کرونا پابندیوں کے باعث پاکستان میں پولیو کیسز میں بھی کمی کا دعویٰ


فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان میں انسداد پولیو پرگرام کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کرونا پابندیوں کی وجہ سے ملک میں رواں برس پولیو کیسز میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمارکے مطابق رواں برس پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران پولیو وائرس سے 50 بچے متاثر ہوئے تھے۔

البتہ، حکام کا کہنا ہے کہ ملک سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج وہ دو فی صد بچے ہیں جن کے والدین انہیں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے مسلسل انکار کرتے آ رہے ہیں۔

پاکستان کے انسداد پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد آصف بیگ نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ برس مئی کے اواخر تک پولیو وائرس کے 50 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ رواں برس اب تک صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

ڈاکٹر بیگ کے مطابق گزشتہ برس لیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں 62 فی صد مثبت کیس تھے جب کہ رواں برس مثبت کیسز کی شرح کم ہو کر 24 فی صد ہو گئی ہے۔

سربراہ انسداد پولیو پروگرام ڈاکٹر شہزاد آصف بیگ کا کہنا ہے کہ رواں برس ایسا بھی ہوا ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں سے سیوریج سے جتنے بھی نمونے لیے گئے ان میں پولیو وائرس کی موجودگی نہیں پائی گئی ہے۔

ڈاکٹر بیگ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان دو تین بار ایک ایسی سطح پر پہنچ گیا تھا جب ملک میں پولیو وائرس کے پانچ، چھ اور آٹھ کیس رپورٹ ہوئے جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب پاکستان میں پولیو وائرس ختم ہو سکتا ہے۔

لیکن اس وقت ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی مثبت شرح کی 60 سے 80 فی صد پائی گئی جب کہ بچوں میں پولیو وائرس کی شرح کم تو تھی مگر ماحول میں یہ وائرس موجود تھا۔

ڈاکٹر بیگ کے بقول یہ بات امید افزا ہے کہ اگر بچوں میں پولیو وائرس کم رپورٹ ہو رہے ہیں تو دوسری جانب سیوریج کے نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی شرح کم ہوئی ہے۔

پولیو وائرس کے خاتمے کی راہ میں حائل مشکلات

پاکستان کے انسداد پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد آصف بیگ کا کہنا ہے کہ ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے حکومت مسلسل کوشش کر رہی ہے اور ہر سال پولیو سے بچاؤ کی مہم کے دوران کروڑوں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دو فی صد بچے ایسے ہیں جن کے والدین انہیں پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں اور یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے۔

ان کے بقول ہم ہر انسداد پولیو مہم کے دوران اِن دو فی صد کے علاوہ 98 فی صد بچوں کو بار بار پولیو کے قطرے پلوا رہے ہیں اور ہر بار یہ دو فی صد بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ہم اس سائیکل کو نہیں توڑیں گے اور ان دو فی صد بچوں کو پولیو کے قطر ے نہیں پلائیں گے تو ہمارے ہاں پولیو کے مثبت کیسوں میں کمی بیشی کا عمل جاری رہے گا۔

کرونا وائرس کی روک تھام کے اقدمات کا پولیو وائرس پر اثر

ڈاکڑ بیگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مختلف اوقات میں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہونے کی وجہ سے پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔

ڈاکٹر بیگ کے مطابق پولیو وائرس کے لحاظ سے پاکستان میں تین زون ہیں، خیبر پختونخوا میں خیبر زون، بلوچستان میں کوئٹہ زون اور اس کے بعد سندھ میں کراچی زون ہے۔

لیکن ڈاکٹر بیگ کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان لوگوں کی زیادہ نقل و حرکت کی وجہ سے وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہا تھا۔ تاہم کرونا پابندیاں کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ میں بھی کمی آئی ہے۔

پولیو وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین ناگزیر

ڈاکٹر بیگ کا کہنا ہے کہ عوام کو ان کا یہی پیغام ہے کہ کرونا کی ویکسین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ویکسین زندگی بچاتی ہے اور دنیا میں ہر ایک ملک کوشش کر رہا ہے کہ انہیں کرونا وائرس کی مطلوبہ مقدار میں ویکسین حاصل ہو سکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیو وائرس کی ویکسین میسر بھی ہے اور محفوظ ہے اور اسی ویکسین کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا بھر سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments