عورتوں کی آزادی کا استعارہ۔ لو سیلوم


لوسلوم کو ادب ’فلسفے اور نفسیات کی دنیا میں وہ عزت اور عظمت نہیں ملی جس کی وہ بجا طور پر حقدار تھیں۔ جو تھوڑی بہت مقبولیت ملی بھی تو اس لیے نہیں کہ وہ ایک نابغہ روزگار فیمنسٹ اور مایہ ناز ماہر نفسیات تھیں بلکہ اس لیے کہ وہ سگمنڈ فرائڈ کی دوست اور فریڈرک نیٹشے کی محبوبہ تھیں۔ یہ علیحدہ بات کہ انہوں نے نیٹشے سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نیٹشے وہ واحد دانشور مرد نہ تھے جو ان کی زلف کے اسیر ہوئے تھے اور وہ بھی پہلے یا آخری دانشور نہ تھے جن سے شادی کرنے سے لو سیلوم نے انکار کیا تھا۔ لو سیلوم ایسی لیلیٰ تھیں جن کی زندگی میں بہت سے مجنوں آئے لیکن وہ سب مجنوؤں سے ایک مخصوص ذہنی قربت لیکن رومانوی فاصلہ رکھتی تھیں۔

لو سیلوم مردوں سے ادبی ’تخلیقی اور نظریاتی دوستی کے حق میں تو تھیں لیکن شادی کے حق میں نہ تھیں کیونکہ وہ شادی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مردوں نے شادی کا ادارہ عورتوں کو نفسیاتی‘ مذہبی ’قانونی اور سماجی طور پر قید کرنے کے لیے بنایا ہے۔ لو سیلوم ایک آزاد عورت کی طرح زندہ رہنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ساری عمر عورت کی آزادی کے راز جاننے کی کوشش کی۔ ذاتی طور پر بھی اور نظریاتی طور پر بھی۔ رومانوی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی۔

لو سیلوم 1861 میں روس کے ایک صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والدین مذہبی بھی تھے اور روایتی بھی۔ وہ لو سیلوم کی مذہبی خطوط پر تربیت کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ اسے آرتھیدوکس پادری ہرمن ڈالٹن کے پاس لے گئے۔ لو سیلوم نے کچھ عرصہ تو پادری ڈالٹن کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا لیکن پھر دل ہی دل میں روایت سے بغاوت کر دی اور اپنی آزاد خیال خالہ کورا کو چپکے سے بتا دیا کہ مجھے روایتی پادری ہرمان ڈالٹن سے مزید درس حاصل نہیں کرنا۔

لو سیلوم کی خالہ کورا ایک غیر روایتی پادری۔ ہینڈرک گلٹ کو جانتی تھیں۔ چنانچہ خالہ کورا نے لو سیلوم کا پادری گلٹ سے تعارف کروایا جو روحانیات کے ساتھ ساتھ نفسیات اور ادبیات میں بھی گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔

پادری گلٹ نے سترہ سالہ لو سیلوم کو اپنی شاگردی میں لے لیا اور لو سیلوم نے ان کی سر پرستی میں فرانسیسی ادب اور جرمن فلسفہ پڑھنا شروع کیا اور اندھے ایمان سے روشن خیالی کاسفرطے کیا۔ لو سیلوم پادری گلٹ کی بے انتہا عزت کرتی تھیں ایسی عزت جو بڑھتے بڑھتے عقیدت میں ڈھلتی گئی کیونکہ انہوں نے لو سیلوم کا تعارف یورپ کے عظیم ادیبوں ’مفکروں اور دانشوروں کے خیالات اور نظریات سے کروایا۔

لیکن پھر یہ ہوا کہ چالیس سالہ شادی شدہ استاد سترہ سالہ شاگردہ کی زلف کا اسیر ہو گیا اور ایک شام اظہار محبت کر بیٹھا۔ جب لو سیلوم نے انکار کیا تو پادری گلٹ نے اصرار کیا اور محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر یہاں تک کہہ دیا کہ تم مان جاؤ تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے کر تم سے شادی کر لوں۔

لو سیلوم نے پادری گلٹ سے جذباتی و نظریاتی دوری اختیار کر لی۔ انہوں نے اپنے استاد کا جو بت عزت اور عقیدت کے طاق پر رکھا تھا وہ بت اس مثالیت پسندی کے طاق سے حقیقت پسندی کے فرش پر گر کر چکنا چور ہو گیا۔ اس رومانوی حادثے کے بعد لو سیلوم جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار ہو گئیں اور ان کی والدہ ان کی صحت کی بحالی کے لیے انہیں روم لے گئیں۔

روم میں ان کی صحت بہتر ہوئی تو ان کی ملاقات وہاں کی ایک پینسٹھ سالہ بزرگ دانشور خاتون MALWIDA MEYSENBERG سے ہوئی جن کی کتابMEMOIRS OF AN IDEALIST ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی تھی۔ وہ خاتون دانائی کے گھنے درخت کی طرح تھیں جن کے سائے میں بہت سے نوجوان ادیب شاعر اور دانشور آ کر بیٹھتے تھے اور زندگی کے متنازعہ فیہ مسائل پر آزاد خیالی سے گفتگو کرتے تھے۔ بزرگ میزنبرگ نوجوان لو سیلوم کی ذہانت اور قابلیت سے بہت متاثر ہوئیں۔ انہوں نے لو سیلوم کا جن ادیبوں سے تعارف کروایا ان میں PAUL REE بھی شامل تھے۔

پول ری بھی پادری گلٹ کی طرح لو سیلوم کے ذہین دماغ ’ہمدرد دل اور سنہری زلف کے اسیر ہو گئے اور شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ لو سیلوم نے پول ری کی شادی کی دعوت سے اسی متانت سے انکار کیا جس متابت سے انہوں نے پادری گلٹ کو انکار کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ لو سیلوم نے پول ری کو اپنے دل کی گہرائیوں میں چھپایا ہوا راز بتایا کہ وہ دو دانشوروں کے ساتھ بیوی بن کر نہیں دوست بن کر ایک انٹلیکچوئل کمیون میں رہنا چاہتی ہیں تا کہ تین دانشور رات دیر تک زندگی کے گنجلک اور پیچیدہ مسائل پر وقت کی قید سے آزاد ہو کر تبادلہ خیال کرتے رہیں تا کہ وہ قدرت اور انسانی فطرت کے راز جانیں۔

پول ری کو لو سیلوم کا مشورہ پسند آیا چنانچہ پول ری نے اپنے ابھرتے ہوئے دانشور دوست فریڈرک نیٹشے کو دعوت دی کہ وہ آ کر اس سیماب صفت شعلہ بیان قاتل حسینہ سے ملے۔ نیٹشے لو سیلوم سے ملے تو وہ بھی اس کی دلفریب مسکراہٹ اور غیر معمولی ذہانت کے اسیر ہو گئے۔ انہیں بالکل خبر نہ تھی کہ ان کا دوست پول ری بھی اسی زلف کا اسیر ہو چکا ہے

بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

نیٹشے نے بھی لو سیلوم کو اپنی بیوی بننے کی دعوت دے دی۔ لو سیلوم نے تیسرے مرد کی بیوی بننے سے انکار کر دیا لیکن ساتھ رہنے پر رضامند ہو گئیں۔

اس طرح لو سیلوم ’پول ری اور فریڈرک نیٹشے کچھ عرصہ ساتھ رہے۔ اس دوران وہ زندگی کے ہر مسئلے پر سیر حاصل گفتگو کرتے۔ وہ شام کو لمبی سیروں پر جاتے اور رات دیر تک زندگی کی پہیلی کو سمجھنے کو کوشش کرتے۔

بدقسمتی سے جب نیٹشے نے لو سیلوم کا تعارف اپنی پیاری بہن لزبتھ سے کروایا تو لزبتھ لو سیلوم کے خلاف ہو گئیں۔ لزبتھ ایک مذہبی اور روایتی خاتون تھیں انہیں لوسیلوم کا فلسفہ حیات اور طرز زندگی ایک آنکھ نہ بھایا انہوں نے لو سیلوم کی غیر روایتی زندگی کو اپنی روایتی کسوٹی پر پرکھا اور اپنے پیارے بھائی سے کہا کہ اس حرافہ اور فاحشہ سے دور رہو۔

نیٹشے لو سیلوم کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں زندگی میں پہلی بار ایک ایسا انسان ملا ہے جن سے وہ نہ صرف بے تکلفی سے طویل مکالمہ کر سکتے ہیں بلکہ وہ انسان ان کی سوچ کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھتا بھی ہے۔ لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ان کا دوست پول ری لو سیلوم سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور ان کی چہیتی بہن لزبتھ لو سیلوم سے شدت سے نفرت کرتی ہے تو وہ ایسے تضاد کا شکار ہو گئے کہ انہوں نے لو سیلوم کی محبت اور دوستی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور پھر ساری عمر کبھی شادی نہ کی۔

عمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کی
قیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھدار آدمی

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح جلال الدین رومی نے شمس تبریزی کی جدائی میں اپنا ادبی شہ پارہ دیوان شمس تبریز رقم کیا تھا اسی طرح نیٹشے نے لو سیلوم کی جدائی کے بعد اپنا شہ پارہ THUS SPOKE ZARATHUSTRA تخلیق کیا تھا جس میں انہوں نے GOD IS DEAD کا اعلان کیا تھا۔ فرڈرک نیٹشے اور لو سیلوم دونوں نوجوانی میں ہی خدا کو خدا حافظ کہہ آئے تھے۔

لو سیلوم جہاں ادب عالیہ پڑھتی تھیں وہیں ادب عالیہ تخلیق بھی کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم کے بعد انہوں نے نہ صرف تحقیقی مقالے لکھے بلکہ اپنی نظموں ’افسانوں اور ناولوں سے عوام و خواص کے دل بھی موہ لیے۔ انہیں اپنے دور میں روس اور یورپ کے ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نیٹشے سے جدائی کے بعد لو سیلوم نے ان کے بارے میں کتاب رقم کی جس میں انہوں نے نیٹشے کا ادبی و نفسیاتی تجزیہ پیش کیا۔

لو سیلوم نے زندگی کے ایک دور میں 1887 میں FRIEDRICH ANDREAS سے شادی بھی کر لی لیکن وہ شادی بھی غیر معمولی اور غیر روایتی تھی۔ وہ ایک گھر میں رہ کر بھی علیحدہ علیحدہ کمروں میں علیحدہ علیحدہ بستروں میں سوتے تھے۔ ان کے خواب مشترک تھے لیکن خواب گاہیں جدا جدا تھیں۔ لو سلوم نے اینٹریاس سے شادی تو کر لی لیکن ان سے کبھی مباشرت نہ کی۔ اینڈریاس بھی غیر معمولی شوہر تھے جو اپنی بیوی کے ادبی اور نطریاتی دوستوں کا مسکرا کر خیر مقدم کرتے تھے۔

لو سیلوم کی جب یورپ کے مایہ ناز شاعر RAINER RILKE سے 1897 میں ملاقات ہوئی تو لو سیلوم کی عمر 37 برس اور رلکے کی عمر صرف 21 برس تھی۔ عمر کے اتنے فاصلے کے باوجود رلکے بھی لو سیلوم کی مقناطیسی شخصیت کی طرف کچے دھاگے سے کھنچے آئے اور پادری گلٹ ’پول ری اور فریڈرک نیٹشے کی طرح لو سیلوم کو اپنا دل دے بیٹھے۔

لو سیلوم بھی رلکے کے سحر میں گرفتار ہو گئیں اور ان دونوں کی طویل عرصے تک رومانوی محبت جاری رہی۔

لو سیلوم ایک دفعہ اپنے شوہر اور ادبی دوست اور محبوب رلکے کولے کر واپس روس گئیں اور ان کی ملاقات روس کے مایہ ناز ادیب اور دانشور لیو ٹالسٹائی سے کروائی۔ ٹالسٹائی بھی لو سیلوم کی ذہانت ’دیانت اور متانت سے بہت متاثر ہوئے۔

لو سیلوم نے زندگی میں جن شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کو متاثر کیا ان میں یورپ کے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ بھی تھے۔ لو سیلوم جب ان کی تحلیل نفسی کے سیمناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہوتیں تو سب حاضرین ان کی دانشمندی کی باتیں اور بصیرت افروز نفسیاتی تجزیے سن کر عش عش کر اٹھتے۔ فرائڈ کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لو سیلوم نے ان سے ملاقات سے پیشتر عورت کی نفسیات اور جنسیات پر پر مغز مقالے لکھے تھے۔ فرائڈ لو سیلوم سے اپنے مشکل مریضوں کے بارے میں مشورے کرتے اور ان کی رائے کا احترام کرتے۔ لو سیلوم اور سگمنڈ فرائڈ کے پرستار خوش ہیں کہ اب تو سگمنڈ فرائڈ اور لو سیلوم کے خطوط بھی کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔

لو سیلوم نے 74 برس کی عمر میں ماہر نفسیات کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ 1930 میں ان کے شوہر فوت ہو گئے۔ 1935 میں ان کا کینسر کا آپریشن ہوا جس کے بعد وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور 1937 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی لاش کو جلا دیا جائے اور اس راکھ کو ان کے شوہر کی قبر کی ساتھ والی قبر میں دفن کر دیا جائے وہ شوہر جن کے ساتھ انہوں نے ساری عمر ہمبستری نہ کی۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عورت ہونے کے ناتے لو سیلوم کو ادب ’فلسفے اور نفسیات کی تاریخ کے صفحات میں وہ مقام نہیں ملا جس کی وہ بجا طور پر حقدار ہیں۔ وہ عورت کی آزادی اور خود مختاری کی جیتی جاگتی تصویر اور توانا آواز تھیں۔ انہوں نے انیسویں صدی میں ایک آزاد‘ نڈر اور دلیو عورت بن کر ایسی زندگی گزاری جو اکیسویں صدی کی عورتیں بھی صرف چشم تصور سے ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ادب اور نفسیات کے روایتی مورخوں نے انہیں یاد رکھا بھی تو صرف اس لیے کہ وہ سگمنڈ فرائڈ کی دوست اور فریڈرک نیٹشے کی چند روزہ محبوبہ تھیں۔ لو سیلوم کو جس غیر روایتی فیمنسٹ نے دل کھول کر سراہا وہ اینائس نن تھیں۔ میں اینائس نن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میرا ادبی تعارف لو سیلوم سے کروایا اور میں ایک نفسیات کا طالب علم کی حیثیت سے نادم ہوں کہ میں نے لو سیلوم کا ذکر نفسیات کی کتابوں میں نہیں اینائس نن کی تقاریر میں پڑھا۔

میں نفسیات اور فیمنزم کے سنجیدہ قاریوں کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ JULIA VICKERS کی کتاب LOU VON SALOME. A BIOGRAPHY OF THE WOMAN WHO INSPIRED FREUD, NITZCHE AND RILKE کا ضرور مطالعہ کریں۔ انہیں اندازہ ہوگا کہ لو سیلوم نے روایت کی ہر زنجیر کو اپنی ذہانت کی قینچی سے کاٹ ڈالا تھا۔ وہ مردوں کے قریب رہ کر بھی ان سے دور رہنے کا راز جانتی تھیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ مرد اور عورت ابھی ایک دوسرے کو پورے طریقے سے سمجھ نہیں پائے کیونکہ ابھی دونوں ذہنی اور سماجی طور پر نابالغ ہیں۔ ذہنی و جذباتی بلوغت تک اور ایک آزاد اور ذمہ دار محبت کرنے کے لیے ابھی دونوں کو چند دہائیاں یا چند صدیاں اور درکار ہیں۔ لو سیلوم انسانی نفسیات کے وہ راز ہائے سربستہ جانتی تھیں جنہیں اپنے عہد کے عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ ہم سب کی بدقسمتی ہے کہ لو سیلوم کی کہانی سماجی تعصبات کی وجہ سے ابھی تک نفسیات کے نصاب کا حصہ نہیں بن سکی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments