خضدار میں ہندو تاجر اشوک کمار کا قتل: ’اگر تحفظ نہیں دے سکتے تو بتائیں ہم کہیں اور منتقل ہو کر گمنامی کی زندگی گزار لیں گے‘

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


'اشوک کے قتل کے باعث ہمارا پورا خاندان ایک المناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اُس کے بوڑھے والدین کے لیے تو یہ صدمہ برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جوان بیٹے کی ناگہانی موت کی خبر سُن کر اشوک کی والدہ پر غشی کا عالم طاری ہے۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے واشومل کا جن کے 32 سالہ بھانجے اشوک کمار کو وڈھ کے مرکزی بازار میں 31 مئی کو نامعلوم افراد نے اُن کی دکان کے اندر فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ وہ چار بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اشوک کمار کی ہلاکت سے نہ صرف اُن کے بوڑھے والدین ایک مضبوط سہارے سے محروم ہو گئے بلکہ علاقے کے عوام ایک ایسے رضاکار سے بھی محروم ہوئے ہیں جو حادثات اور ایمرجنسی میں ابتدائی طبی امداد کی فراہمی میں طبی عملے کی مدد کرتا تھا۔

اس واقعے کے خلاف ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک انھیں تحفظ کی ضمانت نہیں دی جاتی اس وقت تک وہ اپنا کاروبار نہیں کھولیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان: خضدار میں ایک ہندو تاجر کے قتل کے بعد احتجاج

عامر لیاقت کی ہندو برادری سے معافی، ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی

وہ ہندو جنھیں پاکستانی مسلمان سمجھا گیا

واشو مل کا کہنا ہے کہ ’ہم نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ اگر وہ ہمیں تحفظ نہیں دے سکتے تو ہمیں بتا دیا جائے۔ پھر ہم پاکستان کے کسی اور علاقے میں منتقل ہو کر گمنامی کی زندگی گزار لیں گے۔‘

اشوک کمار کون تھے؟

واشو مل کے مطابق اشوک کی ہلاکت کے خبر سننے کے بعد انتظامیہ اور ایف سی کے اہلکار ان کے گھر آئے تھے اور انھوں نے وہاں پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کیا۔

’جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو انتظامیہ کے لوگ چار پانچ روز آ کر ایسی تیزی دکھاتے ہیں جیسے وہ مردے کو زندہ کریں گے لیکن اس کے بعد ایسی خاموشی اختیار کی جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں لوگ ہندو برادری سمیت دیگر اقلیتوں کو اپنی عزت سمجھتے تھے اور وہ اپنے لوگوں سے زیادہ اس برادری کا خیال رکھتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں معلوم نہیں جن کو لوگ اپنا ننگ و ناموس سمجھتے تھے ان پر اب حملے کیوں ہو رہے ہیں۔‘

اشوک کمار کی ہلاکت کے خلاف احتجاج

اشوک کمار کی ہلاکت کے پہلے روز نہ صرف کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بند کیا گیا تھا بلکہ وڈھ شہر میں بھی مسلمان تاجروں نے اظہار یکجہتی کے لیے اپنا کاروبار بند کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تین دن تک مسلمانوں نے بھی ان کے ساتھ کاروبار کو بند رکھا لیکن ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا کاروبار اس وقت تک بند رکھیں گے جب تک ان کو تحفظ نہیں دیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایف سی حکام سے کہا ہے کہ ہمیں تحفظ کی ضمانت دی جائے یا یہ بتایا جائے کہ وہ تحفظ نہیں دے سکتے تو ہم پاکستان کے کسی اور علاقے میں نقل مکانی کر کے گمنامی کی زندگی گزاریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد انتظامیہ کے لوگ آئے اور ہمیں تسلیاں دیں لیکن صرف تسلیوں سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ تحفظ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

احتجاج

گذشتہ سال بھی ایک ہندو تاجر کے قتل کے خلاف ہندو برادری نے احتجاج کیا تھا (فائل فوٹو)

اشوک کمار کی ہلاکت کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

اشوک کمار کو وڈھ کے مرکزی بازار میں 31 مئی کو نامعلوم افراد نے اُن کی دکان کے اندر فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ واشو مل کے مطابق حملہ آور کے پاس دو پستول تھے اور حملہ آور نے پہلے ایک پستول سے گولی چلائی پھر اس میں گولی پھنس جانے کے باعث دوسرے پستول سے فائرنگ کی۔

وڈھ پولیس کے ایس ایچ او عبد الرحیم نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج کے بعد مختلف پہلوﺅں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک ایک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انھوں نے اس بات کی تصدیق کی فائرنگ میں استعمال ہونے والا ایک پستول پولیس کی تحویل میں ہے لیکن اس کے نمبر وغیرہ کو مٹا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ پستول کس کی ملکیت ہے۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ اس سے قبل ہلاک ہونے والے ہندو تاجر نانک رام کے قاتل پکڑے گئے تھے اور انھوں نے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔ ’لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ گواہی دینے کے لیے نہیں آتے اس لیے ماضی میں مارے جانے والے ہندو تاجر کے قاتل بری ہو گئے۔‘

ضلع خضدار کے ایس ایس پی امجد نے فون پر بتایا کہ تاحال اشوک کمار کے قتل کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے تاہم کوئی خاطرخواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کون لوگ ملوث ہیں اس بارے میں کچھ بتانا قبل ازوقت ہے۔

تاجر برادری کا کیا کہنا ہے؟

انجمن تاجران خضدار کے صدر حافظ حمید اللہ مینگل کا کہنا ہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا واسطہ صرف کاروبار اور تجارت سے ہوتا ہے۔

’ان کو نشانہ بنانے کی دو وجوہات ہی ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ ان کا تعلق ہندو برادری سے ہے اور دوسرا یہ کوئی بھتے وغیرہ کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘

تاجر رہنما نے بتایا کہ جہاں تک خضدار شہر کی بات ہے تو سات آٹھ سال قبل یہاں امن و امان کا مسئلہ سنگین تھا جس میں مسلمان اور ہندو تاجر دونوں کو مسائل کا سامنا تھا تاہم اب پہلے کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’چند سال پہلے ہندو تاجروں کو بھتے کے حوالے سے مسائل تھے لیکن اب ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق اب ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو اگر کوئی مسئلہ ہے تو خضدار کے علاقے وڈھ میں ہے۔

خضدار میں ہندو پنچایت کا ان واقعات کے بارے میں کیا کہنا ہے؟

خضدار میں ہندو پنچایت کے سربراہ جواہری لال نے بتایا کہ جہاں تک خضدار شہر کی بات ہے تو یہاں ان کے برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں رہا ہے اور وہ آزادانہ طور پر خضدار شہر میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ وڈھ کے علاقے میں ہے جہاں حالیہ دنوں میں دو ہندو تاجر مارے گئے ہیں۔‘

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہیں۔ سنہ 2002 میں بلوچستان میں حالات کی خرابی سے پہلے وہ زیادہ تر علاقوں میں پُرامن زندگی گزار رہے تھے۔

لیکن 2002 کے بعد اُن کے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ایسے واقعات سب سے زیادہ 2007 کے بعد پیش آنے لگے۔ یہ واقعات زیادہ تر کوئٹہ، قلات اور نصیر آباد کے علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں۔

ان واقعات کے دوران بعض ہندو تاجروں کی ہلاکت کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp