تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ ایک شام


میرا تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق کیسا تھا یا شاید کیسا ہے اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ایوب میڈیکل کالج میں جمعرات کی ایک شام میرا ایک داڑھی اور پگڑی والے (جنہیں عام زبان میں امیر صاحب کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے ) بھائی سے آمنا سامنا ہو گیا انہوں نے مخصوص انداز میں مجھے دعوت دی اور پھر سوال کیا کہ ”کیا آپ تبلیغ میں جاتے ہیں یا شب جمعہ کے اجتماع میں شریک ہوئے کبھی؟

“ میں نے بغیر توقف کے کہا ”امیر صاحب عموماً تو بھاگتا ہی رہتا ہوں کبھی کبھار دھر لیا جاؤں تو چلا جاتا ہوں!“ انہوں نے مجھے تھوڑا سمجھایا اور آنے کی تلقین کی، میں واپس آنے کا بول کر وہاں سے ہمیشہ کی طرح رفوچکر ہو گیا۔ اس وقت مجھے میری وہ حرکت اور میرا وہ جواب خاصا معقول لگا تھا لیکن اب سوچتا ہوں تو واقعی سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میری اس حرکت اور الفاظ کو ٹھیک یا غلط میں سے کس دائرے میں ڈالا جائے، یہ فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل نہیں تو اس قدر آسان بھی نہیں ہے۔

رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو کسی صورت پر نہیں ہو رہا۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے میرے ذہن میں شب جمعہ کے اجتماع میں شامل ہونے کا خیال آیا۔ پہلا ہفتہ اسی کشمکش میں گزر گیا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ ؟ بالآخر دوسرے ہفتے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ شام کو تبلیغی مرکز پہنچنے کے لئے جس شاہی سواری یعنی رکشہ مبارک کا انتخاب کیا اس کے ڈرائیور نے جاتے ہوئے راستے میں یہ گلہ داغ دیا کہ ”میرا ایک قریبی دوست بھی آپ کی طرح تبلیغی مرکز کے چکر کاٹتا ہے لیکن اس کے معاملات ٹھیک نہیں اور گالم گلوچ سے بھی باز نہیں آتا“

میں یہ سوچ کر خاموش رہا کہ اب جس کی اپنی کمر دوہری ہو وہ دوسرے کو کیا کمر سیدھا کرنے کے مشورے دیتا پھرے۔ لیکن ایک بات اس وقت میرے ذہن سے ضرور گزری کہ ہمارے معاشرے میں ایک ستم ظریفی عام ہے کہ ہم جز اور کل کو ملانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ بہرحال شاہی سواری سے اترتے ہوئے میں نے جب کرایہ دیا تو موصوف خاصے اکھڑے اکھڑے معلوم ہوئے، غالباً انہیں ایک چٹخارے دار گفتگو کے نہ ہونے کا دکھ تھا۔

مرکز کے ہال نما بڑے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا ایک جگہ پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی اور ایک بزرگ منبر کی نچلی سیڑھی پر بیٹھے دھیمے لہجے میں ان سے مخاطب تھے۔ میں بھی اس محفل میں جا کر بیٹھ گیا اور ان کی بات سننے لگا۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے اردگرد تقریباً سبھی لوگ سنت کے مطابق داڑھیاں سجائے ہوئے تھے اور گرمی کے موسم میں بھی اکثریت نے اپنے سروں پر عمامہ باندھا ہوا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر شرمندگی بھی ہوئی اور اپنا آپ ایک اضافی چیز کے طور پر محسوس ہوا جیسے ہیرے جواہرات کی کثیر تعداد میں کوئی معمولی پتھر لا کر ان کے برابر میں رکھ دیا گیا ہو۔ بہرحال کچھ دیر میں مجھے اس محفل میں اپنے آس پاس اپنے حلیے سے ملتے جلتے لوگ بھی آ کر بیٹھتے ہوئے نظر آئے جس سے شرمندگی کا احساس کچھ کم ہوا۔

اسی محفل میں بیٹھے ہوئے میری نظر ایک بزرگ پر پڑی۔ گھنی سفید داڑھی کے ساتھ سر پر عمامہ سجائے وہ ایک تکیہ نما کرسی کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور عقیدت سے منبر والے بزرگ کی جانب متوجہ تھے۔ میں نے غور کرنے پر یہ محسوس کیا کہ جب بھی وہ بات کرنے والے بزرگ کے الفاظ میں جنت یا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا کوئی تذکرہ سنتے تو وہ مسکرانے لگتے۔ ان کی اس مسکراہٹ کے پیچھے تخیل کا جو منظر تھا اس کی گہرائی تک پہنچنا یقیناً میرے بس میں نہیں لیکن پھر بھی جنت کے متعلق کوئی بھی بات میرے کانوں میں پڑتی، میری نگاہیں خود بخود اس باریش شخصیت کی مسکراہٹ دیکھنے کے لیے ان کی جانب مڑ جاتیں۔

الفاظ اور نظروں کی اسی آنکھ مچولی میں مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا اور باقی لوگوں کی دیکھا دیکھی میں بھی قبلہ رخ ہو کر ایک صف میں بیٹھ گیا۔ اسی دوران مجھے ایک نئی کشمکش نے آ لیا، میں جس صف میں بیٹھا تھا وہ دوسری صف تھی، اب میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اگر مجھے نماز کے لیے پہلی صف میں کھڑا ہونا پڑا تو اس محفل میں میرا یہ عمل ادب کے دائرہ کار میں درج کیا جائے گا یا نہیں۔ میں اسی سوچ میں غرق تھا کہ اذان بھی ہو گئی!

میں نے سوچوں کے سیلاب میں غرق رہتے ہوئے جیسے اذان سنی تھی ویسے ہی اختتامی دعا پڑھ کر اپنے ناقص ایمان کی روشنی میں جنت کا ٹکٹ بک کروائے بیٹھا تھا کہ اس دوران میں نے ایک شخص کو دیکھا جن کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہوگی، داڑھی میں سفید بال کم و بیش ہی دکھائی دیتے تھے، مجھ سے ذرا فاصلے پر بیٹھے تھے۔ وہ اذان کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے خاصی لمبی دعا میں مصروف العمل تھے، لیکن جو چیز میرے لیے حیران کن تھی وہ یہ کہ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے جنہیں وہ بار بار اپنے رومال سے صاف کر رہے تھے۔

میں نے رمضان المبارک کی طاق راتوں میں بے شمار لوگوں کو مسجد کے کونوں اور تاریک جگہوں پر آنسو بہاتے دیکھا تھا، لیکن یوں بھری محفل میں رب کے سامنے روتا ہوا شخص میں نے پہلی بار دیکھا۔ یقیناً اس شخص کی رب کے ساتھ تعلق کی نوعیت انا پرستی کے اس گرداب سے آزاد تھی جس میں کسی تاریک کونے کی ضرورت باقی رہتی ہے!

نماز کے بعد ہوا خوری کی غرض سے میں نے باہر کی طرف برآمدے کا رخ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہاں ظاہری طور پر ہر شخص کسی دنیاوی غرض کے بغیر اس مجمع میں شامل تھا۔ اکثر لوگ وہاں پر کچھ بہتر سیکھنے اور دین کی خدمت کی غرض سے جمع تھے۔ کچھ لوگوں کے احوال اور حرکات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی شاید میری طرح اپنے اندر کے خلا کے تدارک کے لیے اس محفل میں شامل تھے۔ اگرچہ میں وہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں گیا تھا لیکن مجموعی طور پر مجھے وہ جگہ باہر کی مادہ پرست دنیا سے بہت بہتر اور بھلی معلوم ہوئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments