فش کے ساتھ اردو بھی فنش ۔ (ٹیچر کی ڈائری)



برگر فیملی کی اصطلاح ان گھرانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو شہر کے پوش ایریا کے بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ نوکروں سے بات کرنے کے لیے ایک الگ ملازم یا ملازمہ ہوتی ہے۔ جسے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور ہوتا ہے۔ یہ اپنے مخصوص لباس اور لہجے سے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طبقے کو اردو زبان کی علالت، بستر مرگ اور اور اس کی میت اٹھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ نہ ہی اسکول کے انتخاب میں یہ اپنی نیندیں حرام کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے بچے گرین کارڈ ہولڈر ہوتے ہیں اس لیے یہ اسکول میں داخلے کے وقت اپنے بچے کو اردو کے مضمون سے مستثنیٰ کروا دیتے ہیں۔

نچلے طبقے کی اصطلاح جن گھرانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، وہاں زبان پر پیش اور زبر کی تفریق کا خیال کم، اور زبان سے پیٹ میں لقمہ جانے کا خیال زیادہ ہوتا ہے اس لیے یہ کسی بھی قومی مسئلے کی فکر سے بے نیاز رہتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں بقیہ گھرانوں کی، ان گھرانوں کے افراد کے دل دینی، قومی، ملی، اور تہذیبی جذبات سے امڈے پڑتے ہیں، زبان ان جذبات کے زیر اثر شعلہ بیانی میں مصروف اور روح کفار کے غلبے کے خلاف جہاد کے عزم نو سے سرشار رہتی ہے۔ اردو زبان کے لب دم ہونے پر یہ چراغ پا رہتے ہیں۔ انگریزی زبان کی مقتدرہ اداروں میں سرکاری حیثیت، مادری زبانوں کی کم مائگی پر ببانگ دہل لب کشائی کرتے ہیں۔ یہودیوں کی ”بے ضرر“ اشیا کے استعمال کے خلاف ان کا احتجاج جاری رہتا ہے مگر، بچے کی تعلیم کا سوال ہو تو شہر کے بہترین انگریزی میڈیم اسکولوں میں سے ہی کسی کا انتخاب کیا جا تا ہے۔

نامی گرامی اسکولوں کے علاوہ، کئی اسکول ایسے بھی ہیں جو معیاری تعلیم کے ساتھ مناسب فیس لیتے ہیں۔ ان میں اساتذہ بھی عام اسکولوں سے پڑھے ہوئے، سفید پوش گھروں سے تعلق رکھتے ہیں انہیں انگریزی بول چال، لکھنے پڑھنے میں اپنی استعداد سے زیادہ مہارت حاصل ہوتی ہے جو یقیناً قابل ستائش ہے۔ اوسط یا کم آمدنی رکھنے والے والدین اسکول میں حاصل ہونے والی معیاری تعلیم اور اساتذہ کی اہلیت کو سراہنے کے بجائے وہ اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی نہیں بولتا۔ اس ضمن میں وہ اپنے گہرے مشاہدے کی روشنی میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسکول میں انگریزی بول چال کا ماحول نہیں، بچے اور اساتذہ بھی آپس میں اردو میں بات کرتے ہیں، تو بچے کو انگریزی کہاں سے آئے گی۔

ہم نے اپنے عمومی مشاہدے کی روشنی میں دیکھا کہ ان گھرانوں میں والدین اپنے بچے سے بہت زیادہ انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ مثلاً، میرا بچہ مینگو شوق سے کھاتا ہے، مگر ایپل نہیں کھاتا۔ وہ دیکھو کیٹ۔ انکل سے ہینڈ شیک کرو۔

چلو سبق ریڈ کرو۔ فین آن کرو۔ ایگ کھاؤ گے۔ ہینڈ واش کرو۔ آنٹی کو ٹو کا ٹیبل سناؤ۔ ڈور بند کرو۔ بیٹا! تم نے فش، فنش نہیں کی۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی نسل اردو لکھنے پڑھنے کی طرف خود کو مائل نہیں کر پا رہی ہے۔ امتحان میں مجموعی کارکردگی کی بہتری اور اردو کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں بچے کے سامنے ہر لفظ اردو کا بولا جائے۔ اس کے املا، اور ہجے پر دھیان دیا جائے۔ بچے کے ہوش سنبھالتے ہی اردو پر فوکس کریں، خالصتاً جملوں میں اردو الفاظ کا استعمال کریں، فش، ڈوگ، کیٹ تو وہ پلے گروپ میں جان ہی جائے گا، اردو میں اس کی بنیاد اچھی ہو گئی تو بچے کا مجموعی نتیجہ بہتر آئے گا

ایک وقت وہ بھی تھا جب میرے دو بڑے بیٹے ایسے اسکول میں پڑھ رہے تھے جہاں ٹیچرز کی انگریزی تو کجا اردو بھی ٹھیک نہیں تھی۔ تین سو روپے فیس میں کچھ زیادہ کی توقع کرنا فضول ہی ہے۔ میں بھی عام ماؤں کی طرح بچوں کی بہتر انگریزی کی خواہاں تھی۔ بچے ٹی وی پر جیوگرافک، ڈسکوری اور کارٹون چینل شوق سے دیکھتے، انگریزی فلمیں دیکھتے۔ ہم نے انہیں انگریزی کہانیوں کی رنگا رنگ کتابیں لاکر دیں۔ نیٹ پر دوستوں سے چیٹنگ اور گیم کھیلتے۔

اندر ہی اندر ڈرتی تھی کہ ”بچے جانے کیا دیکھ لیں“ لیکن میرے میاں نے کہا کہ کسی روک ٹوک یا سن گن لینے کی ضرورت نہیں، ورنہ یہ تجسس کے مارے دوستوں کے ہاں یا چھپ کر وہ سب دیکھیں گے جنہیں ہم قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ ہم نے بچوں کو مشورہ دیا کہ دونوں بھائی آپس میں انگریزی میں بات کیا کریں، وقت کے ساتھ ان کی انگریزی بہتر ہوتی چلی گئی۔ کیوں کہ اردو اچھی تھی اس لیے انگریزی میں بھی تخلیقی صلاحیت ابھر کر سامنے آئی۔

یوں بھی موجودہ دور انگریزی سیکھنے کے حوالے سے بہت آسان ہے۔ اسکول میں سارے سبجیکٹس انگلش میں ہوتے ہیں، بذریعہ انٹرنیٹ وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ملکی، غیر ملکی دوست بناتے ہیں ان سے انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں۔ کئی بچے محض اپنی انگریزی بہتر کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کال سینٹر میں نوکری کرتے ہیں۔ اس دور میں انگریزی بہتر ہوتا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن انگریزی زبان سیکھنے کے ہیجان میں بچے کی اردو پر عدم توجہی کا خمیازہ اردو زبان کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ فش کے ساتھ اردو بھی فنش ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments