ملالہ اور ہم پاکستانی عوام



ملالہ یوسفزئی کے بیان پہ بہت بحث ہو چکی ہے۔ اس سارے قضیے میں مفتی پوپلزئی اور ملالہ کے والد کی ٹویٹر چیٹ پڑھنے والی ہے۔ مفتی صاحب نے  نہایت مناسب الفاظ میں سوالات پوچھے جس کے جواب میں ملالہ کے والد نے خوش اخلاقی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ کا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا جیسا سمجھا گیا اور ویسے بھی اس کی بات کو سیاق سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔ ملالہ نے دیسی ماؤں کی بچیوں کی شادی کو لے کر فکرمندی پہ بات کی تھی کہ اماں کہتی رہتی ہیں کہ فلاں کا رشتہ آیا ہے فلاں کا رشتہ آیا ہے جواب میں ملالہ نے یہ بات کی کہ پارٹنر کو پانے کے لیے نکاح نامے پہ دستخط ضروری تو نہیں۔

یعنی جب وقت آئے گا یعنی جب ان کو کوئی پارٹنر مل جائے گا تو شادی بھی کر لیں گی۔ دیسی مائیں جب تک نکاح ناموں پہ دستخط نہ کرا دیں ان کی فکر ہی ختم نہیں ہوتی۔ اصولاً یہاں بات ختم ہو جانی چاہیے تھی اک پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا دوسری پارٹی نے کہا ایسی کوئی بات نہیں آپ مطمئن رہیں۔ لیکن ہماری عوام کو تب تک چین نہیں پڑتا جب تک وہ ملالہ کو ایجنٹ یہودی ملحد وغیرہ نہ ثابت کر دے اور دوسری طرف دفاعی پارٹی بھی تب تک نچلے نہیں بیٹھتی جب تک ملالہ کے بیان کی افادیت کے ایسے ایسے پہلو پہ روشنی نہ ڈال لے جو خود ملالہ کو بھی معلوم نہ ہوں جنہیں پڑھ کر ملالہ سوچے ہیں کیا واقعی میں اتنی ذہین ہوں۔ ملالہ اک ٹین ایجر بچی ہے ہم نجانے کیوں اس سے ستر سالہ بزرگوں والے رویے کی توقع رکھتے ہیں۔

نکاح نامے پہ دستخط کرنا نہ کرنا اک نان ایشو تھا نکاح نامہ ایوب دور میں متعارف کرایا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ تب انہی مذہب پسندوں نے نکاح نامے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا تھا بالکل ایسے ہی جیسے لاؤڈ سپیکر ٹیلی ویژن موبائل کیمرے ویڈیو وغیرہ کو غیر اسلامی قرار دیا گیا اور آج تمام مولانا حضرات اسے اپنے ’اسلامی پیغام‘ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خیر ہماری قوم اگر اس نان ایشو کو ہفتہ بھر ہاٹ ایشو نہ بناتی تو اس کے سابقہ ریکارڈ پہ حرف نہ آ جاتا۔

لہذا نکاح مسیار سے لے کر نکاح متعہ تک ڈسکس کیا گیا۔ نبی اکرم ص کے پہلے نکاح حتیٰ کہ نکاح خواں تک پہ بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اب یہ نیا موازنہ سامنے آیا ہے۔ اے پی ایس سانحے میں گولیاں کھانے والا ولید خان جو پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا وہ ہمارا ہیرو ہے اور ملالہ چونکہ گولی کھانے کے بعد باہر چلی گئی اس لیے وہ ہماری ہیرو نہیں ہے۔

ولید دیگر بچوں کے ساتھ سکول میں پڑھ رہا تھا جب دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ جب کہ ادھر ملالہ کا سکول بند تھا اور وہ اسے کھلوانے کے لیے تگ و دو میں لگی تھی۔ کبھی پہچان چھپا کر بی بی سی کے لیے گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر تو کبھی اپنی پہچان کے ساتھ بہادری سے طالبان کو للکار کر۔

ولید دیگر سینکڑوں بچوں کے ساتھ دہشتگردوں کا نشانہ بنا جب کہ ملالہ کو باقاعدہ نام پوچھ کر گولی ماری گئی۔ ولید مظلوم ہے سروائیور ہے لیکن وہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ نہیں جب کہ ملالہ ان کا ٹارگٹ ہے اس کی جان کو یہاں خطرات لاحق ہیں۔ پھر بھی اس کا کہنا ہے وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان لوٹے گی اور سیاست میں حصہ لے گی۔ شہید بے نظیر بھٹو اس کی پسندیدہ ترین شخصیت ہے وہ ان کی طرح وزیراعظم پاکستان بننا چاہتی ہے۔

پھر یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ ولید نے پاکستان نہیں چھوڑا۔ ملالہ کی ہی مدد سے ولید کے چہرے کی کئی سرجریز ہوئی ہیں اور ملالہ نے ہی اپنے خرچ پہ اسے برطانیہ بلایا ہے۔ ولید آج کل برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے۔

آپ ملالہ کو پسند کریں یا نہ کریں یہ آپ کی چوائس ہے مگر اس بچی کے خلاف پروپیگنڈا نہ کریں یوں جھوٹے دعووں پہ مبنی موازنے نہ کریں۔ وہ ٹین ایجر بچی ہے اس سے اس کا لڑکپن مت چھینیں۔

ملالہ اگر سمجھدار ہے تو ان جیسوں کے سامنے اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لیے پاکستان نہیں آئے گی۔ یہاں پہلے نوبل یافتہ سائنسدان کا جو حال ہوا تھا ملالہ کا بھی وہی ہو گا۔

وہاں رہ کر کم از کم وہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے غریب بچے بچیوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کے اسباب تو پیدا کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments