کچھ جھنگ میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر سلام کی لاوارث جائے پیدائش بارے



خاکسار کا شہر جھنگ ان دنوں فرقہ وارانہ انتہائی پسندی کے حوالے سے زیادہ جانا جاتا ہے اور دوسرے شہروں میں بسنے والے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جھنگوی ہر وقت قبائلیوں کی مانند کندھے سے اسلحہ لٹکائے پھرتے ہیں۔ یہ وہی ”تاثر“ ہے جو کہ پاکستان بارے باہر کی دنیا میں بڑی ”محنت اور عیاری“ سے پیدا کیا گیا اور اب اس تاثر کی نفی کرنا مشکل ہو چکا ہے اور یہاں غیر ملکی سیاح آنے سے کافی حد تک کتراتے ہیں حالانکہ آپ اگر جھنگ آئیں تو آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے گا کہ یہاں تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور یہ شہر تو علم و ادب کا گہوارہ ہے اور یہاں کی مٹی ہر لحاظ سے زرخیز کہی جا سکتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 90 کی دہائی میں جھنگ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا جن پوری طرح سے باہر آیا ہوا تھا اور بارود کی بو نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا بلکہ اس کے کچھ علاقے کراچی کی مانند مخالف مسلک کے لوگوں اور قانون نافذ کرنے والوں تک کے لیے ”نو گو ایریاز“ کی حیثیت اختیار کرچکے تھے۔

خود خاکسار نے اپنی گنہگار آنکھوں سے اس شہر کے تعلیمی اداروں اور گلی کوچوں میں بیسیوں اسلحہ برداروں کو دندناتے ہوئے دیکھا تھا جو کہ جلاؤ گھیراؤ اور اس نوعیت کی تخریبی کارروائیوں میں مصروف رہا کرتے تھے اور ان دنوں خوف کی فضا ایسی تھی کہ بستیوں میں پہرے لگا کرتے تھے اور کوئی آنکھ بھی نیند کی طرف نہ لپکتی تھی کہ کسی بھی منحوس گھڑی کسی انجانی سمت سے آنے والی کوئی بھی گولی کسی کا بھی گھٹ بھر سکتی تھی لیکن اب مدت سے ایسا امن ہے کہ یقین نہیں آتا ہے کہ یہ وہی شہر ہے جہاں کبھی گولیوں کی گھن گرج اور دھوئیں کا راج ہوا کرتا تھا اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرف سے برسائے گئے آنسو گیس کے شیلز بے بس اور بے گناہ عوام کی سانسیں مزید مشکل کیے ہوئے تھے اور یہی وہی شہر ہے جہاں کے لاؤڈ اسپیکروں سے ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جاتی تھیں اور کفر کے فتوے نازل ہوا کرتے تھے۔

اب امن ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شرپسند عناصر انہی دنوں مر مرا گئے یا پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے اور باقی جو رہ گئے تھے انہوں نے حالات و واقعات کی سختیوں اور دیگر تکلیفوں کو دیکھ کر ”بندے کا پتر“ بننے ہی میں عافیت محسوس کی اور اسی لیے اب ہر طرف شانتی کا دور دورہ ہے اور راوی بھی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور اب یہاں کھیل میں علیم ڈار ملتے ہیں، ادب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر، حنیف باوا، ڈاکٹر محسن مگھیانہ اور عامر عبداللہ۔

اب کسی شرپسند کا نام بھی نوجوان نسل نہ جانتی ہے اور یہی وہ بے مثال شہر ہے جہاں ایک دو اڑھائی مرلے کے مکان سے عبدالاسلام نام کا ایک لڑکا اٹھا اور اس نے فزکس میں نوبل انعام لے کر سب کو جہاں چونکا دیا تھا وہیں اس نے جھنگ کے مقامی لباس میں یہ بڑا انعام لے کر ایک نئی روایت کو بھی جنم دیا لیکن یہاں ہمارا کیس کچھ اور ہے کہ اس ڈاکٹر سلام کی اس ”جائے پیدائش“ کو حکومت پاکستان کے محکمہ آرکیالوجی نے نوادرات ایکٹ 1974 کے تحت ”قومی یادگار“ قرار دے کر ”محفوظ“ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر کے اس جائے پیدائش پر ایک تختی لگا کر ایک مستقل ملازم اس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا ہوا ہے لیکن کیا یہ جائے پیدائش بس اسی ایک تختی اور زبانی کلامی قومی یادگار قرار دینے تک ہی محدود رکھنے کی اہل ہے یا زیادہ کی متقاضی ہے؟

کیا یہاں ڈاکٹر سلام کے نام پر کوئی ریسرچ سنٹر، لائبریری، میوزیم وغیرہ قائم نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا دنیا بھر کے ریسرچ اسکالرز، اسٹوڈنٹس اور عام لوگوں کو یہ جائے پیدائش دکھا کر ”موٹی ویٹ“ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب اس اڑھائی دو مرلے سے ایک بچہ اٹھ کر اتنا بڑا اعزاز پا سکتا ہے تو باقی کیوں نہیں یہ کر سکتے؟ ذرا سوچیے کہ اگر اس جگہ کی پبلسٹی ذرا اچھے انداز میں کر کے یہاں ڈاکٹر سلام کے زیر استعمال کتابیں، لباس، فرنیچر اور دیگر ساز و سامان رکھ کر ٹکٹ لگادیا جائے تو کتنی آمدنی ہو سکتی ہے؟

کیا اسٹوڈنٹس سٹڈی ٹورز پر جوق در جوق یہاں نہ آئیں گے؟ غیر ملکی سیاح تو ایسی چیزوں میں بہت کشش محسوس کرتے ہیں، کیا انہیں راغب کرنے کے لیے یہاں ڈاکٹر سلام کے نام پر کوئی عمارت کھڑی کر کے ایک ادارہ نہ بنایا جاسکتا ہے؟ کیا کسی این جی او یا عالمی ادارے سے اس ضمن میں کوئی گرانٹ نہ حاصل کی جا سکتی ہے؟ کچھ عرصہ قبل خاکسار کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے بتایا تھا کہ کوئی این جی او ڈاکٹر سلام کی اس آئے پیدائش کے اردگرد مکانات خرید کر یہاں کوئی میوزیم بنانے میں دلچسپی لے رہی تھی لیکن پاکستان کے متعلقہ حکام اس سے فنڈز خود لے کر خرچ کرنے پر بضد تھے اور وہ این جی او اس بات پر تیار نہ ہوئی کہ شاید اسے علم تھا کہ فنڈز کھوہ کھاتے ہو جانے تھے اور پھر وہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور آج تک اس جگہ کچھ بھی نہ ہوا ہے بلکہ اگر آپ اس نامور اور محفوظ قرار دی جانے والی جائے پیدائش کا جائزہ لیں تو آپ کا دل خون کے آنسو رونے لگ جائے گا کہ ہم اپنے ہیروز اور قوم و ملک کا نام روشن کرنے والوں کے ساتھ کیسا بے حسی والا سلوک کرتے ہیں۔

خاکسار نے کبھی نہ دیکھا ہے کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اس جائے پیدائش کو کبھی دیکھنے بھی آئے ہوں لیکن یہ تو تب ہو جب حکومت کے متعلقہ محکمے اس ضمن میں کوئی متحرک اور متاثر کن کردار ادا کرنے کی طرف آئیں، المیہ ہے کہ جھنگ کے ”محلہ چین پورہ“ میں موجود اس جائے پیدائش بارے حکمرانوں کو نہ تو خبر ہے اور نہ ہی کوئی فکر، اگر حکمران چاہیں تو ایسی جگہوں کو منفعت بخش پوائنٹ بنانے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں بس اس کے لیے انہیں یہاں کسی قابل افسر کو بھیج کر فزیبیلٹی رپورٹ تیار کروانی ہوگی۔

شہر کی سڑکیں مثالی بنا کر اور ایک دو اچھے ہوٹل تعمیر کر کے اس جگہ کی پبلسٹی بہت سے بہترین نتائج دے سکتی ہے لیکن کیا ایسا کرنے کی سوچ کسی دماغ میں جگہ پا سکتی ہے؟ جہاں تک خاکسار کا خیال ہے نہ ایسا پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اب ہوگا کہ ہماری ترجیحات کچھ اور طرز کی رہی ہیں ہمیشہ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ڈاکٹر سلام کی بجائے کچھ دوسرے اور ناپسندیدہ ناموں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں اور اس میں سراسر قصور ان ذمے داران کا ہے جو توجہ دلانے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوتے ہیں۔

آخر میں یہی کہنا ہے کہ ڈاکٹر سلام اور نوبل انعام کا حوالہ صرف پاکستان سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے کہ ناروے کی کمیٹی نے بھی فزکس میں حیرت انگیز، اعلی اور زبردست کام سامنے آنے اور خاصی عالمانہ جانچ پرکھ کے بعد انہیں یہ اعزاز عنایت کیا تھا نہ کہ کسی مذہبی شناخت کی وجہ سے ایسا ہوا تھا اور جو احمق اور کند ذہن ایسا سوچتے ہیں ان کی عقلوں پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments