مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ پر غداری کا الزام: ایک حقیقت یا افسانہ؟


وہ شخصیات تاریخ کی مظلوم ترین شخصیات ہوتی ہیں جن کے بارے میں کوئی غلط بات منسوب کر کے اس کی اتنی تشہیر کی جائے کہ وہ قبول عام کا درجہ حاصل کر لے۔

اگرچہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی عمومی وجہ شہرت یہی ہے کہ وہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی ہمشیرہ محترمہ ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کے دوران قائداعظمؒ کا دل و جان سے بھرپور ساتھ دیا مگر انہوں نے تاریخ برصغیر اور پھر پاکستان میں اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ اور ان کی وفات حسرت آیات کے بعد خود بھی ایک بھرپور سیاسی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی بھابھی محترمہ رتی بائی (مریم جناح) کی ناگہانی وفات کی وجہ سے اپنے عظیم بھائی کو پہنچنے والے شدید صدمے کے دوران انہیں بھرپور سنبھالا دیا جس کے بغیر شاید وہ تاریخ کا دھارا نہ موڑ سکتے اور دنیا کے نقشے پر وہ اسلامی مملکت منصۂ شہود پر نہ ابھرتی جس کا 14 اگست 1947 ء سے پہلے وجود بھی نہ تھا۔

انگریز سامراج، کانگرس، نیشنلسٹ مسلم جماعتوں اور سکھ ماسٹر تارا سنگھ کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان کے قیام کا معجزہ رونما ہوا۔ بدقسمتی سے قائداعظمؒ جلد ہی جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ شہید ملت خان لیاقت علی خانؒ کو ایک بدبخت نے لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کر دیا۔

ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے یہ دھچکے قابل برداشت نہ تھے۔ قوم پے در پے دو عظیم صدمات سے دوچار ہوئی۔ سیاسی استحکام کی جگہ نظام سیاست میں جوڑ توڑ اور محلاتی سازشیں پروان چڑھنے لگیں۔ پس چہ باید کرد ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا۔ بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ ہوا۔ صدارتی انتخابات کا اعلان ہوا تو حزب اختلاف میں شامل قیام پاکستان کے بدترین مخالفین نے موقع کو غنیمت جانا۔ کمال ہوشیاری سے مادر ملت فاطمہ جناحؒ کو جنرل ایوب خان کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کی الیکشن مہم کے انچارج بنائے گئے جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران مادر ملتؒ کی شخصیت پر انتہائی نازیبا ریمارکس دیے جن کا تذکرہ بھی مادر ملتؒ کی توہین ہے۔ صدارتی انتخابات متنازع قرار پائے۔ دھاندلی کے الزامات لگے مگر جنرل ایوب خان صدر منتخب ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ بے مثال اقتصادی ترقی ہوئی۔ بڑے ڈیم تعمیر ہوئے۔ جشن ترقی بھی منایا گیا مگر مشرقی پاکستان میں سیاسی محرومیوں کا لاوا سلگتا رہا جس میں مادر ملتؒ کی شکست کے صدمے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

پھر حزب اختلاف متحرک ہوئی۔ عوامی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جس کے پیش نظر صدر ایوب خان مستعفی ہو گئے۔ زمام اقتدار جنرل یحییٰ خان نے سنبھال لی۔ ون یونٹ سسٹم ختم ہوا۔ عام انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سرخرو ہوئی۔ جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کا حق تھا جسے تسلیم نہ کیا گیا۔ ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا گیا۔ ملک دو لخت ہو گیا۔ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دینے کا دعویٰ کیا۔ قوم خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو گئی۔

پھر ایک اور سانحہ رونما ہوا۔ کہا گیا کہ جنرل ایوب خان نے مادر ملت فاطمہ جناحؒ کو غدار قرار دیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے صدمے کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف غم و غصہ عروج پر تھا۔ کسی نے بھی تحقیق کی کوشش نہ کی کہ اس الزام کی شروعات کہاں سے ہوئی؟ کن اخبارات میں یہ بات رپورٹ ہوئی؟ تاریخ نویسی کے اصولوں پر پوری اترنے والی تاریخی شہادتیں کیا ہیں؟ اس کسوٹی پر کسی نے بھی اس الزام کو پرکھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ بس بات منہ سے نکلی پرائی ہوئی والا قصہ ہو گیا۔ بات کو غلط العام کا درجہ حاصل ہو گیا۔ فوج سے نفرت کرنے والے عناصر نے اس الزام کو دہرانا ایک فیشن بنا لیا کہ اس سے ان کے مقاصد کی آبیاری ہوتی تھی۔

راقم الحروف نے اس موضوع پر جب تحقیق شروع کی تو دنگ رہ گیا کہ ناقدین کے پاس اس الزام کا کوئی ایسا تاریخی حوالہ موجود نہیں تھا جس میں جنرل ایوب خان نے مادر ملت کو غدار قرار دیا ہو۔ صرف ٹائم میگزین میں یہ بات ملی کہ ایوب خان نے مادر ملت کو پرو امریکن اور پرو انڈین قرار دیا مگر اس میں بھی یہ بات نہ ملی کہ ایوب خان نے مادر ملت فاطمہ جناحؒ کو غدار (ٹریٹر) قرار دیا ہو۔ میں نے ایک معروف صحافی اینکر اور اس الزام کی تکرار کرنے والے دیگر مصنفین کو بار بار چیلنج کیا کہ تاریخ نویسی مذاق نہیں ہے۔

برائے مہربانی کوئی تاریخی حوالہ پیش کریں بصورت دیگر مادر ملتؒ پر بلا ثبوت تہمت مت لگائیں کہ کوئی قوم اپنی ہی ماں پر کبھی تہمت نہیں لگاتی۔ جنرل ایوب خان میں سینکڑوں خامیاں ہوں گی۔ ان سے اظہار نفرت کے لیے ان خامیوں کے حوالے سے ان پر خوب تبریٰ کیجیے۔ کئی پہلوؤں سے ان پر تنقید کے ہزاروں زہریلے تیروں کی برسات کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں بہت وسیع میدان کھلا ہے مگر فوج کے بغض میں جنرل ایوب خان سے جھوٹا الزام منسوب کر کے مادر ملت فاطمہ جناحؒ پر تہمت طرازی کسی کو زیب نہیں دیتی۔

یہ تاریخ کے ساتھ بددیانتی ہی نہیں، تاریخ کو مسخ کرنے کے بھی مترادف ہے۔ اس موضوع کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر یہ الزام تاریخ نویسی کے اصولوں کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو یہ مادر ملت فاطمہ جناحؒ پر تہمت اور جنرل ایوب خان پر بہتان قرار پائے گی۔ یہ تاریخ پر کیسا ظلم ہے کہ جنرل ایوب خان پر بہتان لگا کر مادر ملتؒ پر تہمت لگاؤ۔ ایک ہی تیر سے دو شخصیات کو گھائل کرو۔ کیسا کمال ہنر ہے کہ پھر یہی لوگ اس بات کی اتنی تکرار کرتے ہیں کہ اگر ناقدین ان میں سے کسی فرد کے اقوال و افعال کو غداری کے زمرے میں شمار کریں تو وہ سے فخر کہتے ہیں کہ ایوب خان نے مادر ملتؒ کو غدار قرار دیا تھا، لہذا اگر اسے بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے تو یہ اس کے لیے فخر کی بات ہے۔

پس اب زمانے کا چلن یہ بن گیا ہے کہ اس غیر مصدقہ الزام کی آڑ میں دل میں جو آئے کسی ثبوت کے بغیر بولیں۔ کسی تاریخی حوالے کے بغیر لکھیں۔ اگر ناقدین تاریخی حوالہ جات نہ دینے پر غدار کہیں تو خود کو مادر ملت فاطمہ جناحؒ کا پیروکار قرار دے دیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اس صورتحال میں مادر ملتؒ اور قائداعظمؒ کی ارواح کس کرب سے انگاروں پر لوٹتی ہوں گی، اس کا تصور بھی محال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments