کو آج آف ایئر کر دیا جاتا ہے یا ان کے جیو نیوز پر پروگرام پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مزید انگلیاں اٹھیں گی اور ‘ان کے الفاظ کی تائید ہوگی۔’

صحافی منیزے جہانگیر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ ‘ان کے لیے تھپر ہے جو پاکستان میں آزاد میڈیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔’

‘حامد میر کو صحافیوں کے خلاف حملوں پر بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔’

مہرین ذہرہ ملک کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں ‘جگہ مزید تنگ ہونے جا رہی ہے۔۔۔ بدترین حالات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔’

انسانی حقوق کی کارکن اور وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے ٹویٹ میں لکھا کہ ‘جو حامد میر کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ان کی کہی گئی باتیں ثابت ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر ان لوگوں کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔’

سلیم نامی صارف نے یاد کرایا کہ ‘حامد میر نے شاید سب سے زیادہ انٹرویو عمران خان کے ہی کیے ہیں۔۔۔ ‘دیکھیں حامد’ کے الفاظ ان ہی شوز سے نکلے۔’

مگر نتاشہ نامی صارف کے مطابق حامد میر سے متعلق اطلاعات اب ‘بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پہنچ رہی ہیں۔ کبھی کبھار مجھے پی ٹی آئی کے لیے بُرا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے احمق لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔’

دوسری جانب حامد میر کے ناقدین نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر تنقید کی۔

مریم نے حامد میر کے پیشہ ورانہ رویے پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘دنیا میں کہیں بھی اداروں پر اس طرح تنقید نہیں کی جاتی۔۔۔ آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کے جذبات سے اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ان کا رویہ صحافت کے اخلاقی پیرامیٹر پر پورا نہیں اترتا۔’

اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا دعویٰ تھا کہ ‘اطلاعات کے مطابق حامد میر کو آف ایئر کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا، نہ پنڈی نے نہ آئی ایس آئی نے۔ پھر ان پر پابندی کیوں؟ جیو انتظامیہ کو اس اچانک فیصلے کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ کیا یہ دباؤ کا نتیجہ ہے؟ کس کا دباؤ؟’

تحریکِ انصاف سے وابستہ سوشل میڈیا کے سرگرم کارکن اور وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے ڈیجیٹل افیئرز اظہر مشوانی نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ: ’اس وقت میر صاحب کی ریٹنگ بہت نیچے ہیں۔ حامد میر پر عارضی پابندی لگا کر ان کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دیا گیا ہے۔ جیو نیوز کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ چند دن کے بعد حامد میر یہی ہوگا اور آزادی کا چیمپئن بن کر جب کیپیٹل پروگرام کرے گا تو ریٹنگ زیادہ ہوگی، فائدہ جیو کو ہی ہوگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp