نیپال شاہی خاندان کی ہلاکت: جب ولی عہد بادشاہ اور ملکہ سمیت شاہی خاندان کے نو افراد کو قتل کر کے خودکشی کر لی

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


 

نیپال کا شاہی خاندان

نیپال کا شاہی خاندان

لگ بھگ 20 برس قبل یعنی یکم جون 2001 کی شام کو نیپال کے بادشاہ کی رہائش گاہ ’نارائن ہیتی محل‘ میں ایک بڑی پارٹی منعقد کی گئی جس کی میزبانی ولی عہد یوراج دیپندر نے کی۔

اس پارٹی کا آغاز نیپال کے مہاراجہ بیریندر نے سنہ 1972 میں تخت و تاج سنبھالنے کے بعد کیا تھا اور ہر نیپالی مہینے کے تیسرے جمعہ کو اس پارٹی کا انعقاد باقاعدگی سے کیا جا رہا تھا۔

اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے سنہ 1972 کے بعد سے ہر ماہ یہ پارٹی منعقد کی جاتی۔ ایک ماہ قبل یعنی مئی 2001 میں یہ پارٹی محل کی ’مہیندر منزل‘ میں منعقد ہوئی تھی جہاں مہاراج بیریندر کی سوتیلی والدہ اور نیپال کے سابق بادشاہ مہیندر کی دوسری اہلیہ رتنا دیوی رہائش پذیر تھیں۔

قمیض اور پتلون پہنے ولی عہد یوراج دیپندر شام پونے سات بجے اپنے اے ڈی سی میجر گجیندر بوہرا کے ساتھ بلیئرڈز روم پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے کچھ دیر تک میجر بوہرا کے ساتھ کچھ بلیئرڈز کے شاٹس کی مشق کی۔

پارٹی میں سب سے پہلے مہیشور کمار سنگھ پہنچے جو کہ مہاراجہ بیریندر کے بہنوئی تھے اور انڈیا کی ایک سابق ریاست سرگوجا کے شہزادے تھے۔ جب وہ بلیئرڈ روم میں داخل ہوئے تو یوراج دیپندرا نے اُن کا استقبال کیا۔ اس نے اُن سے پوچھا کہ آپ کیا پینا پسند کریں گے؟ مہیشور سنگھ نے جواب میں کہا ’فیمس گراؤس۔‘

تھوڑی ہی دیر میں لال ساڑھی میں ملبوس ملکہ ایشوریا اور مہاراجہ بیریندر کی تینوں بہنیں شہزادی شوبھا، شانتی اور شاردا بھی پہنچ گئیں۔ شام تقریبا 7.40 بجے دیپیندر کے کزن پارس اپنی والدہ راجکماری کومل، بہن پریرنا اور اہلیہ ہمانی کے ساتھ وہاں پہنچے۔

مہاراجہ بیریندر کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی کیونکہ وہ ایک میگزین کے مدیر مادھو رامل کو انٹرویو دے رہے تھے۔ اُسی دوران مہاراج کی والدہ اپنی مرسڈیز میں وہاں پہنچیں۔ اُن کے ایک ہاتھ میں اُن کا پرس تھا اور دوسرے ہاتھ میں جھلنے کے لیے پنکھا لٹکا ہوا تھا۔ وہ بلیئرڈ روم سے متصل ایک چھوٹے سے کمرے میں گئیں اور وہاں صوفے پر بیٹھ گئیں۔

کچھ ہی منٹوں کے بعد بلیئرڈ روم کا دروازہ کھلا اور مہاراجہ بیریندر اندر داخل ہوئے۔ وہ کار سے آنے کے بجائے اپنے دفتر سے پیدل ہی وہاں پہنچے تھے۔ ان کے اے ڈی سی سندر پرتاپ رانا انھیں دروازے تک چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ یہ ایک نجی پارٹی تھی اور باہر والوں کو وہاں رُکنے کی اجازت نہیں تھی۔ مہاراجہ سیدھے اپنی والدہ کے پاس گئے۔

شہزادہ ولیعہد دیپیندر

ولی عہد شہزادہ دیپیندر

دیپندر کو ان کے بیڈ روم میں لے جایا گیا

اسی دوران لوگوں نے دیکھا کہ اچانک ولی عہد دیپندر حالتِ نشہ میں اچانک وہاں آن پہنچے۔ کثرت نشہ کی وجہ سے اُن کی زبان بولتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی اور انھیں کھڑے ہونے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ کچھ ہی منٹ بعد وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے۔ اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔

اس سے پہلے ولی عہد دیپندر کو بہت زیادہ شراب پینے کے باوجود کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ وہ نشہ کرنے کے باوجود خود پر کنٹرول رکھنا جانتے تھے۔

اس سے قبل کہ مہاراجہ بیریندر اپنے کمرے سے بلیئرڈ روم تک پہنچتے پارس، راجکمار نراجن اور ڈاکٹر راجیو شاہی نے بھاری بھر کم دیپندر کو اُن کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر اٹھایا اور انھیں اُن کے بیڈ روم میں لے جا کر زمین پر پڑے ایک توشک پر لیٹا دیا۔ انھوں نے کمرے کی لائٹس آف کر دیں تاکہ ولی عہد آرام کر سکیں اور پارٹی میں واپس آ گئے۔

جوناتھن گریگسن اپنی کتاب ’میساکر ایٹ دی پیلس‘ (یعنی محل میں قتلِ عام) میں لکھتے ہیں کہ ’کمرے میں تنہا چھوڑ دیے جانے کے بعد ولی عہد دیپندر باتھ روم گئے اور وہاں الٹیاں کیں۔ انھوں نے پھر فوجی وردی پہنی۔ پاؤں میں کالے موزے، ایک جیکٹ، فوجی بوٹ اور سیاہ چمڑے کے دستانے پہنے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پسندیدہ نائن ایم ایم پستول اور ایم پی فائیو کے سب مشین گن اور کولٹ ایم-16 رائفل اٹھائی اور بلیئرڈ روم کی طرف چل پڑے۔‘

شہزادہ ولیعہد دیپیندر

ولی عہد شہزادہ دیپیندر

دیپندر فوجی لباس میں ملبوس بلیئرڈ روم میں پہنچے

شاہی خاندان کی چند خواتین بلیئرڈ روم کے درمیان میں کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ اچانک اُن کی نگاہ فوجی وردی پہنے ہوئے ولی عہد یوراج دیپندر پر پڑی۔ مہاراجہ بریندر کی کزن کیتکی چیسٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب وہ اندر آئے تو اُن کے دونوں ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ وہ پوری فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ انھوں نے سیاہ عینک پہن رکھی تھی۔ میں نے اپنے ساتھ کھڑی خاتون سے کہا کہ یوراج دیپندر آیا ہے، اپنے ہتھیاروں کا دکھاوا کرنے کے لیے۔‘

اس وقت تک نیپال کے بادشاہ بلیئرڈ روم پہنچ چکے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں کوک کا ایک گلاس تھا، کیوںکہ ڈاکٹروں نے خرابی صحت کی بنا پر اُن کے شراب پینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ دیپندر نے اپنے والد یعنی مہاراجہ کی طرف دیکھا۔ اُس وقت اُن کا چہرہ ہر طرح کے جذبات سے عاری تھا۔ اگلے ہی سیکنڈ انھوں نے دائیں ہاتھ میں موجود اپنی جرمن ساختہ سب مشین گن کا ٹریگر دبا دیا۔ اس کی بہت سی گولیاں چھت پر لگیں اور کچھ پلاسٹر ٹوٹ کر نیچے گر گیا۔

شاہ نیپال نے کہا کے کاردیکو

کچھ سیکنڈ تک تمام مہمان وہیں کھڑے رہے جہاں وہ کھڑے تھے گویا وہ حالت سکتہ میں ولی عہد دیپندر کے اگلے قدم کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دیپندر کوئی کھیل کھیل رہا ہے اور غلطی سے بندوق کی گولیاں چل گئیں۔

جوناتھن گریگسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ابتدا میں نیپال کے بادشاہ بغیر حرکت کیے بلیئرڈ کی ٹیبل کے پاس کھڑے رہے۔ پھر انھوں نے دیپندر کی طرف ایک قدم بڑھایا۔ دیپندر نے ایک لفظ بھی کہے بغیر بادشاہ پر تین گولیاں چلائیں۔ وہ کچھ دیر تو کھڑے رہے مگر پھر گویا سلو موشن میں انھون نے اپنا گلاس میز پر رکھا۔‘

ادھر دیپندر مڑے اور بلیئرڈ روم سے نکل کر باغ کی طرف چلے گئے۔ تین سیکنڈ کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ دیپندر کی گولی مہاراجہ بیریندر کی گردن کے دائیں حصے میں لگی ہے۔

کیتکی چیسٹر نے بتایا کہ ’ہم دیکھ سکتے تھے کہ مہاراجہ صدمے میں تھے۔ وہ تقریبا سلو موشن میں نیچے گرے تھے۔‘

اسی دوران نیپال کے بادشاہ کے داماد کیپٹن راجیو شاہی نے اپنے خاکستری رنگ کے کوٹ کو اُتار کر مہاراجہ کے گلے سے لگا دیا تاکہ بہتا خون رُک سکے۔ بیریندر اس وقت تک بے ہوش نہیں ہوئے تھے۔ اپنی دوسری چوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’راجیو، پیٹ میں بھی۔‘

پھر مہاراج بیریندر نے اپنا سر اٹھانے کی کوشش کی اور نیپالی زبان میں بڑبڑائے ’کے کاردیکو‘ یعنی ’تم نے یہ کیا کیا۔‘ یہ اُن کے آخری الفاظ تھے۔

پھر دیپیندر کمرے میں دوبارہ داخل ہوئے۔ اس وقت تک انھوں نے اٹلی ساختہ اپنی ایک بندوق نیچے گرا دی تھی۔ اب اس کے ہاتھ میں ایم- 16 رائفل تھی۔

شاہی جوڑے کو دیپندر کی اس لڑکی کے ساتھ قربت پسند نہیں تھی

بہر حال دیپندر نے مہاراجہ بیریندر پر گولی کیوں چلائی؟ بی بی سی نے یہی سوال دیپندر کی پھوپھی کیتکی چیسٹر سے پوچھا۔

کیتکی نے جواب دیا ’وہ ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس کی دادی اور ان کی والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔ انھیں اتنے پیسے نہیں مل رہے تھے جتنا وہ چاہتے تھے۔ اس کی وجہ سے وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گئے تھے۔‘

دیپیندر ان سب باتون سے بہت مایوس ہوئے اور ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی تھی۔ یہ خبر لندن تک پہنچ چکی تھی۔ مئی 2001 کے اوائل میں لندن میں ان کے سرپرست لارڈ کیموئز نے مہاراجہ بیریندر کو فیکس کیا اور اس کے بارے میں انھیں متنبہ کیا۔ انھوں نے لکھا کہ یوراج اپنے کردار اور اپنی پسند کے مطابق شادی نہ کرنے کے حق سے بالکل ناخوش تھے۔

مہارانی ایشوریہ کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کے لیے دیپندر کو اپنی پسند کی شادی کرنے سے روکنا بہت مشکل ہو گا۔ اسی لیے انھوں نے دیپندر پر یہ واضح کر دیا کہ اگر اس معاملے میں انھوں نے اپنے والدین کی بات نہیں مانی تو انھیں اپنا شاہی لقب کھو دینا پڑے گا۔

چچا پر گولی چلائی

اسی دوران دیپندر کے چچا دھیریندر نے مداخلت کرنے کی کوشش کی۔ کیتکی چیسٹر بتاتی ہیں ’اچانک مہاراج بیریندر کے چھوٹے بھائی دھیریندر شاہ نے دیپندر کو روکتے ہوئے کہا، بابا، اب بہت ہو چکا۔ اپنی بندوق مجھے دے دو۔‘ دیپندر نے بہت قریب سے اُن پر بھی فائر کر دیا اور وہ اُڑتے ہوئے دور جا گرے۔ اس کے بعد دیپندر پوری طرح سے اپنا کنٹرول کھو بیٹھے اور وہ ہر کسی پر گولی چلانے لگے۔ راجکمار پارس نے چیخ کر کہا کہ سب صوفے کے پیچھے چھپ جائیں۔‘

کیتکی کو بھی گولی لگی۔ دیپندر کو لگا کہ کیتکی بھی مر گئی ہے کیونکہ ان کے سر اور بال بھی خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ ایک گولی مہاراجہ گیانیندر کی اہلیہ اور پارس کی والدہ کو لگی اور اس کے پھیپھڑوں کے پار نکل گئی۔ دیپندر نے اپنے والد پر پھر گولی چلائی۔ اس بار گولی مہاراجہ بیریندر کے سر میں سوراخ بناتی ہوئی باہر نکل گئی۔ خون سے لتھڑی ان کی ٹوپی اور عینک نیچے گر گئے۔ وہ اوندھے منھ پڑے تھے۔

کیتکی ابھی بھی وہ منظر نہیں بھولیں جب دیپندر نے آ کر اپنے والد کو پیروں سے ٹھوکر ماری۔

’وہ منظر ہمیشہ کے لیے میری آنکھوں میں ثبت ہو گئے جب دیپندر نے اپنے تقریباً مردہ والد کے جسم کو پیروں سے ٹھوکر ماری، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ ہر ثقافت میں مردے کا احترام ہوتا ہے۔ گولی مارنے سے زیادہ ایک ہندو کے لیے اپنے باپ کی لاش کو ٹھوکر مارنے کے منظر نے مجھے دھچکہ پہنچایا۔‘

نیپال

اے ڈی سی کے کردار پر سوال؟

نارائن ہیتی محل کے تریھوون بھون میں شاہ نیپال اور شاہی خاندان کے دوسرے 12 افراد یا تو ہلاک یا زخمی ہو گئے تھے اور فائرنگ تین سے چار منٹ تک جاری رہی۔

نیپال کی اس مشکل ترین گھڑی میں فائرنگ کی آوازیں سننے کے باوجود کریک کمانڈوز کی تربیت لینے والے اے ڈی سی میں سے کسی نے بھی موقع پر پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھے رہے۔ ان کے کمرے بلیئرڈ روم سے صرف 150 گز دور تھے۔

اگر وہ کوشش کرتے تو دس سیکنڈ میں بلیئرڈ روم تک پہنچ سکتے تھے۔ بعد میں انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر چاروں اے ڈی سیز کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔

مہارانی ایشوریہ پر پیچھے سے گولی چلائی

ادھر دیپندر پھر سے بلیئرڈ روم سے نکل کر باغ میں چلا گیا۔ ملکہ ایشوریہ ان کے پیچھے بھاگیں۔ راجکمار نراجن بھی ان کے پیچھے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دو مزید گولیوں کی آواز آئی۔

نیلیش مسرا اپنی کتاب ’اینڈ آف دی لائن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کچن سے تعلق رکھنے والے ایک سٹاف سانتا کمار کھڑکا نے ملکہ ایشوریہ کی زندگی کے آخری لمحات کا مشاہدہ کیا تھا۔ ملکہ سیڑھیاں چڑھ کر دیپندر کے بیڈ روم کی طرف جانے کی کوشش کی۔ وہ نیپالی زبان میں زور سے چیخ رہی تھیں۔ ابھی وہ سات سیڑھیاں چڑھی ہوں گی کہ ایک گولی ان کے سر کے پار نکل گئی۔ وہ سنگ مرمر کے زینوں پر گر گئیں۔ انھیں پیچھے سے گولی ماری گئی تھی اور وہ دیپندر کا آخری شکار تھیں۔‘

انھیں شاید غلط فہمی تھی کہ ان کا اپنا بیٹا اُن پر گولی نہیں چلائے گا، لیکن اُن کا اندازہ غلط نکلا۔

اس کے بعد دیپندر باغ میں ایک چھوٹے سے تالاب پر بنے پُل پر گئے۔ وہاں وہ ایک یا دو بار پاگل پن میں چیخے اور پھر آخری گولی کی آواز سنائی دی۔ وہ پیٹھ کے بل گر پڑے۔ ایک گولی ان کے سر کے پار اُتر گئی تھی۔ ان کے بائیں کان کے پیچھے گولی کا ایک سینٹی میٹر گول نشان تھا۔ دائیں کان کے اوپر ان کے سر میں سے گولی کے نکلنے کا نشان تھا۔ دونوں چوٹوں سے خون نکل رہا تھا لیکن دیپندر ابھی زندہ تھے۔

مہاراجہ کو جیگوار کار سے ہسپتال لے جایا گيا

دوسری طرف مہاراجہ بیریندر بہت ساری گولیاں لگنے کے باوجود زندہ تھے۔ جب ان کے اے ڈی سی نے ہسپتال لے جانے کے لیے جیگوار کار کی پچھلی سیٹ پر انھیں لیٹایا تو ان کے دونوں کانوں سے خون بہہ رہا تھا۔ ان کے سارے کپڑے خون آلود ہو چکے تھے۔ ان کی نبض تقریباً ڈوب چکی تھی لیکن ان کے ہاتھ میں ہلکی سی جنبش تھی۔ انھیں کم سے کم آٹھ گولیاں لگیں تھیں۔

سارا کھٹمنڈو سڑک پر نکل آیا

شاہی خاندان کے غم میں کھٹمنڈو کے لگ بھگ تمام شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے

ان کے پیچھے والی ٹویوٹا گاڑی میں ملکہ ایشوریا کی لاش تھی۔ جب یہ دونوں کاریں ہسپتال پہنچیں تو رات کے سوا نو بجے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں نیپال کے بہترین نیورو سرجن، پلاسٹک سرجن اور امراض قلب کے ماہرین ہسپتال پہنچ چکے تھے۔

کار سے اتارتے ہی رانی کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ دریں اثنا ایک سبز ٹویوٹا لینڈ کروزر بھی ہسپتال کی طرف بڑھ رہی تھی جس کی اگلی سیٹ پر راجکمار پارس بیٹھے ہوئے تھے۔ پچھلی سیٹ پر دیپیندر کے اے ڈی سی گجیندر بوہرا اور راجو کارکی نے یوراج دیپیندر اور راجکمار نراجن کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سی صورتحال تھی۔ قاتل اور اس کا شکار ایک ہی کار میں لے جائے جا رہے تھے۔

ٹراما سینٹر میں بستر کم پڑ گئے

یہ لوگ ساڑھے نو بجے ہسپتال پہنچے۔ وہاں پہنچنے کے چند ہی منٹوں میں راجکمار نراجن کو مردہ قرار دے دیا گیا۔

مہارانی ایشوریہ کا جسد خاکی

مہارانی ایشوریہ کی میت

جوناتھن گریگسن لکھتے ہیں کہ ’اسی بیچ نیپال کے سرکردہ نیورو سرجن ڈاکٹر اپیندر دیوکوٹا پہنچے جہاں ایک فوجی ڈاکٹر خون میں لتھڑے قومی لباس میں ملبوس ایک شخص کا علاج کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کے گلے میں ایک لاکٹ لٹکا ہوا تھا جس میں سائیں بابا کی تصویر تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے وہ مہاراجہ بیریندر سے مل چکے تھے لیکن وہ اس وقت زخمی بیریندر کو نہیں پہچان سکے۔‘

یوراج دیپیندر نے اس دن اپنے اہلخانہ کے اتنے افراد کو مار ڈالا تھا کہ ہسپتال کے ٹراما ہال میں موجود تمام بیڈز بھر گئے تھے۔

جب دیپندر کو سٹریچر پر اندر لایا گیا تو اس کے لیے کوئی بستر خالی نہیں بچا تھا۔ اسے زمین پر بچھے ایک گدے پر ڈال دیا گیا۔ دیپیندر کے سر کے دونوں طرف سے خون نکل رہا تھا۔ سانس لینے کے دوران وہ بہت شور مچا رہا تھا۔ لیکن اس کا بلڈ پریشر 100/60 تھا جو بہت تشویش کا باعث نہیں تھا۔ لیکن ان کی آنکھوں کی پتلیون پر تیز روشنی کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ کچھ ہی منٹوں میں دیپندر کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔

شہزادہ ولیعہد دیپیندر

شہزادہ ولی عہد دیپیندر

دیپیندر کو بادشاہ بنایا گیا تھا

اگلے دن شائع ہونے والے اخباروں میں اس چونکا دینے والے واقعے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیکن اس خبر کو دبانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔

اس واقعے کو کور کرنے کے لیے میں دو جون 2001 کو صبح 10 بجے دہلی سے کھٹمنڈو پہنچ چکا تھا۔ لیکن اس وقت تک نیپال کے عوام کو اس قتل عام کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی تھی اگرچہ صبح سے ہی نیپال ریڈیو پر غم کی علامت والی موسیقی ضرور بجائی جا رہی تھی۔

بہرحال قتل عام کے 14 گھنٹے بعد 11 بجے پروگرام کو بند کر کے اعلان کیا گيا کہ مہاراجہ بیریندر بیر بکرم شاہ گذشتہ رات سوا نو بجے فوت ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ان کے بڑے بیٹے شہزادہ ولی عہد دیپیندر کو نیا بادشاہ نامزد کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ چونکہ ولی عہد ابھی کام کرنے کے لائق نہیں ہیں اس لیے ان کی جگہ راجکمار گیانیندر ریجنٹ ذمہ داریاں نبھائیں گے۔

تاہم نیپال کے باشندوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ مہاراجہ بیریندر کی موت کیسے ہوئی۔

جنازے کے جلوس میں لاکھوں افراد کی شرکت

شاہی خاندان کے جنازے کے جلوس میں لاکھوں افراد کی شرکت

جنازے کے جلوس میں لاکھوں افراد کی شرکت

دو جون سنہ 2001 کو شام چار بجے شاہی خاندان کے جنازے کا جلوس نکلا تو سارا کا سارا کھٹمنڈو شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ مہاراجہ کے اعزاز میں ملک کے ہزاروں افراد نے اپنے سر منڈوائے۔

حجاموں نے اس کام کے لیے کوئی پیسے نہیں لیے۔ شام کی دھندلکے میں شاہی خاندان کے ایک فرد دیپک بکرم نے آریہ گھاٹ پر تمام لاشوں کو نذر آتش کیا۔

یوراج دیپندرا کو کبھی ہوش نہیں آیا۔ انھوں نے چار جون 2001 کی صبح 3.40 بجے اپنی آخری سانس لی۔ تقریبا 54 گھنٹوں تک نیپال میں ایک ایسے شخص کی حکومت رہی جو بے ہوش تھا اور اس پر اپنے والد کو مارنے کا الزام تھا۔

اُن کی موت کے بعد نیپال کے بادشاہ بیریندر کے چھوٹے بھائی گیانیند تین دن کے اندر نیپال کے تیسرے بادشاہ بنے۔ لیکن نیپال کی بادشاہت اس دھچکے سے کبھی نہیں نکل سکی اور سنہ 2008 میں نیپال نے بادشاہت ترک کر کے نظام جمہوریہ کا راستہ چُن لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp