پاکستان ریلوے میں سفر کرنے سے اجتناب برتنا پڑے گا


کل گھوٹکی میں جو ٹرین کے حادثہ پیش آیا۔ اس کا سن کر بہت دل برداشتہ ہوا۔ اس حادثہ میں لگ بھگ 40 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ 100 افراد سے زائد زخمی ہیں۔ اس حادثہ کو میں کیا نام دوں۔ اس میں آخر مجرم کون ہے۔ عمران خان صاحب کے دور میں یہ چوتھی بار رونما ہور ہا ہے۔ ان حادثات میں جہاں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ دوسری طرف حکومتوں کی جانب سے اتنی غفلت برتی گئی۔ اگر موجودہ حکومت کی بات کریں تو عمران خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر ریلوے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے تو وزیرریلوے کو استعفی دینا چاہیے لیکن اس کا اطلاق خان صاحب کے اپنے وزرا پر نہ ہو سکا۔

اگر ہم ریلوے کے ساتھ جو حادثات پیش آئے ہیں اگر ان کی تھوڑی ہسٹری دیکھی جائے تو وہ یہ ہوگی۔ پاکستان ریلوے میں جو سب سے بڑا حادثہ پیش آیا تھا وہ 4 جنوری 1990 میں پیش آیا۔ یہ حادثہ صوبہ سندھ سکھر کے سانگھی نامی گاؤں میں پیش آیا جب بہا الدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی جا رہی تھی۔ اس حادثے میں لگ بھگ 307 افراد لقمہ اجل بنے۔ بالکل اسی طرح کا واقع 13 جولائی 2005 کو پیش آیا اس میں 120 افراد جان کی بازی ہارے۔

اسی طرح اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے حادثات پیش آتے رہے۔ لیکن میں نے یہاں بڑے حادثات کو موضوع تحریر بنایا ہے تو میں انہی کا ذکر کر رہا ہوں۔ اسی نوعیت کا حادثہ 2 جولائی 2015 کو ہوا۔ جب 3 بوگیاں گجرانوالہ میں ایک نہر میں گر گئیں۔ اس حادثہ میں بھی 19 جانیں گئیں۔ 17 نومبر 2015 کو جعفر ایکسپریس کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے جس میں کم وبیش 20 افراد کی جان چلی جاتی ہے۔ لگ بھگ ایک سال بعد 3 نومبر 2016 کو بہا الدین زکریا ایکسپریس اور فرید ایکسپریس آپس میں ٹکرا جاتی ہے۔

یہاں پر بھی 21 جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ اب ذکر ہو گا ان واقعات جو عمران خان کے دور حکومت میں پیش آئے۔ اس میں سب سے پہلا واقع 11 جولائی 2019 کو پیش آیا۔ اس حادثے میں 21 افراد لقمہ اجل بنے اور 100 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ میرے نزدیک جو سب سے زیادہ تکلیف والا حادثہ تھا وہ تیز گام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ویسے تو سارے حادثے تکلیف دہ ہیں۔ لیکن 31 اکتوبر 2019 کو تیز گام ایکسپریس میں آگ بھڑک اٹھی اور اس حادثے میں 75 افراد جھلس گئے اور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اگر اور حادثے کی بات کی جائے تو 3 جولائی 2020 کو شیخوپورہ میں رونما ہوا۔ جس میں 20 افراد حادثہ 7 جون 2021 کو گھوٹکی میں پیش آیا جب ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس آپس میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں 38 افراد لقمہ اجل بنے اور 48 زخمی ہوئے۔

جتنے حادثات مین اوپر ذکر کیا ہے اکثریت میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہر جگہ ان حادثات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ لیکن کسی ایک حادثے کی رپورٹ پیش کی ہو اور ان واقعات میں غفلت برتنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہو۔ حکومتی وزرا کی طرف سے ہلاک ہونے والوں کے لیے اتنے لاکھ اور زخمیوں کے لیے اتنے لاکھ امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کیا دنیا کے چند چند سکے انسانی زندگی کا نعم البدل ہوسکتے ہیں کیا ہر گز نہیں۔

ان کے ورثا حق مانگتے ہیں جو کہ آج تک کسی بھی حادثے میں غفلت کرنے والے کو سزا دے کے کیا گیا ہو۔ ان حادثات میں میڈیا کا کردار دیدنی ہوتا ہے وہ 1 یا 2 دن اس خبر کو نشر کرتے ہین۔ جب وزیر کمیٹی بنانے کا اعلان کرتا اور ساتھ متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کرتا ہے تو اس کے بعد میڈیا خبر چلا کے بھول جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر چیز نارمل چلنے لگتی ہے نقصان ہوتا ہے تو غریب کا ہوتا ہے جان جاتی ہے تو غریب کی جاتی ہے بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کا اس سے کیا۔

ان واقعات کو دیکھ کر میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ لیہ سے اسلام آباد آنے کے لیے ریلوے پر سفر نہیں کروں گا۔ میں نے ہمیشہ ریلوے کو ترجیح دی ہے لیکن ان حادثات نے مجھے بہت ڈرا دیا ہے۔ اگر حکومت نے ان واقعات کو سنجیدہ نہ لیا تو بہت سے افراد جو کہ میری طرح پاکستان ریلوے پر سفر کرنے سے اس میں سفر کرنے سے اجتناب کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments