صحافت کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ’پلٹزر‘ سیاہ فام امریکی شہری کی ہلاکت کی ویڈیو بنانے والی کم عمر سیٹیزن جرنلسٹ کے نام
پلٹزر بورڈ کی طرف سے اس ایوارڈ کا ایک ایسے فرد کو دینا انوکھی مثال ہے جس کا صحافت میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس طرح کے کام کو عمومی طور پر ‘سیٹیزن جرنلزم’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پلٹزر بورڈ کی طرف سے سیٹیزن جرنلزم کو اہم قرار دیتے ہوئے ڈرنیلا فرازیئر کو اس کی بہترین مثال قرار دیا گیا۔
Congratulations to #DarnellaFrazier. #Pulitzer pic.twitter.com/MdXk1Sspqo
— The Pulitzer Prizes (@PulitzerPrizes) June 11, 2021
پلٹزر بورڈ کے شریک چیئرمین مائنڈی مارکیز کا آن لائن کیے جانے والے اعلان میں کہنا تھا کہ 18 سالہ ڈرنیلا فرازیئر کو اپنے موبائل کے ذریعے ایک ایسی ویڈیو بنانے پر شناخت ملی ہے جسے دیکھ کر لوگ چونک گئے تھے اور پولیس کی بربریت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ڈرنیلا فرازیئر نے اس ویڈیو سے متعلق کم ہی بات کی ہے۔ تاہم جارج فلائیڈ کے قتل کے کیس کی سماعت کے دوران ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا جس میں ان کی ویڈیو بھی دکھائی گئی تھی۔
گزشتہ برس 25 مئی 2020 کو ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی جب سفید فام پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلائیڈ کو حراست میں لینے کے بعد نو منٹ تک ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیو اردگرد کھڑے شہریوں میں موجود ڈرنیلا فرازیئر نے بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ڈیرک شاوین اور ان کے دیگر ساتھیوں کو پولیس کے محکمے نے اس واقعے کے بعد ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔
بعد ازاں منی ایپلس کی جیوری نے اپریل 2020 میں جارج فلائیڈ کے قتل کے الزام میں ڈیرک شاوین کو مجرم قرار دیا تھا۔
شاوین کو سزا سنانے کے لیے 25 جون کی تاریخ مقرر ہے۔ وہ 20 اپریل کو الزام ثابت ہونے کے بعد سے جیل میں ہیں اور جارج فلائیڈ کیس میں علیحدہ فیڈرل سول رائٹس کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ڈرنیلا فرازیئر کی بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈیرک شاوین نے 46 سالہ سیاہ فام جارج فلائیڈ، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، کو 20 ڈالر کا جعلی نوٹ استعمال کرنے کے الزام پر گرفتار کیا ہے اور اپنے گھٹنوں تلے ان کی گردن کو دبایا ہوا ہے۔
اس دوران جارج فلائیڈ بار بار زندگی بخشنے کی التجا بھی کر رہے تھے۔
اس کیس کی سماعت کے دوران ڈرنیلا فرازیئر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے نو سالہ کزن کے ہمراہ دکان گئی تھیں تو انہوں نے دیکھا کہ ایک خوف زدہ شخص اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے جسے دیکھ کر انہوں نے اپنا موبائل فون نکالا اور اس منظر کو ریکارڈ کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بعد ازاں رات میں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘فیس بک’ پر پوسٹ کر دی تھی جہاں دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں نے اسے دیکھا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).