ایران: گرمی، بلیک آؤٹ، کرپٹو مائننگ اور سیاسی حلقوں میں کشیدگی


iran

ایران کے کئی شہر گذشتہ کئی ہفتوں سے بجلی نہ ہونے کے باعث اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بلیک آؤٹ یا بجلی کے بار بار بند ہونے کی وجہ سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔

حالانکہ گرمی کے موسم میں ایران میں بلیک آؤٹ ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس برس ان بلیک آؤٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی بار تو دن میں ایک سے زیادہ بار ایسا ہورہا ہے اور ہر بار بجلی کئی کئی گھنٹوں کے لیے چلی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بجلی بغیر کسی پلاننگ کے چلی جاتی ہے۔

قانون دانوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا ہونے سے کورونا وائرس کی ویکسینیشن کا عمل رک سکتا ہے کیونکہ کووڈ 19 کی ویکسین کو ٹھنڈی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ تاہم صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر اس کلینک میں جہاں ویکسین موجود ہے، بیک اپ جینیریٹر کی سہولت موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران میں بجلی کا بلیک آؤٹ، کرپٹو کرنسی مائننگ پر چار ماہ کی پابندی

کیا بجلی کا بے تحاشہ استعمال بٹ کوائن کو ڈبو سکتا ہے؟

بٹ کوائن: ’کسی نے مہنگی کار خریدی تو کوئی لُٹ گیا‘

حکومت کا مؤقف ہے کہ گرمی اور خشک سالی کے ساتھ ساتھ ملک کی پاور گرڈ پر کرپٹو کرنسی کی مائینگ کی وجہ سے دباؤ پڑا ہے اور اس وجہ سے بلیک آؤٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن قدامت پسند لوگ اور حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پیرس کے ماحولیاتی معاہدے کے باعث ایران کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو محدود کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا نہیں کر پا رہا۔

بے ضابطہ کرپٹو مائینگ فارم

گذشتہ ہفتے ایران کی حکومت نے کرپٹو کرنسی کی مائیننگ پر چار ماہ کی پابندی عائد کی تاکہ ملک کے پاور گرڈ پر دباؤ کم کیا جاسکے۔ بجلی فراہم کرنے والی ریاستی کمپنی توانر نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں موجود منظور شدہ پچاس مائیننگ سینٹروں میں 22 ستمبر تک مائیننگ کی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں۔

جن فارمز کے پاس کرپٹو مائیننگ کا لائسنس ہے وہ 209 میگا واٹ تک کی بجلی استعمال کررہی ہیں۔ اسی طرح بے ضابطہ طور پر مائیننگ کرنے والے فارم ملک کی 90 فیصد کرپٹو مائیننگ کرتی ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے ریاستی ادارے نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ بے ضابطہ طور پر مائیننگ کرنے والوں کے بارے میں وہ حکام کو مطلع کریں۔

اینیلیٹکس کمپنی ایلپٹک نے گذشتہ ماہ بتایا کہ دنیا بھر میں ہونے والی بٹ کوائن مائیننگ میں سے چار اعشاریہ پانچ فیصد ایران میں کی جاتی ہے۔

یہ اعداد و شمار پریشان کن ضرور ہیں لیکن حیرت انگیز نہیں۔

ایران میں توانائی کے نرخ کم ہیں اور بجلی کی قیمتوں کے لحاظ سے ایران دنیا کے سستے ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین، پولینڈ، انڈیا اور ترکی جیسے ممالک بٹ کوائین کے لیے ایران کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کرپٹو کرنسی مائیننگ سے ایران، امریکہ کی طرف سے لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو بائی پاس کرتے ہوئے مختلف اشیا کی خرید و فروخت کرسکتا ہے۔

کرپٹو کرنسی مائیننگ کے لیے بے تحاشہ بجلی درکار ہوتی ہے۔

ایران بجلی فراہم کرنے والے ریاستی ادارے ’تناور‘ کے مطابق ایک بٹ کوائن کو مائن کرنے کے لیے جو بجلی درکار ہوتی ہے اس سے ایک گھر کی سو سال کی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن مائیننگ نے پہلے سے موجود مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ جیسا کہ خشک سالی جس کی وجہ سے ہائیڈرو پاور سپلائی کم ہوئی ہے اور گرمی کے باعث ایئر کنڈیشنر کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پیرس ماحولیاتی معاہدہ ‘شرمناک‘

ناقدین نے پیرس اگریمنٹ کو مسلسل بلیک آؤٹس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ قرار دی ہے اور حکومت کے اس معاہدے میں شامل ہونے پر تنقید کی ہے۔ دسمبر 2015 میں اس معاہدے کی شروعات ہوئیں اور اپریل 2016 تک اس پر 195 ملکوں نے دستخط کر لیے تھے۔

اس معاہدے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا اور زمین کے درجہ حرارت کو اس صدی کے آخر تک ایک اعشاریہ پانچ ڈگری تک محدود کرنا ہے۔ یہ حد دنیا میں آنے والے صنعتی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔

ایران میں قدامت پسند اس معاہدے سے خوش نہیں تھے اور 2018 سے وہ اس کے بارے میں تواتر سے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ایران کی پارلیمان کی ڈیجیٹل ایکانومی کمیٹی کے چیئرمین مجتبیٰ توانگر نے بے ضابطہ طور پر چلنے والے مائیننگ سینٹروں کے بجلی کی فراہمی پر بتائے گے اثرات کو غلط کہا ہے۔ ان کے مطابق یہ صرف تین سو میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں نا کہ اٹھارہ سو میگا واٹ جیسا کہ حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے۔

علی رضا سلیمی ایک قدامت پسند قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمان کے صدارتی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔ انھوں نے حکومت سے پیرس معاہدے پر دستخط کرنے اور اس سے ملک کے ایٹمی پاور پلانٹ کو رکنے کے عمل پر جوابات طلب کیے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت ایران 2030 تک زیریلی گیسوں کے اخراج میں چار فیصد تک کی کمی کرے گا۔ ایران نے کہا ہے کہ اگر انھیں بین الاقوامی مالی امداد اور جدید ٹیکنالوجی ملتی ہے تو وہ اسے بڑھا کر بارہ فیصد تک کر دیں گے۔

پیرس معاہدہ

لیکن ایران کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس معاہدے میں توثیق نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا یہ موقف ہے کہ اس معاہدے کا بلیک آؤٹس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔

ریاستی کمپنی تھرمل پاور پلانٹ کے چیف ایگزیکٹیو محسن ترزطلب کا کہنا ہے کہ پیرس معاہدے کی وجہ سے ایسے کوئی احکامات یا ہدایات جاری نہیں کی گئیں ہیں جس کی وجہ سے نئے پاور پلانٹس کو روکا جائے۔

لیکن اس کے باوجود حکوت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی معاہدہ ایران میں بجلی کے بحران کی اصل وجہ ہے۔ کچھ لوگوں نے ٹوئٹر پر اس معاہدے کو ‘شرمناک‘ پیرس معاہدہ بھی کہا ہے۔

یاد رہے کہ صدر حسن روحانی کی حکومت نے اس معاہدے پر دستخط تو کرلیے تھے لیکن پارلیمان سے اس کی منظوری نہیں لے پائے تھے۔ اس کی وجہ، 2018 میں امریکا کی طرف سے لگائی گئی اقتصادی پابندیاں تھیں جس کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں نیوکلیئر معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ ایک برس قبل صدر ٹرمپ پیرس اگریمنٹ سے بھی دستبردار ہوگئے، یہ ان کا وہ واحد فیصلہ تھا جس کی حمایت ایران میں قدامت پسندوں نے کی۔

ایران میں اس ماہ کے آخر میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان اتخابات میں قدامت پسند سیاست دان اور ملک کے موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی کی جیت کی توقع کی جارہی ہے۔

پیرس معاہدے کے ناقدین رئیسی کو اپنا حامی تصور کرتے ہیں، انھوں نے دو سال قبل یہ بیان دیا تھا کہ ایران کو ماحولیاتی معاہدے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے مطابق ‘ہمارا ذہن اور مذہب، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے میں ایران کی مدد کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp