خود سوزی: زندگی سے فرار کیوں؟



قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

حیات عالم کے بحر ناپیدا کنار میں انسان کی زندگی اس حباب کی مانند ہے جس کا سطح آب پر پیدا ہونا ہی اس کے ناپید ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ اگرچہ حباب کا بھنور کی نذر ہونا طے ہوتا ہے، لیکن پھر بھی یہ اپنی حیات منوا کے ہی دم لیتا ہے! حباب اپنے ہونے کا احساس دلا کر ہی فنا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کو بھی اپنے ”ہونے“ کا عکس چھوڑ کر ہی ملک عدم کا مسافر ہونا ہوتا ہے۔ یہی کچھ وقفے کے لئے انسان کا ”ہونے“ کے بعد ”نہ ہونے“ پر راضی رہنا ہی اس کا اصل امتحان ہے۔

اس امتحان کا اندازہ انسان کے دنیا میں آتے ہوئے ہی ہوجاتا ہے۔ دوران پیدائش دنیا میں ہر آنے والے بچے کی چیخ ہمیں دراصل فلسفہ زندگی سے روشناس کراتی ہے۔ سائنسی طور پر اس چیخ کی جو بھی توضیح کی جائے، دنیائے تمثیلات میں اس سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انسان دنیا میں آتے ہی اس بات کو بھانپ لیتا ہے کہ دنیا انسان کے لئے کسی صورت میں پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ایک گہوارہ ہے۔

بچے کی اس ولادت کو اگر اس کے والدین کی اس کی پیدائش سے قبل سہی ہوئی اور اس کی ولادت کے معا ”بعد شروع ہونے والی محنت شاقہ سے جوڑ کر دیکھا جائے تو زندگی کی تمہید کی تصویر ہی کچھ اس انداز کی بنتی ہے کہ جس میں ہمت، حوصلے، استقلال اور امید کے عناصر ترکیبی اینٹ گارے کی طرح نظر آتے ہیں۔ حیات انسانی کی یہ“ تمہید ”جو اصطلاحی اعتبار سے“ مہد ”سے نکلی ہے، صرف بچے کی قلقاریوں سے ہی عبارت نہیں ہے، بلکہ ماں کی گود سے ہی انسان گرنے اور سنبھلنے کے تجربات سے کچھ اس طرح گزرتا ہے کہ وہ“ پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹتے ”کی مشق کرتا رہتا ہے!

نفسیاتی اعتبار سے ماں کی گود اور گہوارے کے ساتھ ساتھ گھر کی دہلیز اور آنگن بچے کے لئے ایک نرالے معمل (تجربہ گاہ) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہیں سے بچہ بناو اور بگاڑ کے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اپنی جبلتوں کے تحت بچہ جب بھی کوئی بناو کا کام کر گزرتا ہے تو ماں کی گود میں جاکر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور جب اس سے کوئی بگاڑ کا کام سرزد ہوتا ہے تو اسی گود میں جاکر بچہ پناہ لیتا ہے۔ بچہ کوئی چیز بناتا ہے تو اس کی مسرت دیدنی ہوتی ہے اور جب اس کے ننھے ہاتھوں سے کوئی چیز توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی ہے تو اس کی افسردگی بھی قابل غور ہوتی ہے۔ جب بچہ کسی اونچائی پر چڑھتا ہے تو اس کی فاتحانہ مسکراہٹ دلوں کو موہ لیتی ہے اور جب یہ اونچائی سر کرنے کی کشمکش میں لڑھک جاتا ہے تو یہ ذرا سا دلاسا اور تھوڑا سا حوصلہ ملتے ہی پھر سے یہی جستجو کرنے لگ جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ بچے کی فطرت ہار، شکست اور نا امیدی سے ناآشنا ہوتی ہے۔ اس کی سرشت میں اگر کوئی چیز بھر پور انداز میں موجود ہوتی ہے تو وہ ہے فطرت، جس میں اس کی اپنی فطرت بھی بدرجہ اتم موجود ہے، کے راز ہائے سربستہ کو مبرہن کرنے کی جستجو اور سرفروشی کا جذبہ جو بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ نشوونما پاتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ارتقاء پذیر شخصیت میں جو صلاحیت اور قابلیت بالقوہ موجود ہوتی ہے وہ امکانات کی ایک اتھاہ کائنات بن کر بالفعل سامنے آجاتی ہے بشرطیکہ اسے معاشرے کی وسیع تر تجربہ گاہ میں مواقع فراہم کیے جائیں۔ انسان کو یہ مواقع معاشرے کے وہ تمدنی ادارے فراہم کرتے ہیں جنہیں معاشرہ اپنے روایتی سرمایہ کی حفاظت، دوام بخشنے اور اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کے لئے قائم کرتا ہے۔

مختلف مراحل کے تدریجی عمل سے گزر کر انسان کی وہ شخصیت ابھر کر سامنے آجاتی ہے جسے خالق کائنات نے بنیادی طور پر ایک ”بہترین ساخت“ (احسن التقویم) میں تخلیق کیا ہوا ہوتا ہے۔ اب یہ شخصیت اس مقام پر کھڑی ہوتی ہے جہاں اس کے بارے میں یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا کہ رب کائنات نے بنی آدم کی عزت افزائی (تکریم) کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ انسانی شخصیت کا اس سطح پر آجانا خالق کائنات کی تخلیق اور اس کے قائم کردہ قوانین فطرت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مختلف اداروں کے تعامل و تعاون کا رہین منت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسانی شخصیت پر اپنے عروج اور کمال کو پہنچ کر تین طرح کے حقوق ادا کرنا لازم قرار پاتے ہیں۔ اول، اپنے خالق کے حقوق جس نے اسے بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا؛ دوم، معاشرے کے حقوق جس نے اسے پروان چڑھنے میں تعاون کیا؛ اور سوم، خود اپنی ذات کے حقوق جو ذات اپنے آپ میں ایک ایسا شاہکار ہے جو امکانات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے۔ خالق کے حقوق ادا کرنے سے یہ اس منصوبے (اسکیم) کا حصہ بنتا ہے جس کے تحت خالق نے پوری کائنات تخلیق فرمائی۔ معاشرے کے حقوق کی ادائیگی سے اسے ایک با معنی زندگی گزارنا نصیب ہوتی ہے، جبکہ خود اپنی ذات کے حقوق ادا کرنے سے اس کی شخصیت کو ایک توازن اور نکھار حاصل ہوتا ہے۔

اب اگر انسان زندگی کے اس مقام پر پہنچ کر خود سوزی جیسا انتہائی اقدام کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ انہی حقوق کو ادا کرنے سے دراصل جی چراتا ہے۔ خود سوزی کی وجہ جو بھی ہو، نفسیاتی طور پر اس کے پیچھے قنوطیت، مایوسی اور کم ہمتی کے جذبات ہوتے ہیں۔ خود سوزی کرنے والا زبان حال سے اعلان کرتا ہے کہ خالق کی اس تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے۔ خود کو ختم کر کے وہ ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جس کا اختیار خالق کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔

خود سوزی کا یہ جرم قتل ناحق سے زیادہ قبیح ہے کیونکہ ایک تو یہ زندگی کے مسلم اور تلخ حقائق سے فرار کا اعلان اور اظہار ہوتا ہے اور دوسرا اس فعل کے بعد توبہ و اصلاح کے وہ تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں جو قاتل ناحق کو مہیا اور میسر ہوتے ہیں۔ خود سوزی کا جرم معاشرے کے لئے ایک طرح کی غداری ہوتی ہے، کیوں کہ جس معاشرے کے مختلف عوامل نے مل کر اس شخص کی پرورش و پرداخت میں اپنا حصہ ڈالا اور جسے اس شخص کے ساتھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، اسی معاشرے کو اس نے دھوکا دیا۔

خود سوزی کرنے والا سب سے زیادہ اور بڑا نقصان اپنی ذات کا کرتا ہے کیونکہ وہ ان تمام امکانات کا گلا گھونٹ دیتا ہے جو اس کی شخصیت میں پنہاں ہوتے ہیں۔ فلسفے کی زبان میں اگر کائنات میکروکوسم ہے تو انسان مائکروکوسم ہے! اس طرح نظام صغیر (مائکروکوسم) کو ختم کرنے والے انسان کو نظام کبیر (میکروکوسم) میں خلفشار پیدا کرنے والا گردانا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کے قتل ناحق کو قتل انسانیت قرار دیا گیا ہے۔

خود سوزی کے فعل کی شناخت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس سے معاشرے میں ایک ایسی روایت چل پڑتی ہے جس کو روکنا پھر نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک اچھی روایت کو قائم کرنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں جبکہ ایک بری روایت بہت کم عرصے میں رواج پا جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ خود سوزی کو زندگی کے مسائل کا حل تصور کریں، ان کی کوئی اعلی اور ارفع نظریاتی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ زندگی بے شک مسائل اور مشکلات ہی سے عبارت ہے، لیکن ان ہی مشکلات پر قابو پاکر فرد کی انسانی قدر آشکارا ہوتی ہے۔ جو انسان انفرادی مشکلات سے سہم کر خود سوزی کی راہ فرار اختیار کرے وہ قومی اور بین الانسانی و بین الاقوامی مسائل کی وادی خارزار میں کیسے قدم رکھ سکتا ہے!

ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں خود سوزی کی روایت سرایت کر جائے وہ اعلی انسانی اقدار و روایات کی خاطر کہاں کھڑا ہو سکتا ہے، جہاں ہر طرح کے مصائب و شدائد کا بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور زبان پر شکوہ و شکایت کے الفاظ تک لانا منع ہوتا ہے۔ تاریخ عالم ایسے مصلحین اور محسنین اقوام کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر ظلم سہ کر کسی یاس اور افسردگی کے بغیر اپنی قوم کے بیڑے کو پار لگا کر نئی زندگی بخشی۔

تاریخ نے حق کے ان علمبرداروں کی داستانیں بھی رقم کی ہیں جن کے جسم کو آری سے چیرا گیا، لیکن وہ حق سے دستبردار نہیں ہوئے۔ کئیوں کے بدن کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچا گیا لیکن وہ اللہ کی وحدانیت کا آوازہ بلند کرتے رہے۔ کتنے صاحب عظیمت ایسے بھی گزرے ہیں جن کی چربی نے ان انگاروں کو بجھایا جن پر انہیں ظالموں نے لٹایا تھا، لیکن ان کی زبان ”احد احد“ کی لے سے تر رہی!

الغرض، یہ اعلی نصب العین اور عظیم مقصد حیات ہی ہے جو فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی شاہراہ ہستی پر مشکلات کے علی الرغم رواں دواں رکھتا ہے۔ ان افراد کو یہ حقیقت مستحضر رہتی ہے کہ انسان کو مشکلات (کبد، قرآن) کے ساتھ دنیا میں لایا گیا ہے اور مشکلات (چیلنجز) کو سر کر کے ہی رزم گاہ حیات میں سرگرم رہ کر خیر سمیٹنا ہے اور اسی حال میں دنیا سے رخصت ہو کر خدا سے ملاقی ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد حال میں جیتے ہیں۔ ان کو ماضی کے وسوسے ستاتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے اندیشے انہیں نیکی پر گامزن رہنے سے روکتے ہیں۔ چونکہ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد ہوتی ہے، اس لئے خود سوزی ان پر حرام ہوتی ہے!

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments