بچوں کی پرورش کا مغربی طریقہ واقعی عجیب ہے؟


 

ہر تہذیب میں بچوں کو اٹھا کر

ہر تہذیب میں بچوں کو اٹھانے کا اپنا ہی طریقہ ہے

’کیا آپ کے بیٹے نے اپنے کمرے میں سونا شروع کر دیا ہے، یا ابھی نہیں؟

یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا پہلے بچے کی پیدائش کے تھوڑے ہی عرصے بعد اکثر والدین کو کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ننھے بچوں کو والدین سے الگ سلانے کا رواج اتنا پرانا نہیں ہے اور نہ ہی دنیا بھر میں والدین نوزائدہ بچوں کو دوسرے بستر پر سلاتے ہیں۔ بلکہ برطانیہ کے برعکس دنیا کی دوسری تہذیبوں میں بچوں اور والدین کا ایک کمرے، اور بسا اوقات ایک ہی بستر پر سونا معمول کی بات ہے۔

مغربی ممالک اور دیگر دنیا میں نئے نئے ماں باپ بننے والے جوڑوں کے درمیان، بچوں کو اپنے ساتھ سلانے یا نہ سلانے کے علاوہ اور بھی فرق ہیں۔ مثلاً دن کے ایک خاص وقت پر بچے کو کچھ دیر کے لیے سلانے سے لے کر بچوں کو بگھی یا سٹرولر میں ڈال کر گھمانے تک، پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ہر ایک ملک اور تہذیب کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ میں نئے نئے ماں باپ بننے والوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ کم از کم پہلے چھ ماہ تک بچے کو اپنے ہی کمرے میں سلایا کریں، لیکن اکثر والدین کا خیال ہے کہ یہ عرصہ مختصر ہی ہونا چاہیے کیونکہ آخر کار بچے کو اس کے لیے مخصوص کمرے یا نرسری میں ڈالنا ہو گا۔

اس کے برعکس دنیا بھر میں اکثر معاشروں میں چھوٹے بچے زیادہ عرصے تک والدین کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ سنہ 2016 کے ایک جائزے میں جب اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق کا احاطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اکثر ایشیائی ممالک میں بچے ماں یا ماں باپ دونوں کے ساتھ ایک ہی بستر میں سوتے ہیں۔ مثلاً انڈیا اور انڈونیشیا میں یہ شرح 70 فیصد سے زیادہ پائی گئی، جبکہ سری لنکا اور ویتنام میں 80 فیصد سے بھی زیادہ۔ افریقی ممالک میں اس حوالے سے کوئی جامع تحقیق نہیں ہوئی، تاہم جن ممالک کے اعداد و شمار دستیاب تھے، ان کے مطابق بچوں کو زیادہ عرصے تک اپنے ساتھ سلانے کی روایت تقریباً دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔

بنگولورو، انڈیا میں مقیم ایک ڈاکٹر اور والدین کو مشورے فراہم کرنے والی دمبیتا دتّا کہتی ہیں کہ مغربی اثرات کے باوجود، انڈیا میں اب بھی بچوں کو اپنے ساتھ سلانے کی روایت پوری طرح قائم ہے، حتیٰ کہ ان گھروں میں بھی جہاں بچوں کے الگ کمرے بھی موجود ہوتے ہیں۔ دمیتا دتّا کے بقول وہ ایسے خاندانوں کو بھی جانتی ہیں ’جو چار افراد پر مشتمل ہوتے ہیں، جہاں دونوں بچوں کے الگ الگ کمرے بھی موجود ہیں اور والدین کے لیے ایک الگ کمرہ، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ والدین اور دونوں بچے والدین کے بستر میں سوتے ہیں۔ یہ بہت معمول کی بات ہے۔‘

ڈاکٹر دتّا کا کہنا ہے کہ اپنے ساتھ بچوں کو سلانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ والدین کو رات کو اٹھ اٹھ کر یہ نہیں دیکھنا پڑتا کہ بچہ کہیں جاگ تو نہیں گیا۔ دتّا نے اپنی چھوٹی بچی کے لیے بھی ایک بستر رکھا ہوا تھا جسے وہ رات کو کھول کر اپنے بستر کے ساتھ لگا دیتی تھیں اور ان کی بیٹی سات سال کی عمر تک اسی بستر پر سوتی رہی۔ ’حتیٰ کہ جب انہوں نے بچی کو اپنا دودھ پلانا چھوڑ دیا تھا، وہ تب بھی ہم میاں بیوی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں سوتی تھی۔‘

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک خیالی بات ہے کہ بچوں کو رات بھر جاگنا نہیں چاہیے

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک خیالی بات ہے کہ بچوں کو رات بھر جاگنا نہیں چاہیے

اس کے برعکس مغربی معاشروں میں بہت سے والدین بہت جلد بچے کو خود سے سونے کی تربیت دینے کے طریقوں کی جانب راغب ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک انتہا یہ ہوسکتی ہے کہ آپ بچے کو چھوڑ دیں اور وہ خود ہی ‘رو رو کر تھک ‘ کے لمبی نیند سو جائے گا، اور یوں تھکاوٹ کے مارے والدین کو بھی ضروری آرام کا موقع مل جائے گا۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا میں سرکاری پیسے پر قائم نیند کے رہائشی سکول بھی موجود ہیں جہاں والدین بچے کے ساتھ جا سکتے ہیں اور بچے کو سلانے کی تربیت لے سکتے ہیں۔

بچے کو چھوٹی عمر سے آزادی دینا دراصل مغربی تہذیب سے ہم آنگ ہے جس میں خود انحصاری پر زور دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے کو اپنے بستر میں شریک کرنا ایسے ہی جیسے آپ بچے کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کر رہے ہیں اور یوں اس چیز کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ بچے اپنے والدین پر انحصار کرتے رہیں۔ لیکن ڈاکٹر دتّا جیسے زیادہ ہمہ گیر سوچ رکھنے والے والدین اس چیز کو یوں نہیں دیکھتے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘آپ بچوں کو کچھ خود اعتمادی بھی دیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ کچھ آزادی بھی اور وہ پھر وہ آگے چل کر خود اپنی مرضی سے آپ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں بھی تو وہ پھر آپ کے ساتھ نہیں چِپکے رہیں گے۔’

تہذیبی عوامل کا اثر صرف اس بات پر نہیں پڑتا کہ نوزائدہ بچے سوتے کہاں ہیں، بلکہ ان عوامل کے اثرات اس پر بھی پڑتے ہیں کہ بچے کب اور کتنی دیر سوتے ہیں۔ ٹوکیو کے ایک طبی مرکز کے سربراہ، جُن کوہیاما اور ان کے ساتھیوں کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک کی نسبت جاپان میں بچے تین ماہ کی عمر کے بعد زیادہ دیر قیلولہ نہیں کرتے کیونکہ جاپان میں سونے کو سستی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

کوہیاما کی ٹیم کی تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ یورپی ممالک کے بچوں کے مقابلے میں ایشیائی بچے رات کو دیر سے سوتے ہیں۔ کوہیاما کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایشیائی والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شام کوں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ یوں دیکھا جائے تو کسی حد تک جاپان میں بچوں کو ساتھ سلانے کی روایت کی وجہ بھی والدین کی یہی خواہش ہے کیونکہ ‘ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ ان کے اپنے جسم کا حصہ ہے۔’

اگرچہ برطانیہ کی طرح، امریکہ میں بچوں کی صحت کی تنظیم ،امیرکن اکیڈمی آف پیڈیئٹرکس’ بھی والدین کو یہی مشورہ دیتی ہے کہ وہ بچوں کو اچانک موت کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے ہی کمرے میں سلایا کریں، تاہم تنظیم والدین کو بچوں کو اپنے بستر میں سلانے سے منع کرتی ہے کیونکہ تنظیم کے خیال میں بچے کو اپنے ساتھ سلانے سے نوزائدہ بچوں کے اچانک دم توڑ جانے یا سڈن انفینٹ ڈیتھ سینڈروم (ایس آئی ڈی ایس) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

لیکن آل انڈیا میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک امراض اطفال کے ماہر، رشمی داس کہتے ہیں کہ بچوں کو ساتھ سلانے کے حوالے سے معیاری تحقیق کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا والدین کے ساتھ ایک ہی بستر پرسونے والے بچوں کے اچانک مر جانے کا خطرہ واقعی زیادہ ہوتا ہے یا نہیں۔ ان کے خیال میں یہ بتانا مشکل ہے کہ والدین میں تمباکو نوشی اور شراب نوشی سے یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے یا محض ساتھ سلانے کا عنصر بھی اتنا ہی اہم ہے۔

اس موضوع پر زیادہ تر تحقیق امیر ممالک میں ہوئی ہے جہاں بچوں کو ساتھ سلانے کا رواج زیادہ عام نہیں، لیکن کم آمدنی والے ممالک، جہاں ساتھ سلانا ایک روایت ہے، وہاں نیند کی حالت میں بچوں کی اموات کی شرح بھی دنیا میں کم ترین ہے۔

بچوں کو کمر سے باندھے رکھنے کی روایت بھی بہت عام ہے

بچوں کو کمر سے باندھے رکھنے کی روایت بھی بہت عام ہے

لگتا ہے کہ اس کی وجوہات محض جغفرافیائی نہیں ہیں، کیونکہ مغرب میں آنے والے کئی افراد جب اپنے علاقوں کی روایات کو ساتھ لائے تو ایسے خاندانوں میں بھی نیند میں بچوں کے مر جانے کی شرح کم رہی ہے۔ مثلاً برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگوں میں بھی ایس آئی ڈی ایس کا خطرہ سب سے کم دیکھنے میں آیا ہے حالانکہ برطانوی ماؤں کے مقابلے میں پاکستانی مائیں چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ سلاتی ہیں۔

یونیورسٹی آف ڈرہم کے شعبۂ بشریات کی پروفیسر، ہیلن بال کہتی ہیں کہ نیند میں بچے کی اموات میں کمی کا تعلق کا خاندان کی تہذیبی روایات پر ہوتا ہے۔ بریڈ فورڈ میں رہنے والی پاکستانی نژاد ماؤں میں بچے کو اپنا دودھ پلانے کی شرح زیادہ ہے اور ان کے ہاں سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور اپنے بچے کو دوسرے کمرے میں سلانے کے رجحانات بھی کم ہیں۔

رشمی داس کہتے ہیں کہ وہ بھی والدین کی حوصلہ افزائی کرنا پسند کریں گے کہ وہ بچوں کو ساتھ سلایا کریں لیکن ‘اس کے ساتھ خبردار بھی کریں گے کہ بچوں کو ساتھ سلانے والے سگریٹ نوشی نہ کریں، شراب نہ پیا کریں اور زیادہ فربہ بھی نہیں ہوں۔ امریکہ میں ایس آئی ڈی ایس پر کام کرنے والی ‘لوری’ نامی خیراتی تنظیم بھی ایسے والدین کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ بچے کے لیے اپنے بستر کو محفوظ بنایا کریں۔

جس طرح بچے کو ساتھ سلانے کا مقصد رات کو بچے کو اپنے ساتھ رکھنا ہے، اسی طرح دن کو گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بچے کو اٹھائے رکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ بچے آپ کے ساتھ رہیں۔ دن کے وقت بچے کو اپنی کمر یا کاندھے کے گرد باندھے رکھنا کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ ہم انسان جب سے اس زمین پر آئے ہیں تب سے ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ برطانیہ میں بچوں کو بگھی یا پریم میں ڈالنے کا رواج ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ہی شروع ہوا جب مغربی معاشرے کے کچھ حلقوں میں بچوں کو اپنے جسم کے ساتھ باندھ کر اٹھائے رکھنے کی روایت قدرے کم ہوتی گئی۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے تو وہاں ہر تہذیب میں بچوں کو اٹھانے کا اپنا ہی طریقہ ہے۔

حتیٰ کے جو والدین بچوں کو اپنے جسم کے ساتھ کسی تھیلے جیسی چیز میں نہیں اٹھاتے، وہ بھی جانتے ہیں کہ جوں ہی آپ بچے کو اٹھاتے ہیں اور چلنا شروع کرتے ہیں تو بچہ فوراً پُرسکون ہو جاتا ہے۔ جاپان میں انسانی دماغ پر تحقیق کرنے والے مرکز، رائیکن سینٹر فار برین سائنس سے منسلک کومی کدورا نے بچوں کو اٹھانے کے نفسیاتی اثرات پر تحقیق کی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے تحقیق شروع کی تو انہوں نے دیکھا کہ اس حوالے سے صرف والدین کی لکھی ہوئی ڈائریاں موجود تھیں اور کسی باقاعدہ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ بچے کو اٹھائے رکھنے کے وقت اور اس بات میں کوئی براہ راست تعلق موجود ہے کہ وہ کتنی دیر روتا ہے۔ کومی کدورا کے بقول وہ اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکتی تھیں کہ آپ جتنی دیر بچے کو اٹھائے رکھتے ہیں وہ اتنی دیر روتا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بعد میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ بچے کو اٹھائے بغیر بھی اگر آپ اسے ہلاتے رہتے ہیں تو وہ چپ کر جاتا ہے۔ مثلاً بگھی یا کار کی سیٹ کے ساتھ باندھنے اور ایک جگہ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر اٹھائے رکھنے سے بھی بچہ کچھ دیر بعد پرُسکون ہوجاتا ہے، تاہم اگر آپ سہلانے کے ساتھ ساتھ بچے کو چپ کرانے کی کوئی اور تدبیر بھی کرتے ہیں تو وہ زیادہ جلدی پرسکون ہو جاتا ہے۔

بال کے بقول ' ہم نے بس یہ بات بنا لی ہے کہ ننھے بچوں کو رات میں نہیں جاگنا چاہیے۔'

بال کے بقول ‘ ہم نے بس یہ بات بنا لی ہے کہ ننھے بچوں کو رات میں نہیں جاگنا چاہیے۔’

اگر جبلّی طور پر دیکھیں تو چھوٹے بچے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دن رات آپ کے بہت قریب رہیں۔ اپنے ابتدائی مہینوں میں انہیں چوبیس گھنٹے بار بار دودھ پلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ جب بچے کا ذہن دن رات کے معمولات کو قبول کر لیتا ہے تو وہ رات کو گہری نیند کے عادی ہونا شروع جاتے ہیں، تب بھی وہ کم از کم ایک سال کی عمر تک رات کو جاگ پڑتے ہیں۔

بال کہتی ہیں کہ ‘گزشتہ سینکڑوں یا ہزاروں برسوں میں ننھے بچوں کی بائیولوجی یا حیاتیات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی ہے، لیکن ہمارے رسم و رواج اور تہذیب میں تبدیلیاں آ چکی ہیں اور گزشتہ چند عشروں میں بچوں اور والدین کی توقعات بھی ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکی ہیں۔’

لیکن مغربی ممالک میں پہلی مرتبہ ماں باپ بننے والوں کو اپنے خاندان، دوستوں اور معاشرے سے یہ پیغام نہیں مل رہا کہ بھئی رات میں بچے کا جاگ جانا معمول کی بات ہے۔ بال کے بقول ‘ ہم نے بس یہ بات بنا لی ہے کہ ننھے بچوں کو رات میں نہیں جاگنا چاہیے۔’

لیکن اس تصوراتی بات کے نتائج بھی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوری بعد کے دنوں میں ماؤں کی نیند خراب ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے وہ زچگی کے مشکل مراحل سے گزری ہوتی ہیں۔ لیکن بال کہتی ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کا یہ طریقہ نہیں کہ آپ بچے کی نیند کو ‘ٹھیک کرنے بیٹھ جائیں ‘ بلکہ آپ والدین کی صحت پر براہ راست کام کام کریں تاکہ ان کی اپنی ذہنی صحت بہتر رہے۔.

لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسا طریقہ اپنائیں جو بچوں اور خود ان کے لیے کام کرے،

لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسا طریقہ اپنائیں جو بچوں اور خود ان کے لیے کام کرے،

ایسے والدین جو ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں انھیں اپنے بچے کے سونے جاگنے کے معمولات کے اثرات ایسے والدین سے زیادہ محسوس ہوتے ہیں جو اس کیفیت میں نہیں ہوتے۔’ ہمارا استدلال یہ ہے کہ ہم اصل میں اس چیز کا علاج کرنا چاہیے جو والدین کے دماغوں میں ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم والدین کی مدد کریں کہ وہ مختلف انداز میں سوچیں۔’

نئے والدین کو بچوں کی نیند سے متعلق درست معلومات سے مسلح کرنے کے لیے بال نے کچھ تجاویز ترتیب دی ہیں۔

بال کے بقول یہ تصور کہ تھوڑے بڑے بچوں کو پوری رات سوئے رہنا ‘چاہیے’ اس کا ماخذ سنہ 1950 کے عشرے میں کی جانے والی تحقیق ہے جس میں لندن میں رہنے والے 160 بچوں کے مطالعے سے معلوم ہوا تھا کہ تین ماہ کی عمر تک 70 فیصد بچے پوری رات سوتے رہتے ہیں۔

لیکن اس تحقیق میں ‘پوری رات سونے’ سے مراد یہ تھی کہ بچے آدھی رات سے صبح پانچ بجے کے دوران نہ تو روتے ہیں اور نہ والدین کو تنگ کرتے ہیں۔ لیکن یہ تصور آٹھ گھنٹے کی اس پرسکون نیند سے کوسوں دور ہے جس کے لیے پہلا بچہ ہونے پر اس کے ماں باپ ترستے ہیں۔اور اس تحقیق میں یہ بھی معلوم نہیں کیا گیا تھا کہ آیا جب والدین سو رہے تھے تو بچہ بھی واقعی سو رہا تھا یا نہیں۔ معلوم نہیں اس وقت بچے کیا کر رہے تھے، لیکن ان میں سے 30 فیصد بچوں کو اس عمر تک پوری رات سونے کی عادت نہیں پڑی تھی، اور وہ بچے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ‘پوری رات سوتے رہے’، وہ بھی جب ایک سال کے ہوئے تو رات کو بار بار جاگنے کی روش پر آ گئے۔

حتیٰ کہ آج بھی تین چار ماہ کے بچوں کی نیند پر ہونے والی تحقیق میں دنیا کی کل آبادی کے مخصوص حصوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بال بتاتی ہیں کہ ‘گزشتہ کئی عشروں میں کی جانے والی تحقیق زیادہ تر مغربی بچوں پر کی گئی ہے۔’

ہم بچوں کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اعتبار سے مختلف تہذیبوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے، لیکن مختلف خطوں کے اندر بھی رسم و رواج میں بہت فرق دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً مغرب میں ہر کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ بچے کا اپنے کمرے میں سونا ہی بہترین حل ہے۔اٹلی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں والدین کا کہنا تھا کہ ‘لوگ اپنے بچے کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں، اس میں ایک بڑا کردار لوگوں کے غیر رحمدلانہ حالات کا ہوتا ہے اور ہر ماں باپ اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنا مخصوص راستہ نکال لیتے ہیں۔ حالات ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔‘

جہاں تک کرودا کا اپنا تعلق ہے تو انہوں نے دن کے وقت بچوں سے دور رہنے کا حل یہ نکالا کہ انہوں نے اپنے چار بچوں کو اپنے ساتھ ہی سلایا۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں ایک کل وقتی ملازم ہوں اور اگر میں ساری رات بچوں کو خود سے الگ رکھتی تو بچے جب چھوٹے تھے تو میں ان میں سے ہر کسی کو کم سے کم وقت دے پاتی۔ ہم رات کو بھی خوب باتیں کر سکتے ہیں۔ اصل بات بچوں سے بات کرنا اور اکھٹے وقت گزارنا ہے۔’

تاہم کدورا کہتی ہیں کہ بچوں کی دیکھ بھال کا جو بھی طریقہ ہو، لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایسا طریقہ اپنائیں جو بچوں اور خود ان کے لیے کام کرے، بجائے یہ فکر کرنے کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں۔

‘میرا خیال ہے کہ والدین اور بچے دونوں ایک دوسرے کے لیے خود کو ڈھال سکتے ہیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بچتی ہے۔’

مغربی سانچے سے ہٹ کر سوچنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ ننھے بچوں کا مقصد ہمیں انگلیوں پہ نچانا نہیں ہوتا، چاہے آپ کو صبح تین بجے آنکھ کھلنے پر یہی لگے کہ بچہ آپ کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ڈاکٹر دتّا کہتی ہیں کہ بچے تو ‘اس دنیا میں آنی والی بے بس ننھی مخلوق ہوتے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ انہیں ہمدردی اور شفقت کی نظر سے دیکھیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp