بالی وڈ ڈائری: پرینیتی چوپڑہ پدرشاہی سوچ کے خلاف مصروف عمل اور نورا فتحی کا مداحوں کو انٹرٹین کرنے کا عہد

نصرت جہاں - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن


بالی وڈ اداکارہ نورا فتحی کووڈ کے اس مشکل دور میں لوگوں میں مثبت خیال اور رجحان پیدا کرنے کا کام کر رہی ہیں۔

نورا انسٹا پر اپنی ڈانس پرفارمنسز اور ورک آؤٹ کے ویڈیوز شیئر کر کے اپنے فالوورز اور مداحوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں رواں ہفتے نورا نے انسٹا پر اپنی ایک ویڈیو اپلوڈ کی ہے۔

اس ویڈیو میں انھوں نے اس مشکل وقت میں لوگوں کو ذہنی دباؤ سے بچنے کی ٹپس دیتے ہوئے لکھا ’یہ بُرا وقت ہے جہاں خوف، بے یقینی ،بے چینی اور اداسی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیں خاص طور پر ان حالات میں جہاں ہم تنہا ہوں۔ جب تک ممکن ہو گا میں آپ لوگوں کو اینٹرٹین کرتی رہوں گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

’لوگ میری جسامت کا مذاق اڑاتے تھے اور مجھے لڑکا پکارتے تھے‘

’دھوپ میں کھیلنے سے رنگت سانولی ہو گئی تو تم سے شادی کون کرے گا‘

’کرداروں کی آفر احسان کے طور پر دی گئی جو قبول نہیں تھا‘

اداکارہ پرینیتی چوپڑہ کا کہنا ہے کہ ’جب میں اپنے گھر میں تبدیلیاں کر رہی تھی تو کانٹریکٹر مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کرتے تھے کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے کہ کیا گھر میں کوئی اور ہے جس سے بات کر لیں، میں کہتی تھی نہیں یہ گھر میرا ہے اور میں نے خریدا ہے تو اس کے لیے ٹائلز بھی میں ہی پسند کروں گی، آپ کو جو بات کرنی ہے مجھ سے کریں۔

یہ کہنا ہے ادکارہ پرینیتی چوپڑہ کا، جن کی فلم ’سندیپ اور پنکی فرار‘ میں ان کی اداکاری کی کافی تعریف ہو رہی ہے۔ پرینیتی کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ پدر شاہی کے اتنے عادی ہیں کہ انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا جبکہ انڈیا میں عورتوں کو ہر روز اس کا سامنا رہتا ہے۔

ایک فلم ویب سائٹ سے بات چیت میں پرینیتی کا کہنا تھا کہ اس فلم اور ان کی زندگی میں کافی یکسانیت ہے۔

فلم کے ایک منظر کا ذکر کرتے ہوئے، جس میں کھانے کے دوران عورتیں گھر کے مردوں کو کھانا کھلاتی ہیں لیکن خود ڈائنگ ٹیبل پر نہیں بیٹھتیں۔ پرینیتی کا کہنا تھا کہ جب میں اس سین کو شوٹ کروا رہی تھی تو مجھے اپنے اس چھوٹے سے شہر کی یاد آئی جہاں میں پلی بڑھی تھی۔

وہاں عورتیں مردوں سے پہلے کھانا نہیں کھاتی تھیں اور جب تک مرد ڈائنگ ٹیبل پر ہوتے وہ کھانا کھانے نہیں بیٹھتی تھیں۔ پرینیتی کا کہنا تھا کہ ’میری ماں بھی ایسا ہی کرتی تھیں حالانکہ میرے پاپا نے انھیں ایسا کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا لیکن گھر میں یہ ایک طرح کی طے شدہ روایت تھی اور میری ماں کو بھی اس کی عادت تھی۔‘

پرینیتی کہتی ہیں کہ ہم نے اس فلم میں ایسی ہی پدر شاہی ذہینیت کو دکھانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی کہ انڈیا میں اس ذہینیت میں کس حد تک تبدیلی آ سکتی ہے۔

فلموں میں ہیرو بن کر دس دس غنڈوں کو اکیلے دھو ڈالنا، ہیروئن کو متاثر کرنے کے لیے بلند عمارت سے چھلانگ لگانا یا پھر بائیک پر کرتب دکھانا کسی بھی ہیرو کے لیے معمول کی بات ہے۔

ظاہر ہے وہاں دھماکے بھی نقلی ہوتے ہیں اور پولیس بھی لیکن اصل زندگی میں یہ ہیرو گیری عام آدمی کیا کسی بھی فلمی ہیرو پر بھی بھاری پڑ سکتی ہے کیونکہ عام زندگی میں قانون بھی اصلی ہوتا ہے اور پولیس بھی اور ٹائیگر شروف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو بقول ممبئی پولیس کوڈ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے پکڑے گئے اور نتیجے کے طور پر ان کے اور ان کی دوست دیشا پاٹنی کے خلاف کیس درج کر لیا گیا۔

ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر ٹرول بھی ہوئے۔ ٹائیگر کی ممی عائشہ شروف اس واقعہ سے کافی ناراض ہوئیں اور جواب میں انھوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کی جس میں لکھا کہ ٹائیگر اور دیشا نے کوئی قانون نہیں توڑا وہ صرف گھر واپس آ رہے تھے۔

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’جب ان کا بیٹا بے گھر لوگوں میں مفت کھانا بانٹ رہا تھا تو کسی نے اس کے بارے میں نہیں لکھا اس لیے کسی کے بارے میں جانے بغیر کوئی تبصرہ نہ کیا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp