آن لائن امتحانات اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا



دنیا نے کرونا وائرس کے بعد جو خد و خال اور شکل ماہیت اختیار کی ہے اسے دیکھ کر روز ایک نیا باب حیرت عیاں ہوتا ہے۔ گزرے برس جب یہ عفریت دنیا میں داخل ہوا تو حقیقت یہی ہے کہ ساری دنیا نہ صرف ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ بلکہ بڑی بڑی طاقتوں اور تھنک ٹینکس کی فلاسفریاں دھری رہ گئیں۔

مگر انسان کو اللہ نے بہترین نمونے پر تخلیق کیا ہے۔ اور اسے اشرف المخلوقات کا درجہ بھی اسی احسن تقویم کے باعث دیا گیا ہے۔ ایک برس انسان جو اس وبا کو سمجھنے اور اس کا سدباب اور مقابلہ کرنے کی کوشش میں گزرا اور الحمدللہ ویکسین بھی تیار ہو گئی اور اسے لگانے کے مراحل بھی طے ہو رہے ہیں بتدریج اور امید ہے کہ انسان اس عفریت کو شکست دینے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

کرونا وائرس نے جہاں انسانی صحت کو نقصان پہنچایا وہیں اس کا اثر سماجی رویے پر بھی بہت بری طرح اثر انداز ہوا۔ سماجی رابطے فون اور سوشل ایپس تک محدود ہو گئے۔ لوگوں کی سماجی زندگی بہت بری طرح متاثر ہوئی مذہبی اجتماعات سے لے کر شادی بیاہ و دیگر رسوم و رواج کو بھی بری طرح اس وبا نے نگل لیا۔

دنیا میں سفر کرنا محال ہو گیا حتی کہ ایک دوسرے کے غم خوشی میں بھی ایک دوسرے تک رسائی مشکل ہو گئی۔

لیکن راقم کے نزدیک اس وبا کا سب سے زیادہ نقصان اگر کسی فیکٹر یا سسٹم کو ہوا ہے تو وہ ہماری تعلیمی نظام ہے۔ باقی دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک نے تو پھر بھی اس سسٹم کو بچایا مگر پاکستان جو پہلے ہی تعلم کے مقابلے میں باقی دنیا سے کافی پیچھے ہے اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

آن لائن شاپنگ، آن لائن تعلقات استوار کرنے اور آن لائن تعلیم حاصل کرنے میں بے پناہ فرق ہے۔ اور اس کی چند بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ

اول تو ہمارے ملک میں پہلے ہی یکساں نظام تعلیم رائج نہیں پھر مزید ستم علیحدہ علیحدہ بورڈز اور ان کی اپنی اپنی پالیسیاں ہیں۔

دوم یہ پاکستان میں پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر میں شامل اسکولز اور جامعات میں پروفیشنل اساتذہ کی کمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمیں ان اساتذہ کی قابلیت پر شک ہے بلکہ دراصل پرائیویٹ سیکٹر میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ اکثریت اچھی ڈگریوں کے حامل ضرور ہیں مگر وہ تعلیم کی ان پروفیشنل باریکیوں سے آشنا نہیں ہیں جو ایک ایجوکیشن میں بیچلرز اور ماسٹرز کی پروفیشنل اسناد رکھنے والے اساتذہ ہوتا ہیں۔

کچھ بڑے اور انتہائی مہنگے اسکولز میں تو آن لائن تعلیم کا مناسب بندوبست کیا گیا مگر اکثریت اس ٹیکنالوجی یعنی آن لائن تعلیم کا مناسب انتظام نہ کر سکی جس کی وجہ سے گزشتہ برس بورڈز نے طالب علموں کو پچھلے رزلٹ دیکھتے ہوئے ترقی دے کر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر دیا۔

مگر یہ تو دو بنیادی وجوہات ہو گئیں بذریعہ مواصلات تدریسی عمل کی ناکامی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تدریسی اداروں کے پاس چیک اینڈ بیلنس کا آن لائن ایسا مربوط نظام ہی نہیں ہے کہ وہ گھر بیٹھے امتحانات کا عمل مکمل کروا سکیں۔

سو پچھلے سال تو پروموشن سے کام چلا لیا گیا مگر اب جبکہ دنیا کووڈ سے مقابلہ کر رہی ہے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے تو ایمانداری سے سوچیں کہ آن لائن امتحانات اور بنا امتحان لیے اگلی جماعتوں میں پروموشن کا مطالبہ کیوں؟

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ بے حد زوال کا شکار ہے یہاں تو درسگاہوں میں بیٹھ کر امتحان لینے کے دور میں بوٹی مافیا، نقل مافیا، پیپر لیک مافیا کا راج ہوتا تھا۔ اب تو سونے پہ سہاگا گھروں میں بیٹھ کر امتحان لینے کی فرمائش کی جا رہی ہے۔

والدین اور طالب علم جگہ جگہ احتجاج میں مصروف ہیں کہ امتحان آن لائن لیے جائیں اور وجہ دی جا رہی ہے جب فزیکل موجودگی میں کلاسیں نہیں ہوئیں تو امتحان کیوں فزیکل موجودگی میں لیے جائیں گے۔

ہم صرف اپنے ہنر مند والدین کے سامنے یہ سوال رکھنا چاہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے علاوہ جو وقت آپ باہر گزارتے ہیں کبھی اس میں بھی خود کا جائزہ لیں رمضان میں جتنا وقت آپ کو ملا آپ میلوں کی طرح جم غفیر کی شکل میں شاپنگ مالز میں گھومتے رہے۔ فوڈ اسٹریٹ پر بھی جم کے بسیار خوری کی گئی۔ خاندان کے شادی بیاہ پھر چاہے وہ فارم ہاؤس میں کیے گئے ہوں یا بڑے گھر کرائے پر لیے گئے ہوں آپ نے خوب دلجمعی سے شرکت کی۔

عید ملن پارٹیاں بھی حسب توفیق کی گئیں اور وہاں ایس او پیز تو دور کوئی احتیاط نہیں کی گئی۔

آج بھی خواتین و مرد حضرات مع اہل و عیال شاپنگ سینٹرز میں مصروف ہوتے ہیں تقریبات بھی ہو رہی ہیں سیر و تفریح بھی کی جا رہی ہے۔ غرض ہر کام کسی نہ کسی طریقے سے کیا ہی جا رہا ہے۔

لیکن جہاں بات امتحان لینے کی آئے وہاں شور ڈال دیا جاتا ہے احتجاج ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں۔

اگر آپ کے بچے امتحان سینٹرز پر جا کر دیں گے تو اس میں ان کا ہی فائدہ ہے۔ گھر میں بیٹھ کر بکس سامنے رکھ کر دینے والے امتحانات اور پروموشن کے ذریعے اگلے درجوں میں جانے سے صرف جہالت فروغ پا سکتی ہے۔ علم حاصل نہیں کیا جاسکتا اس لیے اپنے بچوں کو فزیکل امتحانات کے لیے تیار کریں تاکہ وہ علم حاصل کر سکیں صرف ڈگری نہیں

یقیناً بہت سارے طالب علم محنت کر کے ہی آن لائن امتحانات دیں گے مگر نہ تو ہمارے ملک میں اتنا مربوط کوئی نظام ہے کہ اس طریقے پر اچھے امتحانات لیے جا سکیں اور نہ ہی اس طرح آپ نقل چھاپ بوٹی مافیا اور اپنے بچوں کی تعلیم میں تفریق کر پائیں گے

سارے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور یہ صف نماز میں تو ضروری ہے مگر تعلیمی میدان میں اس صحیح اور ذہین بچوں کا نقصان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments