کیا پھر سازش کامیاب ہوگی؟


کراچی صوبہ سندھ کا سب سے اہمیت والا شہر ہے۔ کراچی کی اہمیت صرف سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں کراچی کو دوسرے صوبوں سے بلند مقام حاصل ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی پاکستان کے تمام شہروں سے زیادہ ہے۔ یہ شہر پاکستان کا سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔ یہ شہر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کہ کسی بھی ملک کے کسی بھی شہر میں اگر یہ تمام خصوصیات ہوں تو وہ شہر سب سے زیادہ ترقی والا شہر ہوتا ہے۔

وہاں کا انفرا اسٹرکچر مثالی ہوگا۔ وہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بہترین ہوگا۔ وہاں کے شہریوں کے پاس ہر سہولت ہوگی لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے۔ کراچی رہائش کے اعتبار سے دنیا کہ ناپسندیدہ شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں سہولیات کا فقدان ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، تباہ حال ٹرانسپورٹ کا نظام، اندھیروں میں ڈوبے بجلی کے کھمبے ٹیکس دیتے اہالیان کراچی کا منہ چڑاتے ہیں۔ سیوریج کے کھلے ہول کئی کی جان لے چکے ہیں، پہلے بھی تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ کراچی کے پچاس فیصد رہائشی کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعے کا سامنا کرچکے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی اہالیان کراچی کو ماضی میں لسانیت کی بنا پر تقسیم کیا گیا۔ انہیں مذہب کے نام پر کاٹا گیا۔ ان سے غنڈہ ٹیکس اور بھتے وصول کیے گئے چوکوں چوراہوں میں روز کئی کئی افراد کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ انہیں فیکٹریوں میں زندہ جلایا گیا لیکن اہالیان کراچی نے اس سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آخر یہ سب کرنے والے کون تھے؟ یہ کوئی غیر نہیں بلکہ کراچی والوں کے اپنے ہونے کے دعویدار تھے۔ اللہ اللہ کر کے کراچی میں آپریشن کا آغاز ہوا تو کئی ماؤں نے سکھ کا سانس لیا۔

ایک طویل عرصے تک کراچی میں کوئی فساد نہ ہوا، کسی بھائی کا موڈ خراب ہونے پر ہڑتال نہ ہوئی، کسی کا رکشہ خراب ہونے پر اردو بولنے والوں پر حملہ نہ ہوا، پاکستان مخالف نعرے لگنے بھی بند ہو گئے۔ کافر کافر کے نعرے لگنا اور مذہب کے نام پر مرنا مارنا ختم ہو گیا۔ کوئی علاقہ کسی کے لئے علاقہ غیر نہ رہا۔ کراچی والوں نے کاروبار کا آغاز پھر سے کیا شہر کی روشنیاں لوٹ آئیں، جس کا جس مسجد میں دل کرتا جاتا اور عبادت کرتا، سب اپنی اپنی علاقائی زبانیں بولتے لیکن محبت سے رہتے۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کو کراچی کے لوگوں کا یہ پیار اور سکھ پسند نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کراچی کو ایک بار پھر لسانی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخر اس کے بعد ہوگا کیا؟

لگے گی آگ تو گھر آئیں گے کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

سندھ میں طویل عرصے سے کام کرنے والی ایک ہاؤسنگ اسکیم کے خلاف ایک دم احتجاج کا آغاز ہوا یہ احتجاج تب کیا گیا جب نجی ہاؤسنگ اسکیم کی مشینری نے کراچی کے علاقے میں زمین پر کام کا آغاز کیا۔ یہ احتجاج دیکھتے دیکھتے سندھ بھر میں پھیل گیا۔ احتجاج کی وجہ یہ بتائی گئی کہ زمین پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور وہاں رہنے والوں کو ان کی زمین سے محروم کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں ہاؤسنگ سوسائٹی کے مرکزی دروازے پر احتجاج کا اعلان کیا گیا جس میں سندھ کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

یہ احتجاج بدنظمی کا شکار ہوا اور کاروباری افراد کی املاک اور عام آدمی کی ملکیت کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد کئی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی تشہیر بھی ہوئی۔ یہاں کئی سوال جنم لیتے ہیں اول یہ کہ کیا زمین پر تعمیرات بغیر زمین خریدے بغیر شروع کی گئیں؟ اگر زمین فروخت کی گئی تو کس نے کی؟ اگر فروخت نہیں کی گئی تو حکومت سندھ نے تعمیرات و کام کو روکا کیوں نہیں؟ سندھ کی حکمراں جماعت نے احتجاج کی مخالفت کیوں کی؟

احتجاج میں بدنظمی کیوں ہوئی کیا وہاں معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی نہیں تھا؟ آگ کس نے لگائی لوٹ مار کیسے ہو گئی؟ ان تمام سوالات کے جوابات تو اہالیان سندھ کو حکمرانوں سے لینا ہوں گے لیکن اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ کچھ ایسا نہ ہو جس سے ایک بار پھر پورا صوبہ یا صوبے کا مرکزی شہر کراچی لسانیت یا تعصب کی آگ میں جلنے لگے۔

عوام کو اب اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کو سمجھنا ہوگا اور متحد رہنا ہوگا۔ ایک رہ کر ہی اپنے جائز حقوق کے لئے مطالبات کیے جا سکتے ہیں اور انہیں تسلیم بھی کرایا جاسکتا ہے۔ قوم اگر ایک بار پھر بٹ گئی تو اس کا نقصان اس قوم کو اور فائدہ اشرافیہ کو ہوگا۔ کسی قسم کے احتجاج میں عوام کو یہ بات بھی سامنے رکھنا ہوگی کے ملک کا صوبے، شہر کا یا کسی عام آدمی کا کوئی نقصان نہ ہو۔ ہمیں جلاو گھیراو کے بجائے قانونی راستوں کو چننا ہوگا۔

یہ ملک یہ صوبہ اور یہ شہر سب ہمارا ہی تو ہے۔ اس کی ترقی کی کوشش ایک ساتھ کرنا ہوگی، اس کی بقا کی جنگ ایک ساتھ لڑنا ہوگی اپنے حقوق کا مطالبہ متحد رہ کر کرنا ہوگا اور یہی بہترین طریقہ ہے۔ اتحاد ہی بہترین انتقام ہے۔ عوام کو خیال رکھنا ہوگا کہ ایک بار پھر اس شہر میں لسانیت کی آگ نہ بھڑکا دی جائے۔ پھر لاشیں گرنا کا آغاز نہ ہو جائے۔ اب کسی لمبے کھمبے اور ٹیڑھے کی جگہ نہیں اب کوئی ملک دشمن ایجنڈا کامیاب نہ ہو۔ یہ شہر اب مزید لسانیت و عصبیت کا متحمل نہیں اپنے حقوق کی بات ضرور کریں لیکن ایک رہ کر، قانونی راستے سے اور ایک دوسرے کی املاک کی حفاظت کر کے شرپسند عناصر پر نظر رکھ کر کیوں کہ یہ شہر آپ کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments