افغانستان کی ائندہ ممکنہ صورت حال اور پاکستان کے لیے خدشات۔


اکتوبر 2001 میں امریکہ کا افغانستان پر حملہ کا سبب 9 / 11 کا واقعہ بنا اور طویل جنگ کے اصل اہداف اسامہ بن لادن۔ القاعدہ اور افغانستان کی سرزمین سے اس کے خلاف سرگرم عسکری انتہا پسندوں تنظیموں کے عناصر اور مراکز کا خاتمہ تھا۔ افغانستان کے مقامی طالبان کے ساتھ امریکہ کا براہ راست جھگڑا یا کچھ بڑا عناد نہ تھا۔ اسامہ اور القاعدہ کے باعث افغانستان پر مسلط جنگ کا وہ شکار ہو گئے۔ ان کی حکومت کا خاتمہ تو جلد کر دیا گیا۔

مگر القاعدہ اور غیر ملکی جنگجووں کے مکمل صفایا کرانے کے لیے ان کے ساتھ امریکہ کی جنگ طول پکڑ گئی۔ ( امریکہ طالبان کی اس جنگ کے پاکستان پر بے پناہ اثرات پڑے جو الگ موضوع ہے ) وقت کے ساتھ یہ جنگ خود امریکہ کے لیے کافی جانی نقصان اور شدید مالی بوجھ بن رہا تھا۔ اپنے بنیادی اہداف کے حصول کے بعد افغانستان میں طویل عرصے تک ٹھہرنا بے فائدہ ثابت ہونے کے باعث باعزت طریقے سے نکلنے کی تگ و دو میں تھا۔ گزشتہ سال ( سابق ) صدر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدے طے کیا۔

اگرچہ بعض حلقے اس کو امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح قرار دیا ہے۔ تاہم اگر امریکہ کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کو امریکہ کی شکست اس لیے نہیں کیونکہ افغانستان میں اس کے حملے اور جنگ کے اہداف ایک طرف اسامہ اور القاعدہ کا خاتمہ تھا اور اس کے بعد افغانستان سے نکلنے کی ایک شرط اس بات کی یقین دہانی کا حصول تھا کہ طالبان ائندہ افغانستان میں کسی ایسی دہشت گرد عسکری تنظیموں اور عناصر کی پشت پناہی نہیں کریں گے جو امریکی مفادات کے خلاف سرگرم ہوں۔ طالبان نے معاہدے میں اس شرط کو مان لیا ہے۔ یوں امریکہ نے اپنے بنیادی مطلوبہ اہداف کے تعاقب میں اگرچہ کچھ جانی اور بالخصوص کافی مالی نقصان ضرور اٹھایا ہے مگر اپنے اہداف بہر حال حاصل کر ہی لیے ہیں۔ ایسے میں بعض حلقوں کی طرف سے اس معاہدے کو امریکہ کی شکست کہنا کچھ سطحی سا دعوی لگتا ہے۔

صدر جو بائیڈن کے تحت نئی امریکی انتظامیہ نے سابقہ صدر ٹرمپ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں کوئی خاص رد و بدل نہیں کی ہے۔ اور اس پر عمل درآمد کا آغاز شروع کیا ہے آئندہ ایک دو مہینوں میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔

اب ایم سوال یہ ہیں کہ

امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد افغانستان کی صورت حال کیا ہوگی اور اس کے اپنے عوام اور ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟

اس حوالے سے دو امکانات ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر افغانستان کے متحارب فریقین ( افغان حکومت اور طالبان ) کے درمیان کسی مفاہمت پر اتفاق ہو گیا۔ تو قوی امید ہو سکتی ہے کہ دہائیوں سے جنگوں بد امنی کا شکار افغانستان اور اس کے عوام امن اور استحکام کے طرف گامزن ہونے لگے۔ جس کے پورے خطے پر بھی صحت مند اثرات پڑیں گے

بصورت دیگر خانہ جنگی اور انتشار کا تسلسل جاری رہے گا۔ اور سارا خطہ اس کے اثرات کا شکار ہو گا

جہاں تک پہلی صورت ( بین الافغان مفاہمت ) کا تعلق ہے۔ تو بد قسمتی سے اس کا امکان طالبان اور افغان حکومت دونوں کے موجودہ غیر لچک دار طرز فکر اور عمل کے باعث کم ہے۔ طالبان کو غالباً یہ زعم ہے کہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے ساتھ وہ موجود افغان حکومت کو با آسانی اقتدار سے ہٹا سکتے ہیں۔ اس لیے اس کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے کسی تصفیہ کی چنداں ضرورت نہیں جبکہ دوسری طرف افغان حکومت بھی کوئی نتیجہ خیز لچک دکھانے سے گریزاں ہے

انہی حالات کے باعث آنے والے دنوں میں زیادہ خدشہ دوسرے امکان یعنی خانہ جنگی کا ہے۔ اگرچہ اس المناک صورت حال کا مرکزی شکار افغانستان کی سر زمین اور اس کے بدقسمت باسی ہوں گے تاہم اس کے منفی اثرات ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان پر بھی یقیناً پڑیں گے۔ اور اسی بنا پاکستان کے لیے افغانستان کی ممکنہ صورت حال باعث تشویش ہونا فطری ہے۔ اس لیے وہاں کے حالات پر نظر رکھنا اور اس کے مضمرات کے پیش نظر حالات کی مناسبت سے کوئی پالیسی بھی اپنانی ہوگی۔

ایک پرامن اور سیاسی لحاظ سے مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہونے کے بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے عام حالات میں بہترین پالیسی تو بہ ہوگی کہ وہ افغان فریقین کے حوالے سے مکمل غیر جانبدار رہے۔ اور وہاں جو بھی حکومت عوام حمایت سے برسراقتدار آئے اس کی حمایت کرے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کا افغانستان کے بارے اسی نوعیت کی پالیسی اپنانے کا جو بیان آیا ہے وہ بلاشبہ خوش آئند ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ افغانستان میں اگر بوجوہ برعکس حالات سامنے آئے تو کیا پاکستان اپنی موجودہ تمام تر نیک نیتی کے باوجود غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے رکھ سکے گا؟ آپس میں متحارب اندرونی گروہوں اور ان کے مابین مفاداتی کشمکش کے علاوہ افغانستان میں بیرونی قوتوں کا اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کاوشیں یا سازشیں ایک ایسا عنصر ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو شاید مکمل غیر جانبداری اور عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم رہنا مشکل ہو۔

اسی طرح پاکستان کے لیے ایک مشکل صورت حال امریکہ کی طرف سے بھی پیش آ سکتی ہے۔ امریکہ اور طالبان سمجھوتے کی ایک شق یہ ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف متحرک دہشت گرد تنظیموں کو جگہ نہیں دیں گے۔ خلاف ورزی کی صورت میں امریکہ کو کارروائی کرنی ہو گی۔ جس کے لیے اس کو آپریشن بیس کی سہولت کے لیے کسی علاقائی ملک کا تعاون درکار ہو گا۔ یہ سہولت ایران اور چین سے تو نہیں لے سکتا ہے۔ اس لیے اس کی آس وہ بوجوہ پاکستان سے لگا سکتا ہے (بعض خبروں کے مطابق امریکہ نے اس سلسلے میں پاکستانی حکام سے رابطہ کر لیا ہے ) ۔ اب اگر پاکستان یہ سہولت اور تعاون دینے پر راضی ہوتا ہے۔ تو اس کو طالبان کی طرف سے شدید ردعمل آ سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک و قوم ایک دہائی پہلے والے جیسے حالات سے دوچار ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے

جبکہ دوسری طرف امریکہ کو ناراض کرنے کے بھی اپنے مضمرات ہو سکتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے اور وہ اس سلسلے میں پوری نیک نیتی سے کو شاں بھی رہے گا۔ تاہم متذکرہ ممکنہ خدشات کے باعث پیچیدگیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں کی صورت حال کو پرکھنے اور اس سے مناسب انداز میں نمٹانے کے لیے پاکستان کو بڑے تدبر، دور اندیشی اور احتیاط سے کام لینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments