بلوچ طلبا کا یونیورسٹیوں سے پہاڑوں تک کا سفر


اٹھارہ سال کی عمر میں ریاست کا کوئی بھی شہری ایک بالغ اور باشعور شہری تصور کیا جاتا ہے جو نہ صرف اپنی زندگی کی معاملات میں شعوری فیصلے کر سکتا ہے بلکہ اپنے باشعور شہری ہونے کی حیثیت سے ووٹ دینے کا بھی اہل ہوجاتا ہے۔ ایسے کسی نوجوان کی کسی بھی فیصلے کو محض جذباتی، گرم جوشی یا لاشعوری نہیں کہا جاسکتا۔ اور ایسے کسی نوجوان کے اقدامات کو تو بالکل لاشعوری نہیں کہا جاسکتا جو ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے نکل کر ملک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو۔ وہ طالب علم اپنے بہتر تعلیمی بنیاد رکھنے والے کلاس فیلوز کا مقابلہ کرے، کئی خواب آنکھوں میں سجائے اور یونیورسٹی سے نکل کر پہاڑوں پر جائے جہاں سے ایک دن یہ خبر آئے کہ مقابلے میں مارا گیا۔ یہ سب کچھ تو لاشعوری کیفیت اور جذباتی پن میں نہیں کیا جاتا۔

اسی موضوع پر پچھلے سال ایک مضمون میں نے لکھا تھا جو اسلام آباد سے تعلیم حاصل کرنے والے دو طالب علم شہداد بلوچ اور احسان بلوچ سے متعلق تھا۔ اور آج وہی سارا موضوع ایک اور بلوچ طالب علم آفتاب بلوچ سے متعلق ہے۔ آفتاب بھی اسلام آباد کے ایک اعلی تعلیمی ادارہ میں معاشیات کے طالب علم تھے اور ان سے متعلق اب خبر ہے کہ انھوں نے ایک کالعدم بلوچ مزاحمتی تنظیم کو جوائن کیا تھا جو بولان کے علاقے میں مقابلے میں اپنے دو اور ساتھیوں کے ساتھ مارے گئے ہیں۔

جب دو بلوچ نوجوانوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں جن میں سے ایک شاہ داد بلوچ کی تھی جو قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم فل کے طالب علم تھے اور دوسرا احسان بلوچ جو جینڈر اسٹڈیز کے طالب علم تھے، دونوں سے متعلق خبر یہی تھا کہ دونوں نے یونیورسٹی سے نکل کر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی میں حصہ لیا اور ایک مقابلے میں مارے گئے۔

ان تصاویر کے ساتھ شاہ داد بلوچ کی ایک اور تصویر بھی شیئر کی گئی تھی جس میں وہ ایک مذہبی شدت پسند طلبہ تنظیم کے ریاستی سربراہی میں چلنے والے فاشسٹ گروپ کے ہاتھوں پنجاب یونیورسٹی میں تشدد سے زخمی ہوئے تھے، ان دو نوجوانوں سے متعلق کئی پوسٹس غیر بلوچوں کی بھی تھیں جن میں شاہ داد بلوچ کی ایک استاد بھی شامل ہیں جو لکھتی ہیں ’we all failed you shahdad‘ اور ایک طویل تحریر میں شاہ داد کے ساتھ اپنی تمام تر یاداشتیں، تاثرات غم و غصہ بیان کرتی ہیں اور ریاست کے لیے کئی ایسے سوالات بھی رکھتی ہیں جو شاید ایک بلوچ طالب علم کے لیے ممنوعہ ہیں۔

ملک کے بڑی یونیورسٹیوں سے نکلنے والے بلوچ طالب علم پہاڑوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کو ایک بار پھر شدت کے ساتھ پوچھا جا رہا ہے، اور جواب میں کچھ لوگ اسے وہاں یعنی بیرون بلوچستان ملک کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو درپیش مسائل، تشدد، تعصب اور حقارت کی نظر سے دیکھنے کو کہہ رہے ہیں، لیکن شاید مکمل ایسا نہیں ہے۔

اب ساحل و وسائل پہ حق اور پارلیمنٹی دعووں کے برعکس بلوچ طالب علموں کے لیے بلوچستان میں جگہ نہ ہونا اس کی بڑی وجہ ہے کیونکہ ان کئی دہائیوں میں پورے بلوچستان کو ایک ایسے خوف ناک وادی میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں اب صرف خانیوال سے آیا ہوا مزدور خوف کا شکار نہیں ہے بلکہ ہر شخص دوسرے کی نظر میں مشکوک ہے، بلوچستان میں اب نوجوان گھر میں ہوتے ہوئے خوف کا شکار ہیں، بلوچ والدین کے لیے اعلٰی تعلیم اب خوف ناک راستہ ہے جہاں سے بیٹا یا بیٹی فارغ ہو کر اداروں کی نظر میں سب سے زیادہ مشکوک ہونے لگتا ہے کیونکہ یہ تعلیم یافتہ شخص اس نظام سمیت مقامی اسمگلر، کرپٹ، دو نمبر اور سردار و سرکردہ کو کھلا چیلنج کرتا ہے کہ تمھارے آگے پیچھے دم نہیں ہلاؤں گا، جس چیلنج کا مطلب ریاست کو چیلنج کرنا ہے جو کسی صورت منظور نہیں، ایسے میں دو ہی راستے بچتے ہیں یا لاپتہ ہو جاؤ یا تو مزاحمت کرو۔

بلوچ طالب کو کبھی بھی نہ تو مقامی ریاستی پشت پناہی پر قائم اثر و رسوخ رکھنے والوں نے برداشت کیا اور نہ ہی ریاست نے بلکہ انھیں تبلیغ اور مذہب کے نام پر شدت پسند بنانے کے لیے کام کیا گیا یا ایسا بنوانے کی کوشش کی گئی کہ وہ مشرف کی سزا کے خلاف اسپرے لے کر وال چاکنگ کرنے والے بنیں اور چند مقامی لوگوں کے آس پاس جی جی کرنے والے۔

بلوچستان میں آج صورت حال یہ ہے کہ پرائمری کے طالب علموں کو کسی دور دراز کے اسکول سے نکلوا کر یوم کشمیر و یوم پاکستان کی ریلی میں شرکت کے لیے نعروں کی تربیت دی جاتی ہے کہ انڈیا مردہ باد، جس معصوم بچے کو یہ تک معلوم نہیں کہ انڈیا، بھارت اور ہندوستان میں کیا فرق ہے اس سے محب وطنی دکھانے کے لیے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی میں وہ ملی نغمے سنانے کی مشق کی جاتی ہے جو وہ اپنے اسکول کے پروگرامز میں بے خوف سریلی آواز اور ترنم کے ساتھ پڑھتا ہے۔

بلوچ طالب علم کے لیے بلوچستان دن بہ دن ایک جلتا ہوا جہنم بنتا جا رہا ہے جہاں وہ روز کسی کی تعریفی کلمات ادا کرے یا زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگا کر کسی افسر کی خوشنودی کی سرٹیفکٹ حاصل کرے تاکہ وہ لاپتہ ہونے سے بچ جائے اگر کوئی دوست احباب لاپتہ ہو تو ان سے اور ان کے اہل خانہ سے لا تعلقی کرے ورنہ پھر اس کی باری آئے گی۔

پنجاب کا مبینہ تعصب صرف بلوچ طالب علموں کے لیے پہاڑوں پر جانے کی وجہ نہیں اب بلوچستان کے حالات اس کے ذمہ دار ہیں، جہاں زندہ رہ کر روز روز مرنے یا باقی نوجوانوں کی طرح منشیات کی دل دل میں پھنسنے یا بڑھتی ہوئی خودکشیوں میں حصہ دار بنے کے علاوہ نوجوانوں کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

اگر کوئی اپنی شوق سے بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر جانا چاہتا ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے روک نہیں سکتی مگر ایسے حالات بھی نفسیاتی مریض بن کر جینے نہیں دیتے جہاں سوال کرنا جرم ہو، جہاں اعلی تعلیم پر بے پناہ مشقت کے باوجود دروازے بند ہوں جہاں مایوسی کے بادل ہوں جہاں منشیات کا بازار گرم ہو، جہاں کرپٹ، اسمگلر، ڈاکو اور مافیاز ریاست کی نظر میں سب سے بڑھ کر محب وطن ہوں جہاں اساتذہ کے لئے قومی دن کا آنا اور منانے کی حکم ساتھ والے چوکی سے آتی ہو اور پھر بھی روز روز اسکول جاتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہو کہ میں ایک استاد ہوں اور اسکول جا رہا ہوں، جہاں مذہبی شدت پسند ہونا فخر کی نشانی ہو ایسے بلوچستان میں بھلا ایک ذہن بیمار ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟

ایسا نہیں ہے کہ آج کے بلوچ طالب علم کو پنجاب کے مزدور کسان کے حالات کا پتہ نہ ہو مگر جب بھی پنجاب سے کسی نازک پھول جیسی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا ساہیوال میں جعلی مقابلے میں معصوم بچوں کے والدین کو قتل کر دیا جاتا ہے تو بلوچستان کا ہر طالب علم بولتا ہے احتجاج کرتا ہے لیکن بلوچ و بلوچستان کے معاملے میں پنجابی اکثریت کی اس خاموشی اور لاتعلقی پر بلوچ طالب علم سوال تو کر سکتا ہے نا؟ جب بلوچ ہی بلوچستان میں محفوظ نہ ہو تو وہ کسی جنگجو حملہ آور سے کسی مزدور اجنبی کو کیسے بچا پائے گا؟

تصاویر میں قید شدہ بلوچستان جہاں مودی کی طرح ”سب اچھا ہے“ اور گوادر پورٹ کی تصاویر کے علاوہ بھی بلوچستان کی تصویریں ہیں جنھیں دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ بلوچ و بلوچستان کے نام پر تصاویر تو بن سکتے ہیں ان میں وقتی مسکراہٹ بھی ہو سکتی ہے مگر دل میں درد، سروں پر بوجھ اور ذہن میں سوالات ختم نہیں ہوں گے۔

اس تمام مضمون میں اوپر ایک پیراگراف کے اضافے کے علاوہ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا مگر بلوچستان بالکل نہیں بدلا۔ بلکہ بد سے بدتر ہو گیا ہے۔ ہر ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو یا تو کسی مافیا کا پی آر او اور سوشل میڈیا پر کسی کرپٹ گروہ کا کرایہ دار بنایا گیا ہے جہاں صرف ناموں کے آگے ”ہر دل عزیز“ جیسے القابات لگانے کے کام پر بھرتیاں جاری ہیں یا منشیات، خود کشی اور لاپتہ ہونے کے لیے۔ ورنہ شھداد، احسان اور آفتاب کی طرح تصاویر کسی انقلابی بلوچی یا براہوی گانے پر لگا کر اسٹیٹس بن جانے کا راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments