چین میں بڑا سوال: کیا لوگ حکومتی پالیسی کے تحت تین بچے پیدا کرنا چاہیں گے؟


چین

چین نے اپنے شہریوں کو تین بچے فی فیملی پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ تازہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے بعد کیا گیا ہے جس میں ملک میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی تھی۔

یاد رہے کہ چین نے اپنی کئی دہائیوں پرانی ‘ون چائلڈ‘ پالیسی کو 2016 میں ترک کردیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت چینی جوڑوں کو صرف ایک بچے کی اجازت تھی۔ 2016 میں آنے والی نئی پالیسی میں دو بچوں کی اجازت دی گئی تاہم اس پالیسی کے بعد بھی بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔

چین میں بچوں کی پرورش کرنے کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے چینی جوڑے ایک سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرتے۔ چینی حکومت کی تین بچوں کی نئی پالیسی کا فیصلہ صدر شی جن پنگ نے پارٹی قیادت کی ایک میٹنگ میں لیا۔

چینی خبر رساں ادارے ژنہوا کے مطابق اس نئی پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہوں گے جن سے ملک کی آبادی کے ڈھانچے کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی چین کی بڑھتی ہوئی ادھیڑ عمر آبادی کے مسئلے سے بھی نمٹا جاسکے کا جس سے چین محنت و افرادی قوت کے میدان میں اپنی برتری برقرار رکھ سکے گا۔ لیکن کچھ ماہرین نے اس پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

مزید پڑھیے

چین:پابندی ختم ہونے کے بعد شرح پیدائش میں اضافہ

‘میرے بچے کو گورا بنا دو’

سرکاری ملازمت چاہیے تو ’بچے دو ہی اچھے‘

معاشیات کے ایک ماہر ہاؤ زاؤ کے مطابق ‘اگر بچے پیدا کرنے کی پالیسی سے کوئی فرق پڑتا تو موجود پالیسی جس میں دو بچوں کی اجازت ہے، اس مسئلے کو حل کر سکتی تھی۔ لیکن تین بچے کون پیدا کرنا چاہتا ہے؟ نوجوان لوگ زیادہ سے زیادہ دو بچے کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ روز مرہ زندگی میں ہونے والی مہنگائی اور دباؤ ہے۔‘

چین میں شہ سرخیاں، لوگوں کے فون بجنے لگے

بیجنگ میں جب اس پالیسی سے متعلق خبر آئی تو بارش ہورہی تھی اور میں کافی لینے باہر نکلا ہوا تھا۔

لوگوں کے موبائل فون بجنا شروع ہوگئے اور ہر کوئی اپنے فون پر شہ سرخی دیکھ رہا تھا: ‘چین نے تین بچوں کی اجازت دے دی”۔ خبر دیکھ رہا تھا۔

چین میں یہ ایک بڑی خبر ہے، ایک ایسا ملک جہاں پر ون چائلڈ پالیسی کے اختتام کے بعد بھی بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔

بہت سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ تین بچوں کی پالیسی سے زیادہ بچے کیسے پیدا ہوں گے جب دو بچوں کی پالیسی میں نہیں ہوئے۔

ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جو لوگ دو بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں ان میں سے کچھ والدین تین بچوں کا فیصلہ بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن چین کی کئی نسلیں بغیر بہن بھائیوں کے بڑی ہوئی ہیں اور وہ چھوٹے خاندان کے عادی ہوچکے ہیں۔ چینی خاندانوں میں دولت میں اضافے کے باعث بھی بچوں میں کمی آئی ہے، اس کی وجہ یہ کہ اب خاندانوں کو کمانے یا گھر کا خرچہ اٹھانے کے لیے بچے نہیں چاہیے۔

صاحب روزگار چینی نوجوانوں کا موقف ہے کہ ایک بچے کو زیادہ وسائل دیے جاسکتے ہیں برعکس اس کے، کے آپ اپنی آمدنی تین یا چار بچوں پر خرچ کریں۔

چین

مردم شماری کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

اس ماہ سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں کی پیدائش ہوئی۔ جو کہ 2016 کے مقابلے میں خاصی کم تھی جس میں ایک کروڑ اسی لاکھ بچے پیدا ہوئے۔ بچوں کی پیدائش کی یہ شرح 1960 کے بعد سب سے کم ہے۔ یاد رہے کہ 1960 میں بچوں کی پیدائش کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

چین میں یہ تازہ مردم شماری گزشتہ برس کے آخر میں کی گئی تھی اور اس میں ستر لاکھ ورکر شامل ہوئے جنھوں نے لوگوں کے گھروں تک جا کر یہ معلومات حاصل کیں۔ اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد دیکھ کر اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ چینی آبادی پر کی گئی سب سے جامع مردم شماری ہے جو کہ مستقبل کے لیے بھی بہت اہم ہے۔

ان اعداد و شمار کے منظر عام پر آنے کے بعد چین میں بڑے پیمانے پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس سے خاندانی پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔

‘بہت سارے مسائل اور دباؤ‘

(تجزیہ: کیری ایلن)

چینی میڈیا نے ‘تھری چائلڈ پالیسی، کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔ روزنامہ پیپلز ڈیلی، نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی اور خبر رساں ادارے زن ہوا نے اس حوالے سے کارٹون بھی اپنے سوشل میڈیا صفحات پر پوسٹ کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ نئی پالیسی ‘آگئ‘ ہے۔

چینی سوشل میڈیا نیٹ ورک سین وئیبو پر اس موضوع پر سب سے زیادہ بات ہورہی ہے۔ زن ہوا کی سوشل میڈیا پوسٹ پر ایک لاکھ اسی ہزار سے زیادہ لوگوں نے کمنٹ کیا ہے، اور جن کمنٹس کو سب سے زیادہ لائیک کیا گیا ہے وہ اس پالیسی کے خلاف ہیں۔

ایک صارف نے لکھا ‘زندگی میں پہلے ہی بہت مسائل ہیں، نوجوان لوگ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے۔‘

بہت سے صارفین نے جدید دور میں ملازمت کے مسائل کے بارے میں بات کی اور کہا گیا کہ انھیں بچے پیدا کرنے سے متعلق بنیادی ضروریات تک نہیں دی جاتیں۔

چین میں افرادی قوت میں کمی کے باعث آج کل کے نوجوان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے کام کرنے کے اوقات میں اضافہ ہوگا۔ زیادہ کام اور اسے کرنے کے لیے درکار زیادہ وقت صحت کے مسائل پید کر رہا ہے۔

زیادہ سے زیادہ خواتین اعلیٰ تعلیم اور روزگار کو بچوں یا خاندان پر فوقیت دے رہی ہیں۔

ماضی میں چین کی پالیسیاں کیا تھیں؟

2016 میں جب حکومت نے ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی کو ترک کیا تو اس کے بعد آنے والے دو سال تک بچوں میں اضافہ ضرور ہوا لیکن بچے پیدا کرنے کی شرح میں کمی کا جو رجحان تھا اس میں تبدیلی نہیں آئی۔

دی اکانومسٹ انٹیلجنس یونٹ میں معاشی امور کی سربراہ یوئے شو کہتی ہیں ‘جب دو بچوں کی اجازت دی گئی تو وقتی طور پر بچوں کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا لیکن یہ صرف وقتی ہی ثابت ہوا۔‘

چین کی آبادی کا رجحان کئی برسوں سے ون چائلڈ پالیسی سے منسلک تھا جو 1979 میں شروع کی گئی تاکہ آبادی پر کنٹرول کیا جاسکے۔

اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا، ملازمت سے نکال دیا جاتا اور کئی بار زبردستی ابارشن بھی کروایا جاتا تھا۔

اس پالیسی سے ملک کی آبادی میں جنس کا توازن بھی بگڑا۔ چینی ثقافت میں عموماً لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔

سنگاپور نیشنل یونیورسٹی میں معاشرتی علوم کے ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر مو زینگ کہتے ہیں کہ ‘یہ شادی کی مارکیٹ میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص طور پر ان مردوں کے لیے جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔‘

کیا چین بچے پیدا کرنے کی حد کو ختم کرسکتا ہے؟

چین کی اس برس ہونے والی مردم شماری کچھ ہی ماہ بعد ہوگی۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس سے پہلے بچے پیدا کرنے کی حد کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا لیکن چینی حکومت کے اعلان سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکام ابھی اس بارے میں احتیاط برط رے ہیں۔

لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے مکمل طور پر ختم کردینے سے اور دوسرے مسائل جنم لیں گے۔ ماہرین اس حوالے سے شہر اور گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

بیجنگ اور شہنگائی جیسے مہنگے شہروں میں رہنے والی خواتین تو شاید بچے پیدا کرنے میں دیر کریں یا پھر بلکل ایسا نہ کریں لیکن گاؤں دیہات میں رہنے والی آبادی ایسا نہیں کرے گی بلکہ وہ اپنے خاندان میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

اس پالیسی پر کام کرنے والے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا: ‘اگر ہم یہ پالیسی ختم کردیں تو گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگ بچے پیدا کرنے کے حق میں ہیں۔ اس سے دوسرے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔‘

ذرائع کے مطابق اس فیصلے سے بے روزگاری میں اضافہ اور غربت جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔

ماہرین اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ چین کی آبادی میں کمی سے دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی گہرا فرق پڑ سکتا ہے۔

وسکانسن میڈیسن یونورسٹی میں کام کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر یہ فوژیان کہتے ہیں کہ ‘چین کی معیشت بہت تیزی سے آگے بڑھی ہے اور اس پر دنیا بھر کی بہت سے صنعتوں کا انحصار ہے۔ چین کی آبادی میں کمی کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp