قرآن میں خواتین کا ذکر اور مرد مترجم اور مفسر (قسط 2)


قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ جو عورت دور جاہلیت میں جائیداد کا حصہ تھی اسے جائیداد کا مالک بنا دیا گیا۔ مقصد عملی طور پر اس کے لیے معاشی استحکام کی راہ ہموار کر کے اس کی عزت نفس بحال کرنا تھا نہ کہ محض حقوق نسواں کی علمبرداری کا پرچار۔ قرآن خود مال کو ’خیر‘ اور ’فضل‘ کہتے ہوئے اسے حاصل کرنے اور تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے، نہ کہ اسے کوئی معیوب شے قرار دیتا ہو، معیوب صرف وہ غیراخلاقی عوامل یا غیر متوازن رویے ہیں جن کو اس طاقت کے حصول کی آندھی دوڑ میں بھلا دیا جاتا ہے۔ لہذا ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے معاشی استحکام یا اس فضل کے حصول کے لئے جدوجہد اور سعی کرتے رہنا چاہیے۔

اللہ تعالٰی کی حکمت کہ اس نے مرد کو انسانی تخلیقی عمل کی تمام صعوبتوں اور قیود سے آزاد رکھا اور یوں اسے معاشی قوت و استحکام حاصل کرنے کے لئے وقت اور ذرائع دونوں میں عورت کی نسبت زیاد سہولت ملی۔ آج کے اس جدید دور میں بھی اگر عورت نے بچے پیدا کرنے اور پالنے ہیں تو عورت کو ہی اپنے کیریئر یا نوکری کے اوقات میں تبدیلی کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اور گھر اور بچوں کے لئے ہمہ وقت اور بروقت موجودگی کی متقاضی ذمہ داریوں کی بدولت عورت کے لئے پیسہ کمانے کے لئے وقت اور ذرائع دونوں ہی بہت حد تک نہ صرف محدود بلکہ معدوم ہی ہو جاتے ہیں۔ لہذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ذمہ داریوں کو دونوں کے درمیان بانٹ دیا جائے۔ عقد نکاح کی اصل اور شرعی حقیقت یہی ہے کہ وہ میاں اور بیوی کے درمیان حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک مضبوط معاہدہ ہوتا ہے۔

اسی لئے سورہ نساء آیت 34 میں مرد کو عورت کے لئے قوام مقرر کیا گیا ہے۔

مطلب یہی ہے کہ عورت کی نسبت مرد کو رزق کمانے کے لئے ذرائع اور وقت کی جو فراوانی اور آسانی دی گئی ہے اس کی بدولت انھیں خواتین کی تخلیقی عمل کی ذمہ داریوں اور ضروریات کو آسانی اور یکسوئی سے پوری کرنے پر مامور کیا گیا ہے، لہذا وہ اپنے مال میں سے ان پر بھی خوشدلی سے خرچ کریں۔ یہاں قوام کا مطلب ہر مفسر نے اس لحاظ سے کیا ہے جسے وہ آیت کے اگلے حصے میں فضیلت قرار دیتا ہے۔ یعنی اگر مفسر کے نزدیک فضیلت سے مراد طاقت اور قوت ہے تو قوام کا ترجمہ حاکم اور نگران کیا گیا ہے۔

آیت کے الفاظ میں ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، یعنی مرد یا عورت کی کسی خاص فضیلت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ مذکورہ آیت میں کسی معاشی فضیلت کا ذکر لگتا ہے نہ کہ کسی جسمانی یا عقلی فضیلت کا۔ قرآن میں ’فضل‘ مختلف جگہوں پر مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر عام انسانوں کے ضمن میں عمومی مفہوم معاشی خوشحالی، دنیاوی آسانی اور فراوانی ہے، جن کے حاصل کرنے کی مومنین کو تاکید کی گئی ہے۔ بارہا کہا گیا ہے کہ اللہ کا فضل تلاش کرو، جس سے رزق کے لئے محنت مراد ہے، یا اللہ کا فضل مانگو جس سے مراد آسانی اور فراوانی ہے۔

سورہ النحل کی آیت نمبر 71 میں فضیلت کے ضمن میں رزق کا واضح ذکر ہے۔ یعنی قرآن رزق کے ذرائع میں آسانی اور فراوانی کو واضح طور پر فضیلت کہتا ہے۔ مگر تمام روایتی تفاسیر میں مذکورہ آیت کی فضیلت کو مرد کی خلقت یعنی پیدائشی جسمانی، عقلی اور روحانی برتری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آج عورت کو ہر میدان میں برابر کے مواقع ملنے کے بعد مرد کی ان خود ساختہ خوش گمانیوں کا احوال کسی سے پوشیدہ نہیں، مگر چونکہ لکھنے والے بہرحال مرد تھے، لہذا آیت کے ابہام کو اس رخ موڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔

گو کہ محض خلقت کی بنیاد پر فضیلت کا دعوٰی کرنا انسانی نہیں ابلیسی شیوہ ہے! اور یوں تفاسیر میں عورت اور مرد کے تقابل میں فضیلت میں سرفہرست مردانہ طاقت کو رکھا گیا، سوچنے والی بات ہے کہ معاشرتی معاملات یا رشتوں میں جسمانی طاقت تو صرف زبردستی، ایذا رسانی یا تشدد کرنے کے لئے ہی ہو سکتی ہے اور کس مقصد کے لئے طاقت فضیلت کہلائی جا سکتی ہے۔ تلاش معاش کے معاملات میں بھی مشقت کا کام مشین یا جانور کرتے ہیں اور ان سے انسانی طاقت نہیں بلکہ عقل اور مہارت کام لیتی ہے۔

ویسے بھی اگر ایک انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت اس کے علم، شعور، نیکی بدی کی تمیز کے بدولت ہے تو ایک انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت کا معیار طاقت کیونکر۔ اس طرح تو بہت سے جانور انسان سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ یوں بھی ہر چیز کا فریم آف ریفرینس، یعنی اس کا استعمال کہاں ہو گا، اس خامی یا خوبی کا مفہوم یکسر بدل دیتا ہے۔ میدان جنگ یا کسی جنگل کے ذکر میں تو اس جسمانی فضیلت کا کوئی فائدہ ہو گھر یا انسانی معاشرتی معاملات میں یہ کیسی فضیلت۔ گھر اور معاشرے میں تو فراخ دلی، فیاضی، سخاوت، محبت، برداشت اور بردباری کو فضیلت کہا جا سکتا ہے۔ مگر ہم نے عورتوں سے متعلق تمام معاملات میں مردانہ طاقت کی برتری کی طرف اشارہ کر کہ اصل میں اس کے استعمال کی راہ ہموار کی۔ اب اسی آیت کی دو مختلف تراجم اور تفاسیر کے معاشرے پر اس کے اثرات دیکھتے ہیں۔

ایک شخص جو یہ خطبہ سن کہ گھر جاتا ہے کہ ’اللہ کا حکم ہے کہ مرد عورت پر حاکم اور نگران ہے، اللہ نے اس کو عورت سے زیادہ طاقت، قوت اور عقل دی ہے اور اس کا فرض ہے کہ عورت پر نہ صرف نگران رہے بلکہ اسے سیدھی راہ پر بھی رکھے، یہ اس کا حق ہے کے وہ تابعداری کا تقاضا کرے کیونکہ وہ ان پر اپنا مال خرچ کرتا ہے۔

اور ایک دوسرا شخص اسی آیت سے متعلق سنتا ہے کہ عورتوں کی تمام معاشی اور دیگر جائز ضروریات کا خیال رکھنے کی تمام ذمہ داری اللہ نے مرد کو دی ہے۔ اسے مال کمانے کے ذرائع اور وقت میں وسعت اور فضیلت دی ہے اور اسے فراخ دل بنایا ہے کہ وہ خوش دلی سے اپنا مال اپنے گھر والوں پر خرچ کرے۔

دونوں تراجم اور تفاسیر اسی آیت کی ہے مگر دونوں مکمل طور پر چند متضاد رویوں کے لئے راہ ہموار کر رہیں ہیں۔ عورت کو خود حافظات کہا گیا ہے یعنی اس پر کوئی باڈی گارڈ تعینات نہیں کیا گیا۔ مگر تفسیر ایک احساس تفاخر کے ساتھ ایک پرتشدد اور چوکیدارانہ رویہ کو اجاگر کر رہی ہے اور سننے والا اسے اللہ کا حکم سمجھ کر گھر اسی رویہ کا استعمال کرے گا، جبکہ دوسری تفسیر احساس ذمہ داری، انکساری، خوشدلی tweaks اور فراخ دلی کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے۔ تراجم اور تفاسیر میں بظاہر انھی چھوٹی، چھوٹی

نے بالآخر بڑے، بڑے متعصبانہ اور ظالمانہ رویوں کو جنم دیا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ جب بھی وراثت پر کوئی علمی بحث ہوتی ہے اسے مرد اور عورت کے حصے کے تقسیم کے توازن میں الجھائے رکھا جاتا ہے۔ اور ساری جذباتی بحث مباحثہ میں یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ آخر حصہ جتنا بھی ہو کیا اسلامی معاشروں نے اس کا کوئی مصرف وضع کیا۔ یعنی عورت اس جائیداد اور پیسے کا کیا کرے؟ کیا اپنے شوہر کے حوالے کر دے یا پھر خرچ کرتی رہے جب تک کے ختم نہ ہو جائے۔ تو مقصد تو یہی لگتا ہے کہ خواتین کو معاشی دھارے میں شامل کیا جائے۔

اللہ تعالٰی جو ہمارا خالق ہے جانتا ہے کہ اس کے مقرر کردہ کردار میں اور ہمارے متوقع کردار میں مطابقت کا امکان بہت زیادہ نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالٰی نے قوام کو مقرر کرنے کے علاوہ عورت کے لئے معاشی خود مختاری کے لئے دیگر ذرائع مقرر کیے ۔ گو کہ ہمارے علماء نے کبھی عورت کی رہنمائی کرنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر وہ کیسے اس مال کو اور اس اختیار کو استعمال کرے الٹا ایک جید عالم نے تو اپنی تفسیر میں یہاں تک فرما دیا ہے کہ گو مال وراثت الاٹ تو ہو گیا مگر منیجر بہرحال مرد ہی رہے گا کہ ’سفھا‘ یعنی کم عقل سے مراد خواتین اور کم عمر لڑکے ہیں۔

کاروباری دنیا کی اونچ نیچ سے لاعلم انسان کو مال کا وارث بنانا دانشمندی نہیں اور قرآن میں ایسے نابالغ اور ناپختہ ذہن والے کو سفھا کہا گیا ہے۔ انسانی تفاسیر کے برعکس قرآن مجید ایک مسلمان عورت کو تعلیم یافتہ اور باشعور فرد کے طور پر مخاطب کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عورت کو گھر میں ہی رہ کر جو کر سکتی ہے کرنا چاہیے تو آیت دین سورہ البقرہ 282 میں کس ماحول کی طرف اشارہ ہے جہاں وثیقہ نویس ہے، متعاقدین ہیں، گواہان ہیں۔

سفھا یعنی کم عقل اور نا پختہ ذہن والے کے لین دین کا معاملہ اٹارنی کے ذریعے ہو گا اور اس سے مراد عورت ہرگز نہیں کیونکہ وہ تو گواہ کے طور پر مردوں کی صف میں کھڑی ہے، چاہے دو ہی سہی۔ معاملہ چونکہ کاروباری ہے، گمان ہے کہ بیع سلم کا ہے، قرض اور باہمی لین دین کا ہے تو کہا گیا ہے کہ ایسے ہی لوگ گواہ بناؤ جن پر تم کو اعتماد ہو، یعنی جو بیع اور قرض کے معاملات کی کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ معاملہ معاشی لین دین کا ہے تو معاشرتی اعتبار سے تو یہاں عورت کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ تو مرد کا دائرہ کار ہے۔

پھر دیکھئے کہ کیا یہاں سب محرم مرد ہیں جو پردہ دار بیبیوں کو گواہ بنانے کے لئے تکلیف دی جائے۔ کیونکہ گواہی کے لئے بہرحال شناخت تو ظاہر کرنا ہو گی۔ اور تاکید کی گئی ہے کہ عورت ہو یا مرد دن ہو یا رات گواہان کو حاضر ہونا ہو گا۔ اور پھر جس سہولت سے کہا گیا ہے کہ اگر دو مرد نہیں تو ایک مرد اور دو عورتیں سہی، لگتا ہے کہ کاروباری سمجھ بوجھ رکھنے والی عورتیں کوئی نایاب جنس نہیں تھیں یا نایاب جنس نہیں ہونی چاہئیں، اور قرآن ان کی اس سمجھ بوجھ کو تسلیم کر رہا ہے نہ کہ ان کی اس کارپوریٹ ماحول میں موجودگی کو کوئی خلاف شریعت عمل قرار دے رہا ہے، اور ان کا عورت ہونا، غلطی کرنے کا احتمال ہونا یہاں تک کے بھول جانا بھی ایسا social awkwardness کوئی عذر نہیں جو ان کی اس معاشی دنیا میں شمولیت کی راہ میں مانع ہو۔ اور پھر اگر کسی کمرے میں تمام مرد ہوں یا رات میں گواہان کی طلبی ہو تو سے بچنے کے لئے ایک کے بجائے دو عورتوں کا کہہ دیا گیا ہے، جو قرآن کی سوشل حساسیت کو ظاہر کرتا ہے اور اس متوقع مردانہ عذر کا جواب ہے کہ معاشی معاملات میں عورت کا کیا کام

مگر روایتی تفاسیر میں ساری توجہ آدھی گواہی جیسی لایعنی منطق پر مرکوز کر کہ لوگوں کو ایسا الجھایا جاتا ہے کہ بات کسی جذباتی بحث سے آگے ہی نہیں بڑھتی۔ اور ”اگر وہ بھول جائے ’جیسی ایک عام انسانی حقیقت پر عورت کو نسیاں کی مریضہ سے لے کر حیض و نفاس میں اس کی ذہنی حالت کو مشکوک قرار دینے اور ثابت کرنے کے لئے ہاروڈ سے لے کر آکسفورڈ تک کی ریسرچز کے حوالے دیے جاتے ہیں اور دو دو گھنٹے کے درس میں سبق دیا جاتا ہے کہ عورت صبر اور خوشدلی سے مرد کی برتری اور اپنی ہر ذہنی اور جسمانی بیماری اور کمزوری کا اعتراف کرے اور قبول کرے کہ یہ اللہ کی حکمت اور منشاء ہے۔

مسلم معاشروں میں اخلاقی انحطاط اسی بتدریج ذہن سازی کا نتیجہ ہے جس میں ایک غیر حاضر اور لاعلم فریق کی تضحیک اور ہرزہ سرائی پہ نہ کوئی پرسش و احتجاج کرنے والا تھا نہ ہی دفاع اور یوں مردوں کا یہی یک طرفہ بیانیہ معاشرے میں تقویت حاصل کرتا گیا۔

قرآن ملکہ سبا یا بلقیس کی حکمت اور حکومت کا ذکر عزت و احترام سے کرتا ہے اور ان کی طرز حکمرانی کی طرف مثبت انداز میں اشارہ کرتا ہے مگر عورت کی معاشی طاقت اور حکمرانی سے خائف کئی تفاسیر بہت ہی تضحیک آمیز اور منفی رویہ اختیار کرتی نظر آتی ہیں تاکہ خواتین کی حکمرانی کو غیر شرعی عمل قرار دیا جا سکے۔

قرآن کے مزاج میں منفی رویوں کے جواب میں بے مقصد محاذ آرائی یا کنفرنٹیشن نہیں بلکہ انرجی کو بچا کر تحمل اور رواداری سے صحیح جگہ اور وقت پہ استعمال کرنا ہے شر پسندوں سے رسول اللہ کو ہجرت کا حکم تاوقتیکہ معاشی یا عسکری طور پر اس قابل ہوں کہ مقابلہ کر سکیں۔ ابراہیم علیہ سلام اور لوط علیہ سلام کی شر پسند معاشرے سے ہجرت۔ اسی طرح امہات المومنین کو بھی خاص نام لے کر کچھ خاص ہدایات دی گئیں کیونکہ جس شورش زدہ معاشرے میں رہتے ہوئے انھیں اسلام کا نفاذ ممکن بنانا تھا وہاں بے مقصد محاذ آرائی سے بچنے کے لئے احتیاط لازم تھی، تاوقتیکہ اسلامی قانون نافذ ہو جاتا، جہاں مرد کی نگاہ اللہ کے خوف سے جھکی ہوتی، جہاں عورت ایک مرد کے ستائے جانے کے خوف سے آزاد ہوتی، جہاں حسن زن کردار کشی کا جواز نہ ہوتا، جہاں آدھی رات کو بھی تنہا عورت کے متعلق حسن ظن ہوتا، (وہی حسن ظن جس کی توقع مومنین سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں نازل آیات میں کی گئ) ، جہاں مومن عورت اس مان سے گھر سے باہر نکلتی کہ باہر مومن مردوں کے ہوتے وہ ایک محفوظ معاشرے میں ہے، کہ بد اخلاقی، ناشائستگی، لاعلمی، فحش کلامی، کردار کشی، جاہلیت، بد ظنی، تضحیک اور ایذا رسانی تو مشرک مردوں اور عورتوں یا غیر مسلم معاشروں کا شیوہ اور چلن ہو سکتا ہے مسلمانوں کا نہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ مسلم معاشروں نے مسلم عورت کو محصور اور لاعلم رکھنے میں ہی سہولت جانی تاکہ اسے ان تمام قوانین کا پابند رکھا جا سکے جو اس پر ایذا رساؤں سے بچنے کے لئے تجویز کیے گئے، چاہے اس کے لئے دور جاہلیت کا شورش زدہ معاشرہ ہی کیوں نہ زندہ رکھنا پڑے!

جس معاشرے میں بھی طاقت اور جہالت کی حکومت ہو گی وہاں سوچ اور سوال کو خطرہ ہو گا۔ سوچ کو قتل تو نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ساتھ کیے گے سلوک سے خوف اور تشدد کی فضا بنائی جاتی ہے جو سوال کرنے والے کو خوفزدہ رکھے۔ مکہ سے ہجرت اسی سوچ کی حفاظت کے لئے تھی جو صرف طاقت ور کی نہیں مجبور اور مظلوم کی آواز کو بھی اہمیت دیتی تھی۔ بدر، احد اور خندق انصاف، انسانی اقدار اور اخلاقیات کی اسی نئی شمع کو بچانے کے لئے تھیں، قتل و غارت کر کے طاقت منوانے کے لئے نہیں۔

تاریخ کے سفر پر نکلیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شمع جسے ہر گھر میں روشن ہونا تھا اسے طاقتوروں نے سمیٹ کر ان پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ پھر مساجد اور مدرسوں میں شمعیں صرف جلنے لگیں اور رفتہ رفتہ ان شمعوں سے الاؤ بننے لگے جس میں سوچنے والوں اور سوال اٹھانے والوں کو جھونکا جانے لگا۔ اور ہاں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ جب کوئی روشنی کا متلاشی الاؤ سے جھلس کر متنفر اور مرتد ہو کر مایوس لوٹتا تو مجرم بھی وہی کہلایا جاتا۔ اور یوں گھر اور گلیاں اندھیری ہوتی گئیں پر مساجد اور مدارس کے ہیبت ناک الاؤ بھڑکتے گئے، الاؤ سے کب کسی کو روشنی ملی ہے۔ روشن تو ایک شمع ہی دوسری کو کرتی ہے، الاؤ تو صرف ایندھن مانگتے ہیں کہ ان کو تو بھڑکتے رہنے سے غرض ہوتی ہے نہ کہ روشنی پھیلانے سے۔

شمعیں روشن کیجئے، الاؤ بجھا دیجئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments