حامد میر کی بے باک تقریر اور اس کے موضوعات


اسد طور کے گھر پر گھس کر اس پر شدید تشدد کرنے کے واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے۔ ان مظاہروں میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بنیادی انسانی حقوق کا احساس رکھنے والے پاکستانی شہریوں نے شرکت کی۔ موڈ سے واضح تھا کہ احتجاج میں شامل لوگوں کی اکثریت اپنے غم اور غصے کو چھپا نہیں پا رہی تھی۔ احتجاج میں شامل کئی لوگوں نے تقاریر کیں۔ حامد میر صاحب نے بھی ایک پر جوش اور بے باک تقریر کی۔

حامد میر کی تقریر بہت دلیرانہ تھی۔ انہوں نے پاکستان کے انتہائی طاقتور اداروں کو سرعام للکارا اور انہیں خبردار کیا کہ آئندہ وہ صحافیوں پر حملوں سے باز رہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سرعام چیلنج کرنا بہت ہی دلیری کا کام ہے۔ آئے روز صحافی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے اغوا ہو رہے ہیں۔ ان پر گولیوں سے حملے ہو رہے ہیں اور اس میں بہت صحافیوں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے خواتین و حضرات کی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ خود حامد میر پر بھی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ اس حملے میں انہیں کئی گولیاں لگی تھیں۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے تھے۔ اس حملے میں ان کا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ وہ کئی مہینے زیر علاج رہے۔

لیکن حامد میر ڈرے نہیں۔ انہوں نے ملک نہیں چھوڑا اور اپنا پروگرام کیپیٹل ٹاک بھی اسی سج دھج سے جاری رکھا۔ حامد میر اور کچھ دوسرے صحافی جن پر قاتلانہ حملے ہوئے، جنہیں اغوا کیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اب بھی پاکستان میں ہی مقیم ہیں ہم سب کے لیے باعث فخر ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی حقیقی ترقی، جو اصل میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، کے لیے امید کی کرنیں ہیں۔ حامد میر ہر اگلے سال پہلے سے زیادہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ان موضوعات پر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور بات کرتے ہیں جنہیں ہمارے طاقتور حکمرانوں نے ممنوع قرار دیا ہوا ہے۔

مسنگ پرسنز پر حامد میر کا سٹینڈ ایک بہت عمدہ مثال ہے۔ انہوں نے جان پر کھیل کر اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے اور ہر حکمران کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔ آج اگر کچھ تھوڑا بہت کام اس سلسلے میں ہو رہا ہے تو اس میں حامد میر صاحب کا بہت ہاتھ ہے۔ مطلب یہ کہ حامد میر ایک دلیر صحافی ہے۔ اور اپنی حالیہ تقریر میں بھی پاکستان کی غیر جمہوری طاقتوں کو سرعام للکار کر انہوں نے ایک مرتبہ پھر انتہائی دلیری کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی روایت کو قائم رکھا ہے۔

اب آتے ہیں ان کی اس مختصر سی تقریر میں پیش کیے گئے مواد کی جانب۔ حامد میر صاحب نے اپنی تقریر میں بالکل ٹھیک کہا کہ میڈیا پر شدید پابندیاں ہیں۔ اس کھیل میں نامعلوم کوئی نامعلوم نہیں ہے بلکہ اسے سب جانتے ہیں۔ صحافیوں پر حملے کرنے والے بزدل ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں۔ غداری کے الزامات کی لمبی اور مکروہ تاریخ ہے جو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہوتی ہے۔ اور یہ کہ اسد طور کے بنک اکاؤنٹ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈکٹیٹر کے بنک اکاؤنٹ بھی چیک کرو جو اس ملک کے اقتدار پر قابض تھا اور اس پر ملکی مفادات کا سودا کرنے کے شدید الزامات ہیں۔ ان زبردست سچی باتوں کے علاوہ انہوں کچھ باتیں کی ہیں جو حامد میر کے معیار سے کچھ کم ہیں۔

انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر کچھ وہی الزامات لگائے جو اسٹیبلشمنٹ اس ملک میں امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے لوگوں پر لگاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مخالفین کو یہود و ہنود یعنی بھارت اور اسرائیل کا ایجنٹ کہتی ہے۔ حامد میر نے بھی اسٹیبلشمنٹ پر یہی الزام لگا دیا۔

اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے تو یہ بہت اچھی اور اہم خبر ہے اور میڈیا میں اچھے لوگ تو ہمیشہ اس بات کو سپورٹ کرتے آئے ہیں۔ خود حامد میر بھی انڈیا کے ساتھ امن کی وکالت کرتے ہیں۔ امن کی آشا ایک روشن مثال ہے۔

اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ہمارے طاقتور حکمرانوں پر آئین توڑنے، جمہوریت کا راستہ روکنے، میڈیا پر پابندیاں لگانے اور اسے سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرنے اور پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کے اصلی الزامات ہی اتنے ہیں کہ کسی مبالغے کی ضرورت یا گنجائش ہی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تقریر میں ایک دھمکی بھی تھی۔ جس میں حامد میر صاحب نے کہا کہ وہ صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کے گھر کے یعنی ذاتی راز افشا کریں گے۔ یہ بات بھی نامناسب ہے۔ غداری کے الزامات یا ذاتی زندگیوں کو سیاست میں گھسیٹنا جیسے نکات کسی ملک کی ترقی کی جدوجہد کے سنجیدہ ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ حامد میر جیسی غیر معمولی قد کاٹھ کی شخصیت انتہائی غصے میں بھی ان معمولی باتوں میں نہ الجھے۔

حامد میر صاحب کو اتنی بے باک تقریر پر بہت مبارک باد۔ ان کی اس تقریر سے مجھ جیسے بہت لوگ بہت خوش ہوئے اور بے پناہ متاثر ہوئے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments