سیاسی میدان میں نظر نہ آتی ”حرکت“


اس کالم کے مستقل قارئین میں سے چند نے ذاتی پیغامات کے ذریعے گلہ کیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے میں نے ملکی سیاست کے بارے میں لکھنا چھوڑ رکھا ہے۔ میری لاتعلقی کو انہوں نے دانستہ طور پر اپنائی مصلحت آمیز خاموشی تصور کیا۔ یہ فرض کرتے ہوئے کئی مہربانوں نے ”شیر بن شیر“ والے مشورے بھی دیے۔

”شیر“ ہونے کے میں ہرگز قابل نہیں رہا۔ اپنے دل میں آئی بات کو لیکن اب بھی کسی نہ کسی طور پر بیان کرنے کے گماں میں مبتلا ہوں۔ ”سیاست“ اگر ٹھوس انداز میں ہو رہی ہوتی تو اس کے بارے میں خامہ فرسائی سے گریز نہ کرتا۔ اپنی عمر کی تین دہائیاں سیاسی امور کی بابت رپورٹنگ میں صرف کرنے کے بعد لیکن یہ دعویٰ کرنے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ان دنوں ”سیاست“ نہیں ہو رہی۔ اقتدار کے کھیل میں شریک جو کھلاڑی ہیں فی الحال میدان سے باہر بیٹھے مستقبل کے بارے میں اندازے لگا رہے ہیں۔ امکانات کی تلاش ہے۔ ”کچے“ یعنی گیلی زمین پر پاؤں دھرنے کو کوئی تیار نہیں۔ خود کو کسی امکانی گیم کے لئے ”قابل قبول“ ’بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ میں ان دنوں رپورٹر نہیں رہا۔ نام نہاد ”مبصر“ ہوں۔ سیاسی میدان میں ”کلیم اللہ۔ سمیع اللہ“ مل کر اگر گول کی جانب بڑھ رہے ہوں تب ہی تبصرہ آرائی کی گنجائش میسر ہوتی ہے۔ ہمارے سیاست دان اس تناظر میں طویل رخصت پر گئے نظر آرہے ہیں۔

بہت دنوں کے بعد بدھ کی شام مجھے دوستوں کی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ وہاں موجود متحرک و باخبر صحافیوں اور سیاستدانوں سے گفتگو ہوئی تو جی مزید اکتا گیا۔ یاد رہے کہ آج سے فقط تین ماہ قبل سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر انتخاب ہوئے تھے۔ اسلام آباد سے ان کے دوران طویل گوشہ نشینی کے بعد متحرک ہوئے یوسف رضا گیلانی نے عمران حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ کو سینٹ کی ایک نشست پر شکست دے کر تھرتھلی مچا دی۔ وزیر اعظم صاحب کو اس کے منفی اثرات کے تدارک کے لئے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کو دوبارہ ثابت کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

پارلیمانی رپورٹروں کی اکثریت کا گماں تھا کہ یوسف رضا گیلانی ایک عام رکن ہونے تک محدود نہیں رہیں گے۔ صادق سنجرانی کے مقابلے میں چیئرمین سینٹ منتخب ہو کر ہمیں مزید حیران کردیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں سے ”حیرانی“ کی توقع باندھتے ہوئے ہم سادہ لوح ”منشیوں“ نے یہ حقیقت فراموش کر دی کہ ٹی وی سکرینوں پر عمران حکومت کے خلاف ”آر یا پار“ والی معرکہ آرائی کو بے چین نظر آنے والوں نے اس حکومت کے ساتھ ”برد باری“ کہلاتا ”مک مکا“ بھی کر لیا ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ پرویز رشید کو سینٹ میں واپس لانا چاہ رہی تھی۔ موصوف نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو مبینہ طور پر پنجاب ہاؤس کے ”نادہندہ“ شمار ہوئے۔ انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کے اہل نہ رہے۔ وہ نا اہل ہو گئے تو حکمران اتحاد اور مسلم لیگ (نون) نے سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں کو گفتگو کے ذریعے آپس میں بانٹ لیا۔ ہر فریق کو اپنے جثے کے مطابق حصہ مل گیا تو آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں سینٹ کے انتخاب کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔

اس بردبار مک مکا کے باوجود چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران رونق لگانے کی کوشش ہوئی۔ نون لیگ کے مصدق ملک اور پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر ہمہ وقت ”کچھ کرنے“ کو بے چین رہتے ہیں۔ ان کی ”پھرتیاں“ عموماً ان کی قیادت کو پسند نہیں آتیں۔ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے روز بھی ان دونوں نے بے چین کھوجیوں کی طرح ”سب پہ بالادست“ تصور ہوتے ایوان میں خفیہ کیمروں کو ڈھونڈ نکالا۔ نظر بظاہر انہیں نجانے کس نے وہاں اس انداز میں نصب کیا تھا کہ بآسانی پتہ لگایا جاسکے کہ کس سینیٹر نے چیئرمین سینٹ کے کس امیدوار کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ خفیہ رائے شماری کے حق کی اس سے زیادہ تذلیل ہو نہیں سکتی تھی۔ مجھ جیسے سادہ لوح افراد نے فرض کر لیا کہ مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے تجسس کی بدولت ہمارے ہاں واٹر گیٹ جیسا سکینڈل نمودار ہو گیا ہے۔ سابق امریکی صدر نکسن کو اس کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ”سینئر“ ساتھیوں نے مگر مزید شوروغوغا کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ نئے اراکین سینٹ اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں۔ اس کے بعد چیئرمین کا انتخاب بھی ہو جائے۔ کیمروں کی تنصیب والے سکینڈل کے تعاقب کو اس کے بعد کافی وقت میسر ہو گا۔

چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہوا تو یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ڈالے سات ووٹ مسترد ہو گئے۔ اپوزیشن نے ”دھاندلی“ کا الزام لگایا۔ چند ہی دنوں بعد مگر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو نظرانداز کرتے ہوئے سینٹ میں قائد حزب اختلاف بننے کو رضا مند ہو گئے۔ ان کی رضا مندی نے پی ڈی ایم نامی اتحاد کے کفن دفن کا بندوبست بھی کر دیا۔ ”خفیہ کیمروں“ کی دریافت ہمارا واٹر گیٹ نہ بن پائی۔

نظر بظاہر سینٹ میں حکومت اور پیپلز پارٹی کے مابین اب کسی نہ کسی نوع کا پارلیمان کو ”باوقار“ رکھنے کے نام پر سمجھوتہ بھی ہو چکا ہے۔ محض نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے سینیٹر ہی ”اڑی“ دکھانے کو بضد نظر آتے ہیں۔ خود کو ”حقیقی اپوزیشن“ ثابت کرنے کو بے چین ہیں۔ ان کی ”بے چینی“ بھی لیکن محض ”شوشا“ ہے۔ سینٹ کے اجلاس کے دوران ہرگز نظر نہیں آتی۔

ہمیں ٹی وی سکرینوں پر سینٹ کی جو کارروائی نظر آتی ہے اس سے بالا ایک اہم ترین معاملہ بھی ہے۔ ایوان بالا میں بھی قومی اسمبلی کی طرح وزارتوں پر نگاہ رکھنے والی قائمہ کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا چیئرمین ہونا کسی سینیٹر کو مزید ”باوقار“ بنا دیتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سینٹ کی خالی نشستوں کے لئے ہوئے انتخاب کی طرح اس معاملے پر بھی ان دنوں ”بردبار“ گفتگو کے ذریعے جثے کے مطابق خاموشی سے حصہ وصول کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے سینیٹر مشاہد حسین صاحب دفاع جیسے اہم محکمہ سے متعلق کمیٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کے حصے میں وزارت خارجہ کی نگہبان کمیٹی آئی ہے۔

مشاہد صاحب نے بطور ایڈیٹر مجھے ”مشہور صحافی“ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں اس تناظر میں مرتے دم تک ان کا مشکور رہوں گا۔ شیری رحمن میری بے تکلف دوست ہیں۔ میری پریشانی کو اپنی ذاتی پریشانی تصور کرتی ہیں۔ خالصتاً میرٹ اور تجربے کی بنیاد پر بھی ان دونوں کو دفاع اور خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹیوں کی سربراہی کا حق حاصل ہے۔ ان دونوں سے گہرے ذاتی رشتوں کے باوجود میں اس سوال کی بابت غافل نہیں رہ سکتا کہ عمران حکومت نے دفاع اور خارجہ امور کی کمیٹیاں اپوزیشن کے حوالے کرتے ہوئے بدلے میں کیا حاصل کیا ہے۔

بدھ کی رات تک میسر اطلاعات کے مطابق حکومت بضد تھی کہ انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کی قیادت ان کے نامزد کردہ سینیٹر کو ملے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر اس کمیٹی کے سربراہ رہے۔ اپنے اختیار کو انہوں نے نہایت لگن اور مہارت سے استعمال کیا۔ سرمد کھوسٹ کی بنائی فلم کو اس کمیٹی نے نمائش کی اجازت دلوانے کی بھرپور کوشش کی۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اٹھے کئی ”حساس“ معاملات بھی یہاں زیر غور آئے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ ”مقتدر“ کہلاتے اداروں کے کئی سینئر عہدے دار بھی کشادہ دلی سے اس کمیٹی کے اجلاسوں میں اپنا موقف بیان کرنے کو آمادہ رہے۔ سینٹ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی یوں انتہائی اہم نظر آنے لگی۔ اس کی ساکھ کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔

میں ہرگز اس امر کا متمنی نہیں کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر ہی بدستور اس کمیٹی کے سربراہ رہیں۔ میری بنیادی خواہش اس کمیٹی کی ساکھ کو توانا تر بنانا ہے اور اسے یقینی بنانے کے لئے لازمی ہے کہ مذکورہ کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن ہی کے نامزد کردہ کسی رکن کے پاس رہے۔ اس پہلو کی جانب پیپلز پارٹی تھوڑی توجہ مبذول کرتی نظر آ رہی ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے افراد تاہم کماحقہ دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ ”جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا“ جیسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

سینٹ کی اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے ”بردبار“ بندر بانٹ جاری ہو تو مجھ جیسا گوشہ نشین ”مبصر“ سیاست کو کیسے ”متحرک“ دکھائے۔ منیر نیازی کو ”حرکت تیز تر“ ہوتے ہوئے بھی ”سفر آہستہ آہستہ“ کا دکھ لاحق رہا۔ مجھے تو سیاسی میدان میں ”حرکت“ ہی نظر نہیں آ رہی۔ ”حرکت“ کو نظر آنا چاہیے۔ اسے گھر بیٹھے یہ کالم لکھتے ہوئے گھڑنے کی بددیانتی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments