نائی کی چڑیا اور ففتھ جنریشن وار


گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی عوام کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ ساری دنیا پاکستان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، تمام ممالک دن رات پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں، سوتے ہوئے بھی انہیں پاکستان کے ہی خواب آتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کو تباہ و برباد کیا جائے؟ کہیں پاکستان مریخ پر پہنچنے والا پہلا ملک ہی نہ بن جائے، اقتصادی ترقی میں تو پہلے ہی تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے، روزبروز پاکستانی ویزے کا حصول مغربی ممالک کے لیے ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے، ناروے نے تو اسلام آباد سے درخواست کی ہے کہ ان کے ملک میں ایک سے زیادہ ایمبیسیاں قائم کی جائیں اور ان کے لیے مختص ویزوں کا کوٹہ بھی بڑھا دیا جائے۔

چاروں طرف سے غیر قانونی تارکین وطن پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں، سابق امریکی صدر ٹرمپ سے رابطہ قائم کر لیا گیا ہے کہ میکسیکو بارڈر پر ان کی تعمیر کردہ وال کا فارمولا پاکستان کو تحفتاً دیا جائے تاکہ ایران بارڈر پر دیوار بنائی جا سکے اور ایران، ترکی، یونان وغیرہ کے راستے آنے والے چلی، برازیل، سعودی اور بنگالی غیرقانونی تارکین وطن کا راستہ روکا جا سکے۔

پاکستانی فوج جو کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے نمبر ون پلس فوج ہے نے امریکی اور چینی فوج کو تربیت دینے کا ٹھیکہ چھوٹی سی بات پر ٹھکرا دیا، جب امریکی حکومت نے الزام لگا دیا تھا کہ پاکستان امریکی ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیلوں کو نہ صرف شہریت آفر کر رہا تھا بلکہ ان کے بچوں کو لیہ، میاں چنوں اور چکوال کے سرکاری اسکولوں میں مفت داخلے اور تعلیم کا لالچ بھی دے رہا تھا۔ اس پر امریکی حکومت نے پاکستان میں موجود امریکی پاکستانیوں سے رابطہ کیا کہ وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ امریکہ کے لئے تربیت نہ دینے والی پابندیوں کو ختم کروایا جا سکے، تاحال پاکستان کی سرد مہری پیش رفت میں حائل ہے۔

امریکیوں کے لیے پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ”پاک ایڈ“ پہلے ہی روک دی گئی تھی جس میں میڈیکل سے متعلقہ امداد سے امریکی بہت مستفید ہوئے تھے، اس امداد کے تحت پاکستان سے بہت سے حکیم اپنے مجرب نسخوں سمیت امریکہ میں کیمپ لگاتے تھے اور امریکی احتلام، جریان، مردانہ کمزوری اور جگر کی گرمی جیسے امراض سے صحت یاب ہو رہے تھے۔

ڈبلیو ایچ او نے پاکستان سے کم ازکم اس حکیمی امداد کو جاری رکھنے کی استدعا کی ہے، اس مدعے کو لے کر امریکی عورتوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ملین مارچ کیا اور وائٹ ہاؤس کے سامنے مستقل دھرنا دیا ہوا ہے۔

پاکستان کا وزیراعظم جو سن 83 میں لڈو کا ورلڈ چیمپیئن رہ چکا ہے اور اپنے دشمنوں کے لیے 99 پر لڑنے والے سانپ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جسے جب اور جہاں موقع ملے (قوم کے وسیع تر مفاد اور محبت میں ) ڈنگ مارنے سے باز نہیں آتا (بعض اوقات تو سوجن کئی مہینوں رہتی ہے) اتنا نیک اور پہنچا ہوا انسان ہے کہ اس کی حکمرانی انسانوں کے ساتھ جنوں، چڑیلوں اور خلائی مخلوق پر بھی ہے، اس مافوق الفطرت انسان کے خلاف دنیا بھر میں کی جانے والی سازشیں آئے دن بے نقاب ہو رہی ہیں، ابھی پچھلے ہفتے کائنات کی نمبر ون خفیہ پاکستانی ایجنسی نے موراکو کے صحراؤں میں چار انڈین گرفتار کیے جو پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف سازش کر رہے تھے ( لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ انڈین اصل میں ریڈ انڈین تھے جو گوروں کے مظالم سے تنگ، ہجرت کر کے موراکو میں پناہ گزین ہوئے تھے )

ان سب چیزوں کے ساتھ پاکستان کی ویٹو پاور کچھ ٹکر کے ممالک مثلاً صومالیہ زمبابوے اور بھوٹان کو بہت کھٹکتی ہے، اس لیے تمام ممالک پاکستان کی ٹانگ کھینچنے کے درپے ہیں، پاکستانی عوام کو قربانی دینا ہوگی، تمام اختیارات ایک ادارے کو منتقل کرنا ہوں گے تاکہ ان سازشوں یعنی اس ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کیا جا سکے، وغیرہ وغیرہ ۔

پرانے زمانے میں جب کسی کے گھر لڑکا پیدا ہوتا تھا تو نائی کی خدمات حاصل کی جاتی تھی پہلے ٹنڈ کروانے کے لیے (یعنی سر کے بال منڈوانے ) اور کچھ عرصہ کے بعد ایک مذہبی ضرورت کے تحت۔ کچھ گھرانوں میں یہ کام لڑکے کے چوتھے یا پانچویں سال میں کیا جاتا تھا اور باقاعدہ تقریب منعقد کی جاتی تھی، یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا تھا نائی اپنا استرا تیز کر کے بچے کو باتوں میں لگا تا اور اکثر کہتا ”وہ دیکھو اوپر چڑیا“ بچہ بے چارا چڑیا ڈھونڈنے لگتا اور اس کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیچے سے نائی کا استرا چل جاتا۔

ہمارے ملک کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر چند سالوں کے بعد بیچاری عوام کو کسی نہ کسی نئی چڑیا کے پیچھے لگایا جاتا رہا ہے، نائی اور استرا وہی پرانا، کبھی سازشوں کے نام پر تو کبھی نظریہ ضرورت کے نام پر، افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کی شدت اور اس کو پیدا کرنے والوں کی بے شرمی کی حد ہر بار پہلے سے زیادہ ہوتی ہے، صحافت تو ہمیشہ ہی زیرعتاب رہی لیکن موجودہ لہر انتہائی خوفناک ہے طاقت کے ایوانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے طریقے پرانے اور دقیانوسی جبکہ زمانہ نیا ہے اور دنیا کو آپ کی چڑیا میں کوئی دلچسپی نہیں۔

پاکستان کے اصل حکمرانوں سے گزارش ہے کہ مانا زندگی میں ایک بار یہ قربانی جائز ہی نہیں ضروری بھی ہے لیکن ایک ہی قوم پر قربانی کے نام پر اگر یہ عمل بار بار دہرایا جائے گا تو قوم کے پاس بچے گا کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments