کشمیر کا تنازع، حقائق کی روشنی میں قسط۔ 5


جب شیخ عبداللہ جواہر لعل نہرو سے سیاسی تعلق استوار کر رہے تھے تو اسی دوران ڈوگرہ حکومت نے 1935 ء میں گلگت کا علاقہ 60 سال کے لئے پٹے پر تاج برطانیہ کی تحویل میں دے دیا۔ برطانیہ کی اس علاقے میں دل چسپی تو پہلے سے تھی، مگر اب یہ خطہ اس کے لئے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ روس میں زار کی حکومت کے خاتمے کے بعد کمیونسٹ آمریت نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔ بنابریں اب کیمیونزم کشمیر کے دروازے پر دستک دینے لگا تھا۔

پامیر کے پہاڑی سلسلے کے اس پار کمیونزم کے غلبے نے برطانوی سامراج کے زیر تسلط علاقوں بالخصوص بر صغیر پاک و ہند اور مشرق بعید کی ریاستوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ جرمنی میں ہٹلر کا اقتدار اور نازی ازم کی ترویج اور اٹلی میں مسولینی کی فسطائیت کے بعد اب روس میں کمیونزم کا استحکام اور اس کی ممکنہ توسیع برطانیہ کے لئے بڑا چیلنج تھا۔ مؤخر الذکر کی پیش بندی کے لئے دفاعی حکمت عملی کے تحت برطانوی فوج کے زیر اثر ایک فورس کی گلگت میں موجود گی کی ضرورت محسوس کی گئی۔

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت

ڈوگرہ راج سے قبل گلگت اور بلتستان اور لداخ کے علاقے، 1339 ء سے 1585 ء تک مسلمان حکمرانوں (شاہ میر خاندان اور چک خاندان) کے دور حکومت، جو کشمیر پر آزاد و مختار حکمران تھے، کے تحت تھے اور مغلوں، افغانوں اور سکھوں کے دور غلامی میں یہ علاقے ان کی طرف سے مقرر کیے گئے گورنروں کے ماتحت رہے (ممتاز ہاشمی۔ گلگت و بلتستان میں ایجنسی نظام کیوں ) ۔ اب، 1935 ء میں، یہ علاقے ڈوگرہ راج کے تسلط میں تھے۔ یہ علاقہ جات، ریاست جموں کشمیر میں موجود کچھ دوسری جاگیروں یا راج دھانیوں ؛ راجوری، پونچھ، جسروٹا، رام نگر، بسوہلی اور کشتواڑ کی طرح، چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھے۔

یہاں نگر، ہنزہ، کھرمنگ، خپلو، شگر، دیامر، خذر، سکردو، استور اور گانچھے کے راجواڑے تھے، جو ایک دوسرے سے مسلسل بر سر پیکار رہتے تھے۔ معاہدہ یا بیع نامہ امرتسر ( 16 مارچ 1846 ) کے تحت صرف وہ پہاڑی یا ملحقہ علاقے جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع تھے، گلاب سنگھ کو فروخت کیے گئے تھے۔ گلگت کا علاقہ چوں کہ دریائے سندھ کے مغرب میں واقع تھا اس لئے اس دستاویز انتقال میں شامل نہیں تھا۔ 1846 ء تک یہ علاقے خالصہ راج کے تحت تھے۔

گلگت میں خالصہ فوج اور ان کی طرف سے مقرر گورنر کریم خان موجود تھے۔ برطانیہ سرکار نے ریاست جموں کشمیر کی حد بندی کے لئے دوسروں علاقوں کی طرح کشمیر کے شمالی علاقہ جات میں بھی اپنی فوج کو دو افسر، لیفٹیننٹ وانز ایگنیو (Vans Agnew) اور لیفٹیننٹ رالف ینگ (Ralph Young) مقرر کیے۔ انہوں نے دریائے سندھ کے شمالی علاقے، بشمول گلگت، مہاراجہ کی ریاست میں شامل کر دیے۔ (چیف جسٹس یوسف صراف۔ کشمیریز فائٹ فار فریڈم) ( 1 ) ۔

مارٹن سوک فیلڈ (Martin Sökefeld) ( 2 ) جو میونخ کی لڈ وگ میکسی ملینز (Ludwig۔ Maximilians۔ Universität) یونیورسٹی میں سماجی اور ثقافتی بشریات کے پروفیسر ہیں اپنے انگریزی کے ایک آ رٹیکل، ’استعماریت سے استعماریت کے بعد ، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں تسلط کی بدلتی شکلیں (جنرل آف ایشین سٹڈیز کے نومبر 2005 ء ) میں لکھتے ہیں کہ بادی النظر میں اگرچہ معاہدہ نامہ امرتسر ( 16 مارچ 1846 ) کے تحت گلگت کا علاقہ گلاب سنگھ کو فروخت نہیں کیا گیا تھا لیکن فریڈرک ڈریو (Frederick Drew) جو گلاب سنگھ کے بیٹے، رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، نے برطانوی سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے ان علاقوں پر ڈوگرہ راج کے اقتدار کو قانونی قراردیا ہے (1) ۔ وہ کہتے ہیں کہ معاہدہ امرتسر میں گلگت کو شامل نہ کرنا ان علاقوں کے تفصیلی جغرافیائی علم سے عدم واقفیت کی بنا پر تھانہ کہ عمداً ایسا کیا گیا تھا۔

انگریز، معاہدہ امرتسر میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود، حیلوں بہانوں سے ریاست جموں کشمیر کے شمالی علاقہ جات میں اپنی دلچسپی کی خاطر ساٹھ کی دہائی سے وہاں اپنا ریزیڈنٹ مقرر کرنے کی کوششیں کرتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے یہ موقع رنبیر سنگھ کے دور حکومت کے آخری سالوں میں ان علاقوں میں تاج برطانیہ کے مفادات کے تحفظ پر، اس کی وفاداری پر سؤالیہ نشان لگا کر پیدا کر لیا ( 3 ) ، ( 4 ) ۔ چناں چہ مہاراجہ کی مخالفت کے باوجود انہوں نے کرنل جان بڈولف کو اپنے پہلے ایجنٹ کے طور پر گلگت میں تعینات کر دیا۔

مہاراجہ رنبیر سنگھ کے نزدیک انگریزوں کی یہ کارروائی، کشمیر میں اس کی سر گرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے کی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں اس کے اقتدار کو محدود کرنا اور اس میں دراڑ پیدا کرنا مقصود تھا۔ کرنل جان بڈولف کے لئے مشکلات نہ صرف ڈوگرہ راج کے گورنر کی طرف سے پیدا کی گئیں بلکہ مقامی (ہنزہ نگر اور یاسین کے ) لوگوں نے بھی اس سے ساتھ تعاون نہ کیا۔ اس طرح اس ایجنسی کو 1881 ء میں بند کر دیا گیا (مارٹن سوک فیلڈ) ۔

رنبیر سنگھ کی وفات کے بعد مہاراجہ پرتاب سنگھ جو ایک کمزور حکمران ثابت ہوا تھا کو انگریزوں نے بالکل بے اختیار کر کے اس ایجنسی کا 1889 ء میں دوبارہ اجراء کیا اور کرنل الگرنن ڈیورنڈ (Algernon Durand) کو پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا۔ ڈیورنڈ نے ڈوگرہ راج سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھتے ہوئے ایجنسی کے مقامی لوگوں سے روابط بڑھائے اور اس طرح وہ اس علاقے میں برطانوی اثر رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈیورنڈ کی حکمت عملی کے تین ستون تھے ( 6 ) :

1: مکمل یقین اور اعتماد کہ تاج برطانیہ ایک ناقابل تسخیر قوت ہے۔

2: لوگوں میں اس بات کی دھاک بٹھا نا کہ برطانوی افسر، خاص کر پولیٹیکل ایجنٹ، آسمان سے اتری مخلوق ہے جو اس علاقے کے لوگوں کی کسی بھی بھوت پریت کے خلاف حفاظت کر سکتا ہے۔ اس کی بات ہر حال میں سنی جائے اور اس کا کہا اسی طرح مانا جائے جیسے خدا کا حکم مانا جاتا ہے

3: پولیٹیکل اضلاع کے لوگوں اور مقامی حکمرانوں سے کشادہ دلی سے منصفانہ اور فیاضانہ سلوک روا رکھا جائے۔ ان کے معاملات میں کم سے کم مداخلت کی جائے اور (برطانوی حاکموں پر ) ان کے اعتماد پر آنچ نہ آنے دی جائے۔

یہ حکمت عملی، ڈوگرہ صوبے داروں کے آمرانہ، ظالمانہ اور متشدد رویے کے مقابلے میں زیادہ کار گر ثابت ہوئی اور لوگوں کو برطانوی سرکار کے خلاف مزاحمت یا بغاوت سے باز رکھنے میں کامیاب رہی اور اس طرح وہاں کے حالات کافی حد تک پر سکون ہو گئے (ای ایف نائٹ۔ برطانوی صحافی نمائندہ ٹائمزلنڈن 1893 / 1991، 285 ) ) ۔ جب سے گلگت ایجنسی دوبارہ سے قائم کی گئی تھی، ریاست کشمیر کے حکام اور فوج بدستور وہاں موجود رہے اور امور ریاست کے بارے میں ان کی انگریزوں سے رقابت جاری رہی، جس کا گاہے بگاہے برملا اظہار بھی ہوتا رہا۔

یہ دہرا اقتدار آخر کار عملداری کے ضمن میں علاقوں کی تقسیم کا سبب بنا۔ گلگت وزارت جس میں تحصیل گلگت یعنی گلگت شہر، پونجی اور استور شامل تھے، براہ راست ریاست کشمیر کی عملداری میں رہے اور دوسرے علاقے (ہنزہ اور نگر) بالواسطہ برطانوی راج کے تحت رہے۔ گورنر (صوبہ دار) اور پولیٹیکل ایجنٹ کے درمیان اختیارات سے متعلق کھینچا تانی بہر حال جاری رہی۔ ایک وقت میں اختلافات اس حد تک بڑھے کہ جب انڈین ایکٹ 1935 ء منظر عام پر آیا تو یہ سؤال پیدا ہوا (یا برطانوی شہ پر پیدا کیا گیا) کہ کیا یہ علاقے آزادانہ حیثیت میں فیڈریشن میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں یا انہیں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جائے ﴿سوک فیلڈ (Sokefeld 1997 b، 261۔ 62 ) ﴾۔ لیکن جب تاج برطانیہ نے خود ہی گلگت وزارت

کو ساٹھ سال کے لئے ریاست جموں وکشمیر سے پٹے پر لینے کی درخواست کی اور معاہدہ بھی کر لیا جس میں یہ اقرار کیا گیا کہ محروسہ (پٹے پر لیے گئے) علاقے ہز ہائی نس مہاراجہ بہادر جموں و کشمیر کی حدود کے اندر شامل ہیں، تو ان علاقوں کی اصل حیثیت خود بخود آشکار ہو گئی۔

عہد نامہ برائے گلگت ایجنسی 26 مارچ 1935 ء

یہ عہد نامہ مہاراجہ ہری سنگھ، والی ریاست جموں و کشمیر اور ایف ایف تھامس، وائسرائے اور گورنر جنرل ہند کے درمیان طے ہوا اور اس پر مہاراجہ ہری سنگھ، برطانوی راج کی طرف سے کرنل ایل ای لینگ (Col۔ L E Lang) اور ایچ آر مٹکاف (H R Mecalfe) فارن سیکریٹری ہند، ایچ آئے ایف مٹکاف کے دستخط ثبت ہیں۔

دفعہ اول:وائسرائے، گورنر جنرل ہند کو اختیار ہو گا کہ وہ اس معاہدہ کے بعد ، ریاست جموں و کشمیر کی وزارت صوبہ گلگت کا دریائے سندھ کے پار کا وہ علاقہ جو اس کی تحویل میں دیا جائے گا، کا ملکی اور فوجی انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے، لیکن یہ علاقے بدستور ریاست کی حدود میں شامل رہیں گے۔

دفعہ دوم: یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ محروسہ علاقے ریاست کا حصہ رہیں گے اور ریاستی تقریبات کا حسب سابق انتظام کیا جائے گا اور مہاراجہ کو سلامی دی جائے گی۔ ریاست کا جھنڈا ایجنسی کے صدر مقام پر ہمیشہ قائم رہے گا۔

دفعہ سوم: عام حالات میں برطانوی افواج، انگریزی یا ہندی اس علاقے سے نہیں گزریں گی جو دریائے سندھ کے باہیں جانب واقع ہے۔

دفعہ چہارم: اس علاقے میں حقوق معدنیات بحق مہاراجہ محفوظ رہیں گے۔

دفعہ پنجم : یہ عہد نامہ تاریخ اجراء سے 60 سال تک نافد رہے۔ اس میعاد کے پورا ہو نے پر یہ خود بخود ختم تصور کیا جائے گا۔

یہ عہد نامہ 26 مارچ 1935 ء سے 30 جولائی 1947 ء تک نافذ رہا۔ برطانوی سرکار نے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد 30 جولائی 1947 ء کر خود ہی اس معاہدے کی تنسیخ کا اعلان کر دیا ( 2 ) ۔ یکم اگست 1947 ء کو گلگت میں ایک اجتماع ہوا، جس میں برطانیہ کی طرف سے برٹش کمانڈر انچیف (کشمیر آرمی) میجر جنرل ایچ ایل سکاٹ اور مہاراجہ کی طرف سے متعین گورنر برگیڈیر گھنسارا سنگھ نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں برٹش پولیٹیکل ایجنٹ، کرنل راجر بیکن (Col۔ Roger Bacon) نے یونین جیک اتار کر یہ علاقے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کے حوالے کر دیے ( ( 7 ) ”Sajjad Ahmad“ ) اور بھمبر کے راجہ نور علی خان کو ایجنسی کا وزیر وزارت مقرر کر دیا گیا (چیف جسٹس صراف، ممتاز ہاشمی) ۔

انڈیا ایکٹ 1935 ء

ایک اور قابل ذکر اقدام جو تاج برطانیہ کی طرف سے اسی سال کیا گیا وہ انڈیا ایکٹ 1935 ء کا اجراء تھا۔ اس ایکٹ سے بہت پہلے 1858 ء میں ایک ایکٹ منظر عام پر آیا تھا، جسے ہندوستان میں بہتر انداز حکمرانی کا قانون کہا گیا تھا ( 8 ) ۔ اس کی آخری شق میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں تمام آزاد ریاستوں کے ساتھ کمپنی کی طرف سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کے لئے ملکہ عالیہ پابند ہوں گی۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ آزاد ریاستیں برطانوی ہند کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے باشندے برطانوی شہری ہیں لہذا برطانوی پارلیمان ان کے بارے میں کسی قانون سازی کی مجاز نہیں ہے (چیف جسٹس یوسف صراف) ۔

1927 ء میں ریاستوں کے سربراہان نے شملہ کانفرنس کے موقع پر وائسرائے ہندسے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی ریاستوں اور برطانوی راج کے درمیان تعلق کے تعین پر تحقیقات کے لئے ایک غیر جانبدارانہ کمیشن قائم کیا جائے، چناں چہ لارڈ برکن ہیڈ (Lord Berkenhead) سیکریٹری آف سٹیٹس نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں سر ہار کورٹ بٹلر (Sir Harcourt Buttler) بطور چیئر مین اور پروفیسر ڈبلیو ایس سکاٹ کے سی (Lord Berkenhead K C) اور ایس سی پیل (Hon۔ S C Peel) بطور ممبر تعینات کیے گئے۔ اس کمیٹی کے سامنے والیان ریاست کے آئینی وکلاء، جن کی سربراہی سر لیزلی سکاٹ (Sir Leslie Scott) کر رہے تھے پیش ہوئے۔ اس کمیٹی نے اپنی سفارشات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستوں کے سربراہان کے اختیارات، کسی نئے جنم لینے والے خودمختار ملک کو، ان کی مرضی کے بغیر منتقل نہیں کیے جا سکتے (یوسف صراف بحوالہ وی پی مینن) ۔ انڈیا ایکٹ 1935 ء جس کا نفاذ اپریل 1937 ء میں کرنے کی کوشش کی گئی، میں ایک فیڈریشن کے وجود میں آنے پر برطانوی ہند اور ہندوستانی ریاستوں کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ اولاً ریاستوں اور صوبوں کا مرتبہ و مقام اور معاملہ ایک جیسا نہیں ہے چناں چہ وہ انہی شرائط پر، جو صوبوں کے لئے تجویز کی گئی ہیں، فیڈریشن میں مدغم ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوم ریاستیں، شخصی حکومتوں کے تحت خودمختار ہیں، چناں چہ ان کا فیڈریشن میں ادغام ان کے سربراہوں کے رضاکارانہ فیصلوں کے بغیر ناممکن ہے (وی پی مینن) ۔ شیخ عبد اللہ نے اس ایکٹ میں ریاستوں کے فیڈریشن میں شمولیت اور فیڈرل اسمبلی میں ممبران کی نامزدگی کا اختیار ریاستوں کے سربراہوں کو دینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ”برطانوی آئین سازوں نے یہ آئین تیار کرتے وقت جس طرح ریاستوں کے آٹھ کروڑ عوام کو نظر انداز کیا ہے، یہ تاریخ میں سیاہ باب کا اضافہ ہے۔

آٹھ کروڑ ریاستی عوام کو جانور خیال کرتے ہوئے انہیں اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا کہ ان کی آراء اور خواہشات کو قابل اعتناء سمجھا جاتا۔ فیڈرل اسمبلی میں ممبر نامزد کر کے بھیجنے کا اختیار ایسے لوگوں (راجوں، مہاراجوں ) کو دیا گیا ہے، جن کے ناروا سلوک سے ان کی رعایا پہلے سے ہی تنگ ہے۔ اگر فیڈریشن میں شمولیت کے لئے ریاستوں کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ ان کے حاکموں کے نہیں ریاستی عوام کے دل جیت کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے ”(ایم ڈی تاثیر) ۔ اس قانون کے اطلاق سے پہلے ہی مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 ء ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کر دیا۔ اس طرح یہ ایکٹ کہیں پس منظر میں چلا گیا۔

نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کی سیاست

نیشنل کانفرنس کی سیاست کے روح رواں شیخ عبد اللہ تھے۔ کشمیر کی سیاست میں وہ ایک خاص مقام حاصل کر چکے تھے۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ اتنا بڑھ چکا تھا کہ کسی اور راہنما کو ان کے مدمقابل کھڑا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چوہدری غلام عباس جموں میں اپنا حلقہ اثر رکھتے تھے۔ وہ شیخ عبد اللہ کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے اور مسلم کانفرنس کے دوبارہ اجراء پراس میں فعال ہو گئے۔ اگر کشمیر کی وادی اور جموں صوبے کی سیاست کا معروضی یا خارجی تجزیہ کیا جائے تو دونوں خطوں کی سیاست میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

وادی کشمیر کے لوگ، وادی کے جغرافیائی خط و خال کی وجہ سے اس خطہ میں ہی محدود تھے۔ ان کے بیرونی دنیا سے روابط بہت کم تھے۔ وادی سے بانہال کے راستے جموں اور پنجاب تک رسائی ممکن تھی۔ راستہ کٹھن اور سارا سال کھلا نہیں رہتا تھا۔ مزدور طبقہ اسی راستے سے پیدل ہی پنجاب جاتا تھا اور چار چھ ماہ کی محنت مزدوری کے بعد ، برف پڑنے سے پہلے پیدل ہی گھروں کو واپس آ جاتا تھا۔ سری نگر سے بارہ مولہ اور مظفر آباد اور پونچھ سے راولا کوٹ اور پلندری کے راستے بھی تھے۔ مگر یہ پہاڑی اور دشوار گزار تھے۔ الغرض وادی کا پنجاب سے بعد تھا اور روابط نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب کی سیاست کے وادی پر اثرات بہت کم تھے۔ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ہندو اقلیت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اگرچہ راج ہندو کا تھا مگر مسلمان عددی اکثریت کی بنا پر یہاں اپنے آپ کو قدرے محفوظ خیال کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ کا ’کشمیر‘ بھی صرف وادی میں کشمیری زبان بولنے والوں تک محدود تھا۔ ان کی نظر میں ریاست جموں و کشمیر کے دوسرے علاقے ’کشمیر‘ نہیں تھے۔ وہ جو اپنے آپ کو بلا شرکت غیرے، جموں کشمیر کا سیاسی راہنما سمجھتے تھے، لداخ اور گلگت بلتستان کے عوام میں کوئی پذیرائی نہیں رکھتے تھے۔ وادی کے لوگ مذہبی اور سیاسی شخصیت پرستی کے قائل تھے۔ جس شخص نے ان کے دل کی بات کہہ دی، وہی ان کا دیوتا ٹھہر جاتا تھا اور اس شخص کی خامیاں کہیں پس منظر میں چلی جاتی تھیں۔ اس کے نظریات کی کجی یا اس جھول سے ان کے مستقبل پر مرتب ہونے اثرات سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔

کشمیر کے مقابلے میں جموں، ادھم پور اور کٹھوعہ میں ہندؤوں کی اکثریت تھی۔ اگرچہ جموں کے صوبے میں بحیثیت مجموعی، مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن یہاں کے ہندؤوں کی متشددانہ ذہنیت کے پیش نظر مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتے تھے۔ صوبہ جموں کی سرحدیں پنجاب سے ملتی تھیں اور سڑک اور ریل کے ذریعے آمد و رفت بھی تھی اور مسلمانوں کے سرحد پار رشتے ناتے بھی تھے، لہذا پنجاب کی سیاست کے اثرات یہاں براہ راست مرتب ہوتے تھے۔

شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس پر صدیوں غلامی کی چھاپ تھی۔ ریاست جموں و کشمیر 1585 ء سے غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئی تھی۔ 1846 ء میں پوری ریاست ہی شخصی غلامی میں دے دی گئی تھی۔ گلاب سنگھ اور اس کے وارثین نے اس ریاست کے عوام پر ظلم و جبر کی انتہاء کر دی تھی۔ یہ لوگ روز مرتے اور روز جیتے تھے اور وہ اس چنگل سے رہائی چاہتے تھے، خواہ یہ رہائی انہیں کسی قیمت اور کسی کی ہی مداخلت سے نصیب ہو۔ چوہدری غلام عباس، جموں سے ہونے کی بنا پر، مسلم لیگ کی طرف رجحان رکھتے تھے۔

وہ اپنے پڑوس میں ایک ممکنہ ملک ’پاکستان‘ کے قیام کے ساتھ اپنی ریاست کی نجات منسلک کر بیٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کی مدد و حمایت سے ان کی آزادی کی منزل آسان ہو جائے گی۔ چوہدری صاحب اپنی ذات کی نفی کر کے کشمیر کی سیاست میں کامیاب ہونا چاہتے تھے۔ یہ ایک جذباتی طرز عمل تھا۔ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔ اپنی ذات کی نفی سے خدا تو مل سکتا ہے، سیاسی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے، یہی دنیا کی ریت ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حصول میں اپنی ذات کی نفی نہیں کی تھی، وہ بدستور قائد اعظم رہے اور پاکستان کے وجود میں آنے پر اس کے گورنر جنرل بھی بنے۔ چوہدری غلام عباس، پاکستان سے اپنی بے لوث محبت، اپنی دیانتدارانہ سیاست اور اپنے گھر بار کو لٹانے کے باوجود، قائد اعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر اس دنیا سے بے نیل و مرام رخصت ہوئے اور محض جھکنے اور بکنے والوں نے رفعتیں اور خلعتیں پائیں۔ گویا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

چوہدری صاحب کے مقابلے میں شیخ عبداللہ کہیں زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک تھے۔ ان کا رویہ جذباتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ تھا۔ انہیں علم تھا کہ اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ جہاں کسی کی ذات معدوم ہوئی، وہاں اس کی سیاست کا باب بھی بند ہو گیا۔ شیخ عبداللہ اپنی ذات کے بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں تھے۔ وہ اپنی سیاسی قدر و منزلت خوب سمجھتے تھے۔ انہیں اس بات کا کلی ادراک تھا کہ وہ کشمیر کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور یہ کہ ریاست کے مستقبل میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوگا۔

اس سب کے باوجود، شیخ صاحب کا سیکولر ازم کے واہمے کے پیچھے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنا ایک سعی لا حاصل تھی۔ جموں صوبہ کے ہندؤوں کو تو دور کی بات ہے، اس جھنجھنے سے وادی کے مٹھی بھر ہندؤوں کی بھی بہلایا نہ جا سکا۔ شیخ صاحب نے ساری عمر وادی کے مسلمان کے سر پر سیاست کی لیکن ٹھوس بنیادوں پر اس کے لئے کچھ نہ کر پائے اور آخر کا ر ان کی سیاست اپنی ذات اور اپنے خاندان کے مفادات تک محدود ہو کر رہ گئی۔

جاری ہے۔

Refernces:

( 1 ) VANS AGNEW، P۔ A۔ 1847۔ ”Diaries of Mr۔ P۔ A۔ Vans Agnew، Assistant to the Agent، Governor۔ General، North۔ West Frontier، on Deputation to Gilgit، 1847۔“ In Punjab Government Records، Lahore Political Diaries، 1847۔ 1849۔ Lahore: Punjab Government Publications۔

( 2 ) Martin Sökefeld ”From Colonialism to Postcolonial Colonialism: Changing Modes of Domination in the Northern Areas of Pakistan“

(The Journal of Asian Studies 64, no. 4 (November 2005) :939-973. 2005 by the Association for Asian Studies, Inc.)

( 3 ) ALDER، G۔ J۔ 1963۔ British India ’s Northern Frontier، 1865۔ 95 : A Study in Imperial Policy۔ London: Longmans۔

(4) YASIN, MADHAVI. 1984. British Paramountcy in Kashmir, 1876-1894. New Delhi: Atlantic Publishers and Distributors.

( 5 ) STELLRECHT، IRMTRAUD۔ 1998۔ ”Trade and Politics۔ The High۔ Mountain Region of Pakistan in the 19 th and 20 th Century۔“ In Transformations of Social and Economic Relationships in Northern Pakistan، ed۔ Irmtraud Stellrecht and Hans۔ Georg Bohle۔ Cologne: Köppe۔

( 6 ) ”Resident in Kashmir، December 14، 1927، Appendix to the ’Administration Report of the Gilgit Agency،‘ “ 1927، OIOC، L/P&S/ 12 / 3288، p۔ 5 )

( 7 ) ”Sajjad Ahmad“ History: The Gilgit۔ Baltistan conundrum published in Dawn on November 1، 2020
( 8 ) ”The Act for the Better Government of India، 1858“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments