ماحولیات کا عالمی دن: وزیراعظم عمران خان کا ’10 بلین ٹری سونامی منصوبہ، پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر ’اعتراف‘

شبینہ فراز - صحافی


پہلا منظر مٹیاری سندھ کا ہے۔۔۔ روزی سکینہ بروہی اپنی پودوں کی نرسری میں بہت خوش اور مگن ہیں۔

55 سال کی عمر میں وہ کوئی محنت طلب کام کرنے سے قاصر تھیں اور ایسے میں انھیں پودوں کی نرسری بنانے کا کام مل گیا۔ نرسری کے لیے وہ گھر کے پاس ہی موجود زمین استعمال کرتی ہیں۔

وہ چمکتی آنکھوں سے بتا رہی تھیں کہ بیج بھی سرکار کے لوگ دے جاتے ہیں، لگانے کا طریقہ بھی وہی بتاتے ہیں اور جب پودے بڑے ہو جاتے ہیں تو وہی لوگ خرید بھی لیتے ہیں اور انھیں صرف محنت کرنا ہوتی ہے۔ سکینہ خوش ہیں کہ انھیں گھر بیٹھے ایک معقول آمدن ہو رہی ہے۔

دوسرا منظر اسلام آباد کا ہے جو 5 جون کو پیش آ سکتا ہے۔۔۔

دلربا موسم، افق پر سرمئی بادل اور ہلکی ہلکی بوندا باندی اور عاشقان ماحول کا قافلہ مارگلہ پہاڑوں کی طرف رواں دواں ہے۔

اس قافلے کی سربراہی وزیراعظم پاکستان عمران خان کر رہے ہیں اور ان کے ہمراہ مشیر خصوصی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم بھی موجو دہیں۔ اس قافلے کی منزل مرگلہ سلسلہ کوہ میں مکھنیال نامی ایک چھوٹے سے گاﺅں کے قریب واقع جنگل ہے جہاں عالمی یوم ماحول کی تقریبات کا آغاز ایک پودا لگا کر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’10 برس میں لاہور کے 70 فیصد درخت کٹے، نتیجہ تو آنا تھا‘

’بائیڈن نے ایسے ملک کو کیوں نظر انداز کیا، جس نے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا‘

شہد کی مکھیاں ’ایک سال میں آپ کا سرمایہ دگنا کر سکتی ہیں‘

یہ وہ ’ایک ارب واں‘ پودا ہے جس کے لگتے ہی پاکستان اپنے ’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبے‘ کے پہلے ایک ارب درختوں کی شجر کاری کی تکمیل کا ہدف حاصل کر لے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے ایک ارب درختوں کے منصوبے کا پہلا پودا بھی یہیں لگایا گیا تھا۔

مٹیاری کی روزی سکینہ اگرچہ نہیں جانتی کہ وہ حکومت کے دس ارب درختوں کی شجرکاری کا حصہ ہیں لیکن وہ دن و رات نرسری میں پودے تیار کرنے میں مصروف ہیں اور صرف وہی نہیں بلکہ ان جیسی ہزاروں خواتین ملک کے مختلف حصوں میں نرسریاں بنا کر پودے تیار کر رہی ہیں۔

درخت لگانے کی اس مہم میں حکومت نے ہر صوبے میں نرسریاں قائم کرنے کے لیے نہ صرف لوگوں کو قرضے فراہم کیے بلکہ ان سے پودے خریدنے کی یقین دہانی سے متعلق معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔

یوں بہت خاموشی سے روزگار کا ایک نیا اور غیر روایتی ذریعہ پروان چڑھ رہا ہے اور اس معاشی انجن سے ہزاروں خواتین کے گھروں کا چولہا جل رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس وقت نرسریوں میں تین کروڑ پودے تیار ہیں جنھیں آنے والے چند مہینوں میں لگا دیا جائے گا۔

عالمی یوم ماحول

دنیا بھر میں عالمی یوم ماحول 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ سنہ 1972 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور دو سال بعد یعنی سنہ 1974 میں پہلی بار یہ دن عالمی سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔ اس پہلے یوم ماحول کو ’صرف ایک ہی کرہ ارض‘ (Only One Earth) کے عنوان سے منایا گیا تھا۔

اس سال سنہ 2021 کے یوم ماحول کا عنوان ’ماحولیاتی نظاموں کی بحالی‘ (Ecosystem restoration) ہے۔ اسی دن اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی جانب سے اگلے دس برسوں کو ’ماحولیاتی نظام کی بحالی کی دہائی‘(Decade on Ecosystem Restoration 2021 – 2030) بھی قرار دیا جارہا ہے۔ جس میں کرہ ارض پر موجود مختلف ماحولیاتی نظاموں کی بحالی کے لیے کام کیا جائے گا اور امید کی جا رہی ہے کہ فطرت اور انسان کا رشتہ ازسرنو مضبوط اور پائیدار ہو سکے گا۔

ماہرین کے نزدیک اس سال کا یوم ماحول ایک خاص اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخ ساز دن ہے کیونکہ اس سال اس دن کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہے۔

یہ دراصل پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف سمجھا جارہا ہے۔ موسمیاتی خطروں سے نبرد آزما ممالک میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے بلکہ کورونا وائرس کی وبا میں جب مضبوط معیشتیں منہ کے بل آ گریں، تو پاکستان نے نہ صرف اپنے منصوبے جاری رکھے بلکہ اس شعبے میں ہزاروں کی تعداد میں نئے روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے اور پاکستان ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

اربوں درختوں کی شجرکاری

کرہ ارض پر بڑھتی حدت اور بگڑتے موسموں کے حوالے سے اگرچہ ہم کسی شمار قطار میں نہیں کہ ہماری مختصر معیشت گرین ہاﺅس گیسوں کی پیداوار میں بہت نیچے یعنی 135ویں نمبر پر ہے مگر شومئی قسمت کہ بگڑتے موسموں کے خطرات بھگتنے والے ممالک میں ہم پچھلے دس برسوں سے ٹاپ 10 میں موجود ہیں۔

جرمن واچ کی The Global Climate Risk Index کی سالانہ رپورٹ کے مطابق کلائمیٹ چینج کے خطرات بھگتنے والے ممالک میں اس بار ہمارا نمبر آٹھواں ہے اور سنہ 1998 سے 2018 یعنی ان بیس برسوں میں قدرتی آفات کے باعث 9,989 جانوں کا ضیاع اور 3.8 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔

پاکستان کا منفرد محل وقوع اسے وسائل کی دولت سے مالامال تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ قدرت کی فیاضی نے ہمیں سمندر سے لے کر بلندوبالا شمال تک ہر قسم کے ماحولیاتی نظام سے نوازا ہے یعنی سمندر، ساحل، زرعی میدان، صحرا، دریا اور سات ہزار سے زائد گلیشیئرز۔ یہاں تین عظیم پہاڑی سلسلوں کوہ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کا سنگم بھی واقع ہے۔

یہ جغرافیائی تنوع ہماری دولت تو ہے لیکن ہمارے لیے خطرات کا سبب بھی ہے۔ ایک طرف گلیشیئرز پگھلنے اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کا خطرہ منڈلاتا ہے تو دوسری جانب خشک سالی کے سائے چھائے رہتے ہپں۔ سمندری طوفان اور سمندری کٹاﺅ جیسے خطرات بھی منہ کھولے آبادیوں کو نگلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے ان خطرات سے نمٹنا اتنا آسان کام نہیں۔

ماحولیاتی ماہرین اور سائنس دانوں کے مطابق ان تمام مسائل کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی شامل ہے۔ شاید ہمیں ادراک نہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنے لیے جہنم خرید رہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی سے پیدا ہونے والی چند بدترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

ہمارے ’شاندار‘ فیصلوں کے باعث باغات کا شہر لاہور درختوں سے خالی ہو کر ’سموگ ٹریپ‘ کراچی ’ہیٹ ٹریپ‘ اور اسلام آباد ’پلوشن ٹریپ‘ بنتا جارہا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اپنے گرین ایجنڈے کے تحت بلین ٹری سونامی اور اب 10 بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں سے ملک بھر میں جنگلات اور شجرکاری کے حوالے سے عام آدمی کو نہ صرف شعور بخشا بلکہ اسے ان منصوبوں میں شامل بھی کر لیا۔

بین الاقوامی پذیرائی

بلین ٹری سونامی یا ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2014 میں کیا تھا۔ یہ ایک ارب درخت محکمہ جنگلات اور بنجر زمینوں کے 35,000 ہیکٹرز پر لگائے گئے۔

سابق ڈی آئی جی جنگلات عبدالمناف قائمخانی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’آج سے سات برس قبل سنہ 2014 میں شروع ہونے والے علاقائی ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے نے دیکھتے ہی دیکھتے بڑی خاموشی کے ساتھ انقلاب برپا کر دیا۔ خیبر پختونخواہ سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی بازگشت تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف ملک بھر میں سنائی دینے لگی بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ منصوبہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ’بون چیلینج،، عالمی بینک اور آئی یو سی این جیسے ماحولیاتی اداروں کے ایجنڈے کا اہم حصہ قرار دیا جانے لگا۔‘

’آہستہ آہستہ اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو کے غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی اپنی توجہ اس جانب مبذول کر لی اور پھر اپنے مشاہداتی دوروں اور جائزوں پر مبنی تاثرات سے دنیا بھر کو آگاہی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد عالمی نشریاتی ادارے بھی اس جانب متوجہ ہوئے اور اس طرح ایک ترقی پذیر ملک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اسے ایک اہم قدم سے تعبیر کیا جانے لگا۔‘

صوبائی سطح پر بلین ٹری سونامی منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد جونہی پاکستان تحریک انصاف کو سنہ 2018 میں مرکزی حکومت سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تو اس نے وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی کے سبب دس ارب درختوں کی سونامی (10 بلین ٹری سونامی) کا میگا پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں دس لاکھ ہیکٹرز پر مشتمل جنگلات کی بحالی، فروغ اور بڑے پیمانے پر شجرکاری کے ذریعے سبز ماحولیاتی انقلاب برپا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

بظاہر یہ ایک مشکل ہدف کا تعاقب ہے لیکن گذشتہ دو برسوں میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود یہ منصوبہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران نہ صرف اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم جیسے اداروں نے پاکستان کے اس عزم کو دل کھول کر سراہا بلکہ کئی ایک دوسرے ممالک نے جن میں جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب شامل ہیں، اس طرح کے منصوبے اپنے ممالک میں شروع کرنے کا اعلان کیا۔

موجودہ حکومت کے ڈھائی سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک تقریباً ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں، ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ ڈھائی برسوں میں 9 ارب درخت لگائے جاسکیں؟

اس سوال کا جواب وزیراعظم کے مشیر خصوصی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اس طرح دیتے ہیں کہ ’ہمارا ہدف ان پانچ برسوں میں تین ارب درخت لگانا ہے جو ہم آسانی سے پورا کرلیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی اور ہم ان درختوں کی دعاﺅں سے یہ ہدف بھی پورا کرلیں گے۔‘

ماہر ماحولیات اور نباتات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ ’اس پروگرام نے ملکی اور عالمی سطح پر اتنی توجہ اور اہمیت حاصل کر لی ہے کہ اگر آئندہ تحریک انصاف اقتدار میں نہ بھی آ سکی تو جو بھی حکومت ہو گی اس پر اس منصوبے کی تکمیل کا عالمی دباﺅ موجود ہو گا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اس منصوبے کو ختم یا نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔‘

محفوظ علاقوں کا نظام

شجرکاری کے علاوہ بھی حکومت پاکستان نے دیگر ماحول دوست اقدامات کیے ہیں جن میں سر فہرست محفوظ علاقوں میں اضافہ ہے۔

اس وقت پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 398 علاقے موجود ہیں۔ ان میں سے 31 کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے جبکہ مزید 15 نیشنل پارک بنائے جانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس طرح جنگلی حیات کے لیے مختص جگہ کا رقبہ سنہ 2023 تک پاکستان کے کل رقبے کا 15 فیصد ہو جائے گا۔

ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ نیشنل پارک کے نظم و نسق چلانے کے لیے زیارت بلوچستان میں ایک نیشنل پارک اکیڈمی بھی قائم کی جائے گی جہاں نوجوانوں کو خصوصی تربیت کے بعد نوکری دی جائے گی اور امید ہے اس سے کم از کم پانچ ہزار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

گرین اینرجی

ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز نعیم کے مطابق حکومت نے فوری طور پر کوئلہ جلانے والے 2600 میگا واٹ کے منصوبے ترک کر کے اس کی جگہ 3700 میگا واٹ پن بجلی کے نئے منصوبوں پر توجہ دی ہے اور ملک میں اب بجلی کے ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جن میں تیل یا کوئلہ نہ جلتا ہو۔

’کوشش کی جا رہی ہے کہ شمسی، آبی اور ہوا کی تونائی کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جائے۔ اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ایسے ہی منصوبوں سے آتا ہے جہاں تیل یا کوئلہ نہیں جلایا جاتا۔ کوشش ہے کہ اسی دہائی میں دو تہائی بجلی بغیر تیل یا کوئلہ جلائے بنائی جا سکے۔‘

برقی گاڑیاں

ڈاکٹر پرویز نعیم کے مطابق اس حکومت کا ایک اور ماحول دوست منصوبہ برقی گاڑیوں کا فروغ ہے۔

گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں شہری آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے برقی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت برقی گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکس برائے نام کر دیا ہے۔

اس حوالے سے خاصی پیشرفت دیکھنے میں آرہی ہے۔ جرمن کار کمپنی بی ایم ڈبلیو نے اپنا چارجنگ سٹیشن اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں قائم کردیا ہے۔ پی ایس او بھی جناح سپر مارکیٹ میں ایک اور چارجنگ سٹیشن بنانے جا رہا ہے۔ کراچی میں شیل اور کراچی الیکٹرک کی شراکت سے تین چارجنگ سٹیشن کا منصوبہ ہے جو ڈیفنس، گلشن اور گڈاپ کے علاقوں میں لگائے جائیں گے۔

اس وقت ملک میں کم از کم آدھی درجن کمپنیاں برقی گاڑیوں کے اسمبل پلانٹ لگا رہی جس سے ان گاڑیوں کی قیمت موجودہ پیٹرول پر چلنے والی گاڑیوں سے بھی کم ہو جائے گی۔ حکومت پر امید ہے کہ اس دہائی کے آخر تک پاکستان کی سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں میں 30 فیصد گاڑیاں برقی ہوں گی، جس کا تناسب اگلی دہائی میں 90 فیصد تک جا سکتا ہے۔

گرین ڈپلومیسی

ملک امین اسلم کا کہنا ہے ان درختوں نے بہت سے بند دروازے کھولے ہیں اور گرین ڈپلومیٹ کا کردار ادا کیا ہے۔

’حال ہی میں سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کچھ سردمہری کا شکار تھے لیکن جب سعودی عرب نے اپنے ملک میں بلین ٹری منصوبے کا آغاز کیا تو وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر دعوت دی اور انھوں نے وہاں کا دورہ کیا جس سے تعلقات بحال ہو گئے۔‘

’دو ماہ پہلے ہونے والی کلائمیٹ سمٹ میں پہلے امریکا نے ہمیں دعوت نہیں دی تھی مگر ظاہر ہے ہمارے کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا تو ہمیں دعوت دینی ہی پڑی۔ بلین ٹری کا لفظ پاکستان کی پہچان بن گیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد برطانیہ اور نیوزی لینڈ بھی ایسے ہی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp