حامد میر: حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا


جب میں نے مشرف دور میں ہوش سنبھالا تو اس وقت ہمارے گاؤں میں اینٹینا والی ٹی وی ہوا کرتی تھی جس پر صرف پی ٹی وی چلا کرتا تھا جو ہر عام و خاص کے بجائے برادری کے ملک، خان اور مال داروں کی بیٹھک پر ہی دیکھی جاتی تھی ہم محلہ کے سارے بچے، بڑے اپنی بیٹھک پر ایک ساتھ بیٹھ کر پی ٹی وی پر ڈرامے دیکھتے تھے اس وقت میرا پسندیدہ ڈرامہ ”سسی“ تھا جس کی ایک قسط ختم ہوتی تو دوسری کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوا کرتا تھا۔

ان دنوں میرے والد ڈرائیونگ کیا کرتے تھے پھر انہوں نے کچھ عرصہ بعد گاؤں میں ہی اپنی پنکچر کی دکان کھول لی اور دکان پر میرے چچا نے وہی ٹی وی لاکر رکھ دی جس پر ہم بیٹھک (حجرہ) میں ڈرامے دیکھا کرتے تھے ایک دن میرے والد شہر سے ایک بڑا سا ٹوکرا نما اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈیوائس مشین لے آئے جس کا نام ”ڈش“ بتایا گیا تھا۔

والد صاحب خبریں سننے کے شوقین تھے ہم مغرب کے بعد دکان کے باہر کھلی جگہ پر چارپائیاں ڈال کر ٹیلی ویژن لگاتے لیکن جب ابو آتے تو نیوز چینل لگا لیتے اور میں ان کے گھر جانے کی دعا کرتا کہ کیا بورنگ چیز لگا دی اکثر تو میں امی کو کہتا کہ ابا کو شام کے بعد دکان پر نہ آنے دیا کرو ہم ڈرامہ یا فلم دیکھتے ہیں پر ابو بورنگ خبریں لگا دیتا ہے پھر ایک دن چینل بدلتے ہوئے اچانک میرے والد صاحب کی پروگرام کیپٹل ٹاک پر نظر پڑی تو انہوں نے مجھ سے ریموٹ چھین لیا اور یوں پھر کیپٹل ٹاک مستقل دیکھنا شروع کر دیا پہلے تو ہم بھی مجبوری میں دیکھتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ میری دلچسپی کیپٹل ٹاک دیکھنے میں بڑھتی گئی اور یوں حامد میر کا کیپٹل ٹاک دیکھے بغیر جی نہیں لگتا تھا گاؤں میں اکثر شام کو عین کیپٹل ٹاک کے وقت بجلی چلی جاتی تھی تو میری کوشش ہوتی تھی دوپہر کی دوبارہ نشریات میں پروگرام ضرور دیکھوں۔

حامد میر کے کیپٹل ٹاک سے روشناس ہونے سے قبل مجھے نہ تو کوئی جمہوریت کا ادراک تھا اور نا ہی آمریت بارے کوئی علم بس ان دنوں صرف ہم نے جنرل پرویز مشرف کی تعریفیں سن رکھی تھی کہ بہت بہادر حکمران ہے پھر ایک دفعہ 2007 میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے ڈیرہ اسماعیل خان شہر 6 جنوری کو آنا تھا جس کے لیے مقررہ تاریخ سے چند دن پہلے مقامی سیاستدانوں نے پورے علاقے کی مساجد میں اعلانات کروائے کہ فلاں دن پرویز مشرف نے آنا ہے اور تمام لوگوں نے ڈیرہ اسماعیل خان شہر ان کے خطاب میں شرکت کرنی ہے چونکہ ہمارا گاؤں ڈیرہ اسماعیل خان سٹی سے تقریباً 70 کلو میٹر دور تھا تو اس سمیت ایسے متعدد دیہاتوں اور دور دراز علاقوں کے عوام کو لانے اور پھر واپس پہنچانے کے لئے بسوں اور ویگن وغیرہ کا بندوبست مشرف کے حامیوں نے کر رکھا تھا۔

پرویز مشرف کے اس خطاب میں شرکت کے لئے جب ایک مقامی وڈیرہ میرے والد کو ہماری دکان پر دعوت دینے آیا تو میں نے انہیں فوراً جواب دیا کہ اس ظالم جابر حکمران کے خطاب میں ہم شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ انہوں نے ہمارے ملک کے آئین سے غداری کی ہے اس پر انہوں نے بحث شروع کردی کہ وہ کیسے ظالم، جابر اور غدار ہیں؟ تو میں نے جو کچھ کیپٹل ٹاک میں سن رکھا تھا انہیں سنانا شروع کر دیا لیکن وہ صاحب میری باتیں سنتے ہوئے لال پیلے ہوتے گئے اور کہا تم بچے ہو کر ہماری فوج کے جنرل اور صدر پاکستان بارے ایسی غلط باتیں کرتے ہو اور پھر انہوں نے مجھے تھپڑ دے مارا اور کہا ”تم لوگ دفع ہوں خود شرکت مت کرو لیکن یوں محفل میں لوگوں کے سامنے ایسی باتیں مت کرو۔

“ اس کے غصہ کو دیکھتے ہوئے میرے والد نے ان سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا یہ بچہ ہے لہذا آپ خفا نہ ہوں میں آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گا۔ جب وہ چلا گیا اور ہم لوگ دکان بند کر کے گھر پہنچے تو میں نے اپنے والد سے کہا آپ نے ان کے سامنے مشرف کے خطاب میں شرکت کے لئے رضامندی ظاہر کیوں کی؟ تو انہوں نے جواب دیا بیٹا ہم غریب لوگ ہیں وہ علاقے کے وڈیرے ہیں، ہم نے یہاں رہنا ہے اگر آج ان کی مخالفت کی یا پھر انکار کیا تو کل کو ہمارے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

خیر یہ داستان بہت طویل ہے کے بعد میں کون کون سی مشکلات کا کن کن وجوہات کی بنا پر ہمیں سامنا کرنا پڑا اور یہ مختصر آپ بیتی بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ مجھ جیسے کئی لوگ جو لاعلمی اور نادانستہ طور پر مشرف جیسے آمر کو ہیرو سمجھتے تھے ان کی آنکھیں حامد میر جیسے بہادر صحافی کی وجہ سے کھلیں اور آمریت کے نقصانات سے نہ صرف واقف ہوئے بلکہ جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ میں فرق بھی سمجھ آ گیا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ آنے کے بعد 20 دسمبر 2019 کی صبح حامد میر نے مجھے ملاقات کے لئے اپنے دفتر بلایا وہاں گپ شپ کے دوران خاکسار نے میر صاحب سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جس پر انہوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کہ اس کے بعد میرے لیے یہاں (پاکستان) رہنا مشکل ہو جائے گا اس پر میرے قریب میں بیٹھے ایک دوست نے ان سے کہا آج تک پاکستان نے آپ کو کیا دیا ہے ماسوائے گولیوں اور گالیوں کے تو حامد میر ایک لمحہ کے لئے گویا ہوئے اور پھر کہا یہ ہمارا اپنا ملک ہے اور ہم نے وطن عزیز کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنا ہے۔

گزشتہ رمضان حامد میر نے مجھے تین کتابیں بھجوائی جن میں ایک ”حامد میر کہانی“ جو محمد ضیاء الحق نے لکھی ہے اور دوسری ”پروفیسر وارث میر ایک باغی کی کہانی“ جو دراصل مجموعہ ہے ان تحریروں کا جو مختلف اوقات میں مختلف لکھاریوں نے وارث میر سے متعلق لکھا اور تیسری کتاب ”فلسفہ خوشامد پاکستان کی درباری سیاست اور صحافت سے متعلق ہے جو میں ان دنوں پڑھ رہا ہوں اور یہ پروفیسر وارث میر کی تحریروں کا مجموعہ ہے جس کی تدوین حامد میر کے بھائی عامر میر نے بہت ہی بہترین انداز میں کی ہے۔

اس کتاب میں حامد میر بتاتے ہیں کہ ”جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا حبس اپنے عروج پر تھا جمہوریت پسند اور باضمیر اہل قلم کے لئے سانس لینا بھی دشوار تھی ایک دن شدید گرم دوپہر میں حبیب جالب صاحب چھوٹی سوزوکی وین میں ہمارے گھر آئے اور اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے میرے والد پروفیسر وارث میر کو گلے لگا لیا اور کہا کہ آپ کی تحریریں حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن چکی ہیں اس دن روزنامہ جنگ میں وارث میر نے خوشامدی صحافیوں اور ادیبوں کے بارے میں کالم لکھا تھا اور جالب صاحب انہیں بطور خاص داد دینے آئے تھے“

یقیناً ضیاء دور کی آمریت میں مرحوم وارث میر کی تحریریں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھی اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دور حاضر میں حبس کے موسم میں حامد میر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے جنہوں نے ہمیشہ مظلوم اور بے بس طبقہ کے لئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ اس حق گوئی کی قیمت بھی ادا کی لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ ہمارا طاقتور طبقہ بجائے صحافیوں کو زبردستی چپ کرانے کے اپنے اندر جھانکیں اور غلطیوں کی درستگی کریں تاکہ کوئی بھی ادارہ اپنی غیر مناسب اور غیر آئینی حرکتوں کے باعث بدنامی سے بچ سکے۔

کیونکہ حامد میر جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے مرد مجاہد صحافی سج اور جھوٹ پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں اور نا ہی جمہوریت اور آمریت کے معاملے پر غیرجانبدار رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان پر اس بیان کی وجہ سے بھی غیر معینہ مدت کے لئے پابندی لگا دی جاتی ہے جو نہ تو کسی اخبار میں تحریر کی شکل میں شائع ہوا اور نہ ہی کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں نشر ہوا۔

کیپٹل ٹاک پر پابندی لگا کر درحقیقت آپ نے پابندیوں میں جکڑے حامد میر کی بیڑیاں آزاد کردی ہیں کیونکہ وہ اپنے پروگرام اور کالم میں ادارتی پالیسیوں کے سبب بڑا مجبور ہوتا ہے کیونکہ پورا سچ نہ تو وہ کھل بول سکتا تھا اور نہ لکھ لہذا آپ کا شکریہ کہہ انہیں واضح سچ بولنے کا موقع فراہم کیا اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تم لوگ ان کے خاندان کو دھمکیاں دے کر چپ کروا دو گے تو ذرا یہ بھی سن لو ان کے چاہنے والے لاتعداد نوجوان صحافیوں اور عوام کو کیسے چپ کرواو گے جن کے لئے آزادی صحافت و جمہوریت کا یہ غازی مجھ ناچیز سمیت ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان صاحب سے ایک سوال پوچھنا ہے کہ جسے آپ اقتدار حاصل کرنے سے پہلے اپنا ہیرو سمجھتے تھے کیا آج بھی وہ صحافی آپ کا اسی طرح پسندیدہ ہے یا پھر اپنے ماضی کے بیانات پر یوٹرن لے لیا ہے؟

‏حامد میر نے دل آزاری پر معذرت کر کے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے جو کوئی اعلی ظرف ہی کر سکتا ہے۔ ساتھ میں صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کی گرفتاری اور کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آزادی صحافت و قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے جس پر شاباشی کے مستحق ہیں۔ کیونکہ انہوں نے آزادی صحافت اور صحافیوں پر حملوں کے معاملے میں اپنے موقف کو تبدیل نہیں کیا بلکہ صرف اپنے لہجے کی اس تلخی پر معذرت کی جسے کچھ لوگوں نے اپنی اپنی مرضی کا رنگ دیا۔

حامد میر کی معذرت سے عوام کو کم از کم اتنا پتہ تو چل گیا کہ ایک سویلین میں اتنی جرات ہے کہ اس نے اپنے لہجے کی تلخی پر معذرت کر لی لیکن جنہوں نے پاکستان کا آئین توڑا، صحافیوں کو گولیاں ماریں، سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیا اور نیب اور ایف آئی اے کے ذریعہ جھوٹے مقدمات بناتے رہتے ہیں انہوں نے کبھی کسی سے اپنے غیر آئینی اقدامات پر معذرت نہیں کی لہذا قائداعظم کے پرستار حامد میر اور آئین شکنوں میں یہ فرق ایک معذرت سے واضح ہو گیا۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments