ریاست مدینہ جدید میں ڈاکٹروں کی مشکلات


دوسری جنگ عظیم کے بعد ایٹمی دھما کوں سے تباہ حال ملک جاپان کی بحالی، اصلاحات اور ترقی کے لیے پیکج کا تعین کیا جا رہا تھا تو جاپان کے صدر ہیرو ہیٹو نے امداد دینے والے ملکوں کے نمائندوں سے دست بستہ عرض کی تھی کہ بے شک باقی سب شعبے لے لیں مگر ہماری زبان اور نظام تعلیم ہمارے اختیار میں رہنے دیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ایٹمی دھماکوں اور اتحادیوں کے حملوں سے ادھڑا کھدڑا ملک چند سال کے اندر اندر نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا بلکہ آنے والے سالوں میں دنیا کی طاقتور ترین معیشت اور صنعتی ملک بن گیا۔

ادھر ہمارے نئے پاکستان والے اور جدید ریاست مدینہ والے مذہب، مسلک، معیشت، صنعت، تجارت سے لے کر نظام تعلیم تک انتہائی بچگانہ تجربات کر کے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ تباہی و بربادی کے اس مکروہ سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اگلے دس سال بھی مانگ رہے ہیں۔ ایچ ای سی کا تیا پانچہ کر نے، یکساں نصاب تعلیم کے نام پر تنازعات کھڑے کر نے اور کورونا کی آڑ میں سوشل سائنسز کو نصاب سے خارج کرنے کے بعد اب یہ کھلنڈرے ملک کے سب سے زیادہ معزز، معتبر اور مقدس شعبے طب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔

پاکستان کے میڈیکل کالجز سے ہر سال تقریباً دس ہزار نئے ڈاکٹرز بن کر نکلتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ایم بی بی ایس کے طلبہ کو کس قدر عرق ریزی سے کام لینا پڑتا ہے۔ انہیں ڈاکٹر بننے کے لیے کتنی قربانیاں دینا پڑتی اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور خواہشات بھی قربان کرنا پڑتی ہیں۔ وہ سولہ سولہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے پڑھتے ہیں تب جا کر ایم بی بی ایس کی مشکل ترین ڈگری حاصل کر پاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کی اس کریم اور ہونہار طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ یہ اطمینان سے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں مگر ایسا نہیں ہوتا اور ہمارے ان مسیحاوٴں کو بہ امر مجبوری بعض اوقات سڑکوں پر آنا پڑتا اور احتجاج کرنا پڑتا ہے۔

موجودہ حکومت نے تو مسیحاوٴں سے ظلم و زیادتی کی حد ہی کردی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کی یہ عادت ہے کہ جس ملک میں جاتے ہیں اسی ملک کا نظام پاکستان میں رائج کرنے کی خواہش کا اظہار کر کے جنگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں، ایم بی بی ایس کرنے والوں کو ایک نئے، کڑے اور عجیب و غریب امتحان میں ڈال دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے امریکہ و پاکستان کے کلچر، نظام، شرح خواندگی، جمہوری روایات، معیشت، طریق کار اور معیار زندگی کو سمجھے بغیر امریکہ کے سپیشلائزیشن کے امتحان USMLE کی طرز پر پاکستان میں ایم بی بی ایس کرنے والوں کے لیے NLE یعنی نیشنل لائسنس ایگزام کے نام پر ایک مشکل ترین امتحان متعارف کروا دیا ہے جس کو کلیئر کیے بغیر کوئی ڈاکٹر ہاوٴس جاب نہیں کر سکتا۔ یہ امتحان سال میں دو بار ہو گا اور اس کی فیس کم از کم پندرہ ہزار روپے ہوگی۔

بظاہر تو وزیراعظم نے یہ فیصلہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے طلبہ و طالبات کی ناقص کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے مگر اس میں ڈر یہ ہے گندم کے ساتھ گیہوں بھی پس جائے گا۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق آرمی کے کسی میڈیکل کالج پر نہیں ہو گا۔ امریکہ میں تو USMLE پاس کرنے کے بعد ڈاکٹر کی تنخواہ آٹھ لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے اور کیرئیر کے اختتام تک ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں NLE کے بعد ایک ڈاکٹر کی تنخواہ چالیس ہزار روپے سے شروع ہو کر کیرئیر کے اختتام تک بمشکل دو سے تین لاکھ تک پنچ پاتی ہے۔

پورے پانچ سال پاسنگ مارکس 50 فیصد جبکہ اس امتحان کے لیے یہ شرح ستر فیصد ہے۔ امریکہ میں USMLE کے لیے وقت اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ یعنی 365 دنوں کے دوران کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے مگر یہاں چھ ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ امریکہ میں بھی Percentile system ہے مگر نئے پاکستان والے آدھے تیتر آدھے بٹیر والے نظام سے بہت مختلف ہے۔ NLE کے باوجود پراف سسٹم، UHS کی دادا گیری، ہر پراف کو 50 فیصد سے پاس کرنے کی شرط اور طلبہ کو فیل کرنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔

NLE جیسا مشکل ترین امتحان لے رہے ہیں تو پھر اسی بنیاد پر سپیشلائزیشن میں داخلہ بھی دیں۔ BHU کا سیاپا بھی ختم کریں اور امریکہ ہی کی طرح صرف ٹریننگ کے اختتام پر بورڈ سرٹیفیکیشن کا امتحان لیں۔ ادھر سپیشلائزیشن کرنے کے لیے علاحدہ سے دو سال BHU کی نوکری کریں، پھر پارٹ ون JCAT کا امتحان دیں، پھر دو سال بعد IMM کریں، اس کے بعد پارٹ ٹو کا امتحان دیں۔ یہ سب ملا کر چھ سات سال بن جاتے ہیں۔

راقم کی فائنل ائر کے بے شمار طلبہ و طالبات سے بات ہوئی ہے۔ یہ سب اسے انتہائی بے سروپا، فضول، وقت طلب اور دماغ کو دہی بنانے والا اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر امریکی سسٹم نافذ ہی کرنا ہے تو پورے کا پورا کریں، اس کی بھونڈی نقالی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ تمام ڈاکٹرز پی ایم سی کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کر رہے ہیں۔ ایم بی بی ایس کرنے والے مسیحاوٴں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ سب متفقہ طور پر اس امتحان کا بائیکاٹ کریں گے۔

آخر میں ہم ڈاکٹر برادری سے اپیل کریں گے کہ مستقبل میں کسی نابغے کو ملک پر مسلط کرنے کے لیے مریض کی پرچی پر فلاں کو ووٹ دیں جیسا جملہ لکھنے سے پہلے سو بار سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments