کیا کینسر صرف 60 روپے کا ہے؟


پاکستان میں 2 کروڑ 90 لاکھ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ 1 لاکھ 60 ہزار ہر سال زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 60 فیصد سگریٹ نوشی نوعمری میں شروع کی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں دنیا بھر کے مقابلے میں سستے ترین سگریٹس کی دستیابی ہے جس سے نہ صرف نوجوان اس لت کا شکار ہوتے ہیں بلکہ کچھ کیسز میں سگریٹ نوشی شروع کرنے کی عمر 6 سال ہے۔

پاکستان میں معاشی ترقی کے ادارے پائیڈ کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ تمباکو نوشی سے اموات اور بیماریوں سے ملک کو ہر سال 615 ارب سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس رقم کا 71 فیصد صرف سرطان، امراض قلب اور پھیپھڑوں کی بیماریوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ رقم سگریٹ کمپنیوں سے حاصل کردہ ٹیکس سے بھی 5 گنا زیادہ ہے۔

ایک تحقیقی مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جنوبی ایشین خطے میں پاکستان میں سگریٹ کی قیمتیں سب سے سستی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ ایسے نقصانات کا تدارک کرنے کا بہترین طریقہ سگریٹ کی قیمت میں اضافہ ہے، یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا میں سستا ترین سگریٹ بیچنے والا ملک ہے۔ سگریٹ کی کم کہ وجہ سے روزانہ ہزاروں بچے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بچے تو اسے اپنے جیب خرچ سے ہی خرید لیتے ہیں۔ حکومت نے 2017 میں ایک کم لاگت والے برانڈ 20 سگریٹ کے پیکٹ کی مقرر کردہ کم سے کم قیمت خرید صرف 47.38 روپے رکھی تھی، جو 2019 میں بڑھا کر صرف 62.75 روپے کردی گئی تھی۔ 2020 جولائی کے بجٹ میں بھی تمباکو کے ٹیکس پچھلے سال کی طرح ہی رہے۔

یعنی کہ ہمارے ہاں موت تو بہت سستی ہے لیکن زندگی اتنی ہی مہنگی۔ تمباکو نوشی کے عادی غریب طبقے سے وابستہ افراد 60 روپے کی موت تو بآسانی خرید لیتے ہیں جبکہ اس کے باعث کینسر جیسے مہلک اور مہنگے مرض سے لڑ نہیں پاتے کیونکہ اس کا علاج اتنا مہنگا ہوتا ہے عام آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شوکت خانم ہسپتال کی ویب سائٹ پر بتائی گئی تفصیلات کے مطابق اس کے ایک سال کے علاج کا لگ بھگ خرچہ کچھ اس طرح ہوتا ہے ؛

سرجری پر 3،00،000 روپے، ریڈی ایشن کے لئے 1،25،000 روپے، کیموتھراپی کے لئے 1،50،000 روپے جبکہ کل لاگت تقریباً 10،75،000 روپے تک آتی ہے۔ اب کہاں 60 روپے کا کینسر اور کہاں یہ 10، 75، 000 روپے کی نئی زندگی۔

حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ کی قیمتوں کو کم از کم ہمسایہ ممالک کے برابر تو لے کر آئیں۔ جیسا کہ بھارت میں اس کی قیمت خرید 39۔ 4 ڈالر ہے، جبکہ چائنہ میں 13۔ 3 ڈالر ہے اور ان کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے کم صرف 58۔ 1 ڈالر ہے۔

اگر سگریٹ کی قیمت بڑھا دی جائے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟

سگریٹ کی قیمت میں 10 فیصد اضافے سے فوری طور پر 5 فیصد تمباکو نوشی میں کمی ہوگی، اگر مہنگائی کے تناسب سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے تو 10 فیصد تمباکو نوشی کو کم کیا جا سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق سگریٹ مہنگی کرنے سے سب سے زیادہ نوجوان تمباکو نوشی ترک کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں یہ رجحان بوڑھے افراد سے 2 گنا ہے۔ سگریٹ نوشوں میں 10 فیصد کمی کا مطلب پاکستانی معیشت کو 60 ارب روپے سالانہ کی بچت جبکہ 16 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے گا۔ بہت سے ممالک نے سگریٹ کی قیمت میں 70 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔

پالیسی ساز سگریٹ مافیا کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران سگریٹ پر ایکسائز ٹیکس میں ایک فیصد بھی اضافہ نا ہو سکا۔ پاکستان میں سگریٹ پر ایکسائز ٹیکس 2016 میں جو 25۔2 تھا اس سے بھی مزید کم ہو کر 88۔0 پر آن پہنچا ہے۔ جس کے باعث جنوبی ایشین خطے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سگریٹ کی قیمت سب سے کم ہیں۔

اب وقت ہے درست فیصلے کا، سیگریٹ کی قیمت بڑھائے اور جوانوں کی زندگیاں بچائیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب جس طرح آپ کینسر کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، اسی طرح سگریٹ مافیا کے خلاف بھی کارروائی کا حکمنامہ جاری کر کے آپ لاکھوں جانیں بچا سکتے ہیں۔ ان موت کے سوداگروں اور بین الاقوامی مافیا کو لگام آپ ہی ڈال سکتے ہیں۔ اس مافیا کو پاکستان کی معیشت اور عوام کی جان سے کھیلنے نا دیا جائے۔ بچوں کو تمباکو کے استعمال سے بچائیں، سگریٹ پر ایف ای ڈی میں کم از کم 30 فیصد اضافہ کریں۔ ان کی قوت خرید سے باہر ہونے کے لئے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ بہت ضروری ہے۔

پاکستان کو تمباکو کنٹرول کے سخت اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستان نے پہلے ہی تمباکو کنٹرول سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کر دیے ہیں اور اس کے بعد سے متعدد ٹیکس عائد کرنے کی پالیسیاں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں سگریٹ کے پیک پر عکاسی انتباہ؛ تمباکو نوشی پر پابندی؛ عوامی مقامات اور گاڑیوں میں ’سگریٹ نوشی نہیں‘ نا بالغوں کو سگریٹ بیچنے، فعال اشتہاری مہم اور مفت نمونوں کی تقسیم پر پابندی عائد شامل ہیں۔ تاہم پالیسیوں کا نفاذ عام طور پر کمزور ہوتا ہے اور یہ خدشات پیدا کرتے ہیں کہ پاکستان میں 2025 تک تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد تمباکو نوشی کرتے ہوں گے۔

اب یہ فیصلہ آپ کا وزیراعظم عمران خان؛
سگریٹ بنانے والی کمپنیاں یا پاکستانی نوجوان کی جان؟
References:
www.pure.york.ac.uk
www.numbeo.com
www.tobacconomics.org
www.thenews.pk


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments