مکافاتِ موہوم



غریب کے بچوں کو مدرسے میں انتہا پسند بنا کر مختلف جنگوں اور دہشت گردی کا ایندھن بنایا جاتا ہے، اور ”ان“ کے اپنے بچے بیرون ملک کے اعلیٰ ترین اور مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھجوائے جاتے ہیں، حیرت تو یہ ہے کہ بیرون ملک دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا بھی ان کی اولادوں میں انسانیت اور ہمدردی و حب الوطنی کے جذبات پیدا نہیں کرتا، سیاست دانوں اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے بچوں کو دیکھ لیجئیے، دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے پڑھ کر بھی وہ ویسے ہی ظالم، بے حس، انسانیت سے عاری ثابت ہوتے ہیں جیسے ان کے بڑے تھے۔

بلکہ ان کے ظلم اور استحصال کے طریقوں میں زیادہ مہارت اور مکاری آ جاتی ہے۔ ان آمروں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، اور سیاست دان بدعنوان اور بدکردار افراد کی تیسری اور چوتھی نسل کو ہم خود پر مسلط اور حکومت کرتا دیکھ رہے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو ان کی اور ان کی نسلوں کی حیرت آمیز ترقی دیکھ کر ”مکافات“ :سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہاں اور یہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور ”چکی دیر سے پیستی ہے لیکن باریک پیستی ہے“ تو جیسا کہ ہمیں انسانی تاریخ میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے ظالم، جابر حکمران مسلسل صدیوں تک نسل در نسل اقتدار اور طاقت میں رہتے ہیں، فرعون مسلسل پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک مصر پر اور افریقہ کے ملحقہ بہت سے علاقوں پر نسل در نسل حکومت کرتے رہے، چنگیز خان اور اس کے وارث ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ایک چوتھائی دنیا پر حکومت کرتے رہے، 1857 کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لینے والے معززین کو کس طرح انگریزوں نے انتقاماً تباہ و برباد کیا، ان کو پھانسیوں پر لٹکایا، جلا وطن کیا، ان کی جدی پشتی جائیدادیں چھین کر ان معزز خاندانوں کو نان و نفقہ کا محتاج بنا دیا گیا، ان کے اولادیں آج محتاجی اور غربت و گمنامی کی زندگی گزار رہی ہیں، اور دوسری طرف اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو انعامات اور زمینیں عطاء کی گئیں، ان کے وظیفے مقرر کئیے گئے، پاکستان کے موجودہ جدی پشتی سیاسی گھرانوں اور پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندگان جن کو ان کی مخصوص شناخت کے لیے الیکٹورل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، میں ان ہی انگریزوں کی طرف سے نوازے گئے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی اولادیں نظر آتی ہیں، جو آج بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے عوض، بغیر کسی شرم و حیاء کے ضمیر کا سودا کرنے کو تیار نظر آتے ہیں، قطع نظر سیاسی وابستگیوں کے یہی حضرات نسل در نسل اسمبلیوں اور وزارتوں پر قابض دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح برصغیر میں مغلوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ نسل در نسل پورے کرو فر اور جاہ و جلال کے ساتھ حکومت کی، آج پرانی دلی کی تنگ و تاریک اور غلیظ گلیوں میں رہنے والے مغل شاہی خاندان کے وارث، جو آج ٹھیلے پر شاہی بریانی یا شاہی قورمہ و حلیم فروخت کرتے ہیں، تو کیا ان کی غربت، مصیبت و پسماندگی ان کے عظیم الشان اباؤ اجداد بابر، جہانگیر، ہمایوں، اکبر، شاہجہاں اور اورنگ زیب کے گناہوں اور مظالم کی سزا ہے، جو ان بے گناہوں کو جو ان گناہوں اور مظالم کے مرتکب ہی نہیں ہوئے، کو مل رہی ہے؟

وہ ظالم اور عیاش حکمران تو اپنی شان و شوکت کے ساتھ اپنی طبعی عمریں گزار کر اس جہان سے چلے گئے، کیا ان کے گناہوں اور مظالم کی سزا آج کئی سو سال بعد ان کے بے گناہ وارثوں کو مل رہی ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ گناہ اور ظلم کوئی کریں اور وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار کر فوت ہو جائیں، اور ان کی سزا کئی سو سال بعد آنے والی ان کی نسلوں کو ملے، اگر یہی وہ مکافاتی انصاف ہے تو معذرت، کہ ہماری یہ امید بھی آخر کار ٹوٹ گئی۔

کیا فائدہ جب اس ”انصاف“ کو ہم تاریخ کی کتب میں ہی پاتے ہیں، جو اس استحصال اور ظلم کے نتیجے میں ”تاریک راہوں میں“ :مارے جاتے یا تباہ و برباد ہو جاتے ہیں کیا ان کا صلہ، جنت میں خوبصورت عورتیں، کم سن اور خوبصورت غلمان، اعلیٰ اور مرغن غذائیں اور مزیدار اور جائز قرار دی گئی شراب ہی کا وعدہ ہے، جس کے حصول کی بھی کوئی صریح ضمانت نہیں ہے، بقول مولانا ابوالکلام آزاد کے کہ اگر جنت کا ماحول واقعی ویسا ہی ہوا جیسا بتایا جاتا ہے، تو یہ تو انتہائی عامیانہ ماحول ہوا۔

ہمارے دل میں پیدا ہونے والے ان سوالات کے جواب میں پر تقدس ایوانوں سے قیمتی سرپوش سے ڈھکے شاندار خوان آ جاتے ہیں، لیکن جب ان کے سرپوش اٹھائے جاتے ہیں، تو رکابیوں میں تاویلات کے گلے سڑے الفاظ کا بدبودار ملغوبہ برآمد ہوتا ہے، جو ہمارے سوالات کی بھوک مٹانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ انسانیت کا بنیادی مقصد فطرت کے شدائد اور تکالیف کے خلاف اپنی عقل، علم اور شعور سے ایسا ماحول پیدا کرنا، جو اسے فطرت اور قدرت کی پیدا کی ہوئی مشکلات کے مقابلے میں آرام دہ اور با سہولت رکھے، ہم قدرت کے ماحول سردی گرمی کی شدت میں اپنے آرام کے لیے مکان بناتے ہیں، ملبوسات اور پوشاک بناتے اور پہنتے ہیں، دیگر با سہولت تعمیرات کرتے ہیں، قدرت کی پیدا کی ہوئی بیماریوں کے خلاف علاج کرتے ہیں، اور فطرت اور قدرت کی پیدا کی ہوئی مشکلات پر قابو پانے کے لیے مسلسل تعلیم و تحقیق کرتے ہیں، ایک بچہ فطرت اور قدرت کی طرف سے سب امکانات اور صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن اگر طویل دورانیے تک اس کی مناسب تعلیم و تربیت نہ کی جائے، تو یہ ایک شخصیت خام سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا۔

اس کو اس کا میسر ماحول، تعلیم و تربیت ایک انسان کامل یا کم از کم ایک اوسط درجے کا انسان، بننے کی طرف لے جاتی ہیں۔ لیکن جب تک انسانوں کی بنیادی انسانی حیثیت اور حقوق میں تقدس، یا کسی اور نام نہاد برتری کے نام پر تخصیص کی جاتی رہے گی تب تک اس قدرت کی شاندار تخلیق کی اکثریت، جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رہنے اور اپنی اس ہی پسماندہ حالت پر وعدہ فردا کے عوض قانع رہنے، ذلیل و خوار اور محروم و مجبور رہنے کو ہی نیکی تصور کرتے رہیں گے۔ یعنی اگر خود کو اور دنیا کو فطرت اور قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، تو تقریباً ویسا ہی حال ہوتا ہے، جیسا آج کی دنیا میں ہمارا ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments