ایک نئی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت کیوں؟


آج کل ایک ایسا صدارتی آرڈیننس قومی سطح پر موضوع بحث ہے جو ابھی تک باضابطہ طور پر جاری تو نہیں کیا گیا لیکن اس کی تمام تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔ حکومت کی طرف سے انکار نہیں کیا گیا جس سے لگتا ہے کہ غالباً یہ خبریں درست ہیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا احاطہ کرنے والے اس آرڈیننس کا مقصد، پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) کا قیام ہے جو ہر طرح کے پاکستانی میڈیا کی نگرانی کرے گی۔

قومی حلقوں نے اس بل پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس اتھارٹی کے ذریعے میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافیوں کی اہم تریں تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے اسے جا رہا نہ قانون قرار دیا ہے جو آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے مترادف ہے۔ انسانی حقوق کی سب سے اہم باڈی ”ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان“ (HRCP) نے مجوزہ آرڈیننس کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم ”پاکستان بار کونسل“ نے بھی اس آرڈیننس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے بھی اسے ایک کالا قانون قرار دیا ہے۔ سول سوسائٹی کے دیگر طبقات بھی عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کے احتجاج کو تو ہم سیاست کا تقاضا قرار دے کر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ یوں بھی ماضی کی حکومتوں نے بھی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کوئی زیادہ شاندار کردار ادا نہیں کیا۔ جو بھی حکومت بر سر اقتدار ہوتی ہے، اسے تنقید اچھی نہیں لگتی۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کی غلطیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی جائے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ میڈیا صرف اس کی تعریفیں کرتا اور اس کے کاموں کو سراہتا رہے۔ میڈیا ایک حد تک ہی ایسا کر سکتا ہے۔

اسے اپنی ساکھ کی بھی فکر ہوتی ہے اور عوام کے جذبات و احساسات کی ذمہ داری بھی اسے اپنانا ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس اربوں روپے کے اشتہارات ہوتے ہیں۔ وہ ان اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حکومت کی لائن پر چلنے والے میڈیا کو تو مالا مال کر دیا جاتا ہے جبکہ دیانتداری سے اپنا پیشہ وارانہ کردار ادا کرنے والے چینلز اور اخبارات کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔

سو اپوزیشن کے اعتراض یا احتجاج کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بھی صحافیوں، وکیلوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے آنے والا شدید ردعمل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس ردعمل کو سیاست بازی سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کے حوالے سے عالمی سطح پر بھی ہمارا گراف نہایت افسوس ناک ہے۔ اس صورتحال کا حوالہ دے کر یورپی یونین نے برآمدات کے حوالے سے ٹیکس چھوٹ واپس لینے کی قرار داد منظور کی ہے۔

اس کے ڈانڈے فاٹف سے بھی ملے ہوئے ہیں۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے سبب ایک عالمی صحافتی تنظیم نے اسلام آباد کے صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک شہر قرار دیا ہے۔ بی۔ بی۔ سی نے بھی ابھی دو دن پہلے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر ایک انتہائی خوفناک رپورٹ جاری کی ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی ایسا آرڈیننس یا قانون جاری ہو گیا جو صحافت کے مسلم اصولوں اور عالمی اقدار کے مطابق نہیں تو پاکستان کی رسوائی کا سبب بنے گا۔

موجودہ حالات پر طائرانہ سی نظر ڈالی جائے تو افسوس ناک صورتحال ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ صحافی مارے جا رہے ہیں یا انہیں غائب کیا جا رہا ہے یا انہیں اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کے پاس ایک روایتی رد عمل ہوتا ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی لیکن شاذ و نادر ہی مجرموں کا سراغ ملتا ہے۔ کیفر کردار تو بہت دور کی بات ہے۔ چلیں شاید حکومت بے بس ہو لیکن جبر و تشدد کے اس سلسلے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔

خاص سوچ رکھنے والے صحافی نوکریوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ ایسے متعدد صحافیوں نے سوشل میڈیا میں پناہ لے لی ہے۔ تنخواہوں میں کمی اور عدم ادائیگی کی شکایات بھی عام ہیں۔ انہیں کڑے سنسر شپ کا بھی سامنا ہے۔ کئی حق گو اور مخصوص نظریاتی تشخص رکھنے والے کالم نگاروں کو اخبارات میں جگہ نہیں مل رہی۔ آزادانہ سوچ رکھنا ایک جرم ٹھہرا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دیانت داری سے اپنے پیشہ وارانہ تقاضے پورے کرنے کے بجائے، صحافیوں کی سوچ اپنی نوکریاں بچانے اور کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کا پیٹ پالنے تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سوچ اور رائے کی آزادی، جمہوریت کی روح ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں نہ آمریت ہے، نہ بادشاہت نہ کوئی اور ایسا جابرانہ نظام جو رائے کی آزادی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ہمارا ایک آئین ہے۔ یہ آئین بنیادی حقوق کے بارے میں بہت واضح ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ چند پابندیوں اور قدغنوں کے سوا رائے کا اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

کسی بھی موضوع پر جب ایک سے زیادہ آراء سامنے آتی ہیں تو بحث کا دروازہ کھلتا ہے۔ بحث کا دروازہ کھلتا ہے تو تمام پہلو واضح ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ قومیں اس سے اپنے راستے کا تعین کرتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ حکومتیں اسی سے اپنی پالیسیاں بناتی ہیں۔ اس کے بر عکس جب آزادی رائے کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، تو معاشرہ گونگا ہو جاتا ہے۔ گھٹن پیدا ہو جاتی ہے۔ ”پریشر ککر“ جیسی یہ گھٹن، اچانک حادثوں اور دھماکوں کا سبب بنتی ہے جو قوموں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

ہمارے ہاں پرنٹ میڈیا کے لئے پریس کونسل آف پاکستان اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے پیمرا جیسے ادارے موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کے لئے بھی قوانین و ضوابط وضع ہو چکے ہیں۔ پیمرا کے لئے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق بھی بن چکا ہے جس کی توثیق سپریم کورٹ نے کی۔ یہ گزشتہ دو برس سے نافذ ہے۔ اگر ضرورت ہے تو ان اداروں کی اصلاح کی جا سکتی ہے اور ان کی قوت نافذہ کو زیادہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پیمرا کے چھ سو سے زیادہ ملازمین نے بھی اس مجوزہ آرڈیننس پر شدید احتجاج کیا ہے۔

بہتر ہو گا کہ اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں لیا جائے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کام کر رہے ہیں۔ صدارتی آرڈیننس جاری کر دینے کے بجائے بہت اچھا ہو کہ حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لائے۔ اس کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث ہو۔ اور پھر مکمل اتفاق رائے سے کوئی قانون بنایا جائے۔ حکومت کا یہ اقدام مناسب ہے کہ اس نے اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت فرخ حبیب کی سربراہی میں ایک چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو تمام اسٹیک ہولڈروں کی رائے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ امید کی جا سکتی ہے اس سے آرڈیننس کے بارے میں پیدا ہو جانے والے خطرات کا ازالہ ہو جائے گا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments