بلوچستان کے پسماندہ علاقے سے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں تدریس تک کا سفر


یار جان عبدالصمد نے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ٹوپی میں واقع پاکستان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مشہور درسگاہ ‘غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی’ سے میٹرلرجی اور میٹریل سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ (فائل فوٹو)
کراچی — پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے عبد الصمد یار جان جب اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال نہ تھا کہ وہ ایک دن برطانیہ میں موجود دنیا کی عظیم جامعہ کیمبرج یونیورسٹی میں طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہوں گے۔

سن 1986 میں مکران ڈویژن کے علاقے بلیدہ میں آنکھ کھولنے والے یار جان یار جان عبدالصمد نے اپنی ابتدائی تعلیم اسی علاقے سے حاصل کی اور پھر اس کے بعد انہوں نے کراچی کے علاقے لیاری کا رُخ کیا جہاں سے انہوں نے میٹرک اور بعد ازاں مشہور ڈی جے سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔

بعد ازاں یار جان عبدالصمد نے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ٹوپی میں واقع پاکستان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مشہور درسگاہ ‘غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی’ سے میٹرلرجی اور میٹریل سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جب کہ اسی مضمون میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی۔

اس دوران انہیں جاپان سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں بھی اپنے مضمون میں عبور حاصل کرنے کا موقع ملا اور اب وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں بطور سینئر ریسرچ سائنٹسٹ اور سینئر ٹیچنگ فیلو کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ کیمبرج یونیورسٹی میں ان کا کام تحقیق و تدریس ہے اور طالب علموں کو ان کی تحقیق میں رہنمائی فراہم کرنا اور مدد کرنا بھی ان کا کام ہے۔

تاہم ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کا بنیادی کام ایسی چیزیں بنانا ہے جو خلائی ٹیکنالوجی کے لیے کار آمد ہیں۔ یہ اشیا خلائی جہازوں اور سیٹلائٹس کی تیاری میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ اس توسط سے ان کا کام ‘یورپین اسپیس ایجنسی’ سے منسلک ہے۔ جب کہ دیگر کمپنیاں اور ادارے بھی اس کام میں ان کی معاون ہیں۔

یار جان عبدالصمد سے وائس آف امریکہ نے جب پوچھا کہ اپنے سفر کے آغاز پر کیا انہیں یہ اندازہ تھا کہ وہ اس قدر ترقی کریں گے تو ان کا جواب بہت عاجزانہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سفر کا تو اب بھی آغاز ہی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے جو مقاصد سائنسی دنیا میں طے کر رکھے ہیں، ابھی وہ حاصل کرنا باقی ہیں۔ لیکن اگر آپ اس سفر کی بات کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنے گاؤں بلیدہ سے شروع کیا تھا، شاید اس وقت یہ اہداف ان کے ذہن میں بھی نہیں تھے۔ ان کے بقول اس وقت ان کے چھوٹے مقاصد اور قلیل الوقت اہداف تھے جن کو حاصل کرنے کی وہ کوشش کرتے رہتے تھے۔

زندگی کا مقصد

ڈاکٹر یار جان نے بتایا کہ جب وہ گاؤں میں مقیم تھے تو ان کی خواہش تھی کہ وہ انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کریں۔ جب انگریزی میڈیم اسکول میں موقع ملا، جو اس قدر آسانی سے نہیں ملا تھا، تو وہ آگے بڑھے۔ لیکن ان کے بقول وہ کرتے کرتے ان چھوٹے اہداف کو عبور کرتے گئے اور اب ان کے سامنے کچھ بڑے اہداف ہیں۔ جو ان کی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن میں سائنسی دنیا میں انسانیت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، انہیں پورا کرنا ہے۔

ڈاکٹر یار جان کے مطابق اس وقت انسان کی کوشش ہے کہ وہ مریخ اور چاند پر بسیرا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ہمیں ایسے آلات اور میٹریل کی ضرورت ہوگی جن کو استعمال کر کے وہاں انسان قیام کر سکتا ہو اور وہاں آبادیاں قائم کر سکتا ہو۔

ان کے بقول یہی نہیں بلکہ چاند اور مریخ کو بنیاد بنا کر باقی خلا کو بھی ہم مسخر کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایسے میٹریل اور آلات کا بنانا ہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ جو سائنس کے نظریات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور اسی کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

‘انسان ارادہ کرلے تو کچھ بھی مشکل نہیں’

اپنے کیریئر سے متعلق مزید بتاتے ہوئے ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سفر مشکل تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ سب کوئی بھی کرسکتا ہے اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں۔

عبدالصمد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں بطور سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ اور سینئیر ٹیچنگ فیلو کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
عبدالصمد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں بطور سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ اور سینئیر ٹیچنگ فیلو کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ان کے خیال میں انسان کو اپنی صلاحیتوں پر یقین ہونا چاہیے اور انہیں مزید نکھارنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر ان سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ ہمیشہ تعلیم کی بات کرتے ہیں لیکن تعلیم ہے کیا؟۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم وہ شے ہے جو انسان کے اندر سے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرے، جو انسان کے اندر اس کی چھپی ہوئی مہارتوں کو تلاش کرکے انہیں نکالے اور انسان کو اس کام میں لگا دے جس کا وہ ماہر بن سکتا ہے۔

انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ یقیناً ہر شخص کو اپنی زندگی میں بہت بڑے چیلجنز درپیش ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی ارادہ کرلے، اس کے حصول کے لیے لگ جائے تو وہ چیلنجز ہی آپ کی مدد کرتے ہیں اور آپ انہیں عبور کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں اور پھر کوئی شک نہیں کہ انسان یہ چیلنجز عبور نہ کرسکے۔

ان کے خیال میں یہ تجربات بہت ہی منفرد ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک میں ماحول انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور یہ بہت اعلیٰ کام کرنے میں بڑا مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے استاد کے مطابق پسماندہ علاقوں کے بچوں کو آگے لانے کے لیے پہلے تو ہمیں ان کے ماحول اور ان کے مسائل کو سمجھنا ہوگا۔

ان کے مطابق ان پسماندہ علاقوں کے بچوں میں جو علم کے حصول کی پیاس پائی جاتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی طلب اور دلچسپی دنیا میں اور کہیں نہیں مل پاتی۔ ایسا جذبہ اور توانائیاں جو وہ کم مراعت یافتہ علاقوں کے بچے لگانے کو تیار ہیں، انہیں ایک سمت مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انہیں جو تعلیم دیں وہ انہیں اس سمت کا تعین کر دے جو انہیں آگے لے کر جائے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علاقے بلیدہ میں ایک اسکول کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں پروجیکٹ بیس لرننگ ماڈل کے تحت تعلیم دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وہ امریکہ اور برطانیہ کے کچھ اسکولوں سے بھی مدد لے رہے ہیں۔ جو ٹریننگ اور نصاب کو ترتیب دینے، بچوں کے باہمی روابط کی شکل میں ان کی مدد کریں گے۔

ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کا بنیادی کام ایسے چیزیں بنانا ہے جو خلائی ٹیکنالوجی کے لیے کارآمد ہیں۔ (فائل فوٹو)
ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کا بنیادی کام ایسے چیزیں بنانا ہے جو خلائی ٹیکنالوجی کے لیے کارآمد ہیں۔ (فائل فوٹو)

ان کے بقول اس عمل سے یہاں کے بچے بھی وہی سب کچھ سیکھ سکیں گے جو جدید ترقی یافتہ ممالک کے بچے سیکھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پسماندہ علاقوں کے بچے علم کے حصول کے لیے جتنا جذبہ اور دلچسپی رکھتے ہیں، اگر ہم نے ان کو بہتر ماحول نہ دیا تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے۔ اسی لیے ان کی کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ ان بچوں کی توانائی کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے درست سمت میں لگائیں۔

‘پاکستان کا چاند پر انسان کے پہنچنے کے مشن میں ہاتھ تھا’

پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی خلائی ادارے ‘ناسا’ کا قیام 1958 میں عمل آیا جب کہ پاکستان نے بھی اپنا پہلا سیٹلائٹ خلا میں 1961 میں بھیجا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس فیلڈ میں کس قدر آگے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بھیجے گئے ‘رہبر’ سیٹلائٹس تو ناسا کے اپولو مشن کا حصہ تھے کیوں کہ وہ سیٹلائٹس اس لیے بھیجی گئی تھیں تاکہ خلا کے ماحول کو سمجھا جائے اور جب اپولو مشن جائے تو ان کے پاس خلا کے ماحول سے متعلق ڈیٹا موجود ہو۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پاکستان کا تو اپولو مشن کو کامیاب بنانے یعنی دوسرے الفاظ میں چاند پر انسان کو پہنچانے میں ہاتھ تھا۔ اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک جو کام کرسکتے ہیں وہ ہم بھی کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا اب اس قدر اعلیٰ تحقیق کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے تو اس کا جواب تو یہی ہے کہ ہم واقعی ایسا کچھ نہیں کر رہے۔

یار جان عبدالصمد نے مزید کہا کہ ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جس میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ لیکن اس میں اصل بات قوت ارادی کی ہے۔ دنیا جہاں تک پہنچ چکی ہے ہمیں اس سے مزید آگے بڑھنے کے لیے تحقیق پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنی چاہئیں۔ اس کو اسی وقت ممکن بنایا جاسکتا ہے کہ جب ہم دیگر اعلیٰ جامعات اور اداروں سے تعلقات قائم کریں اور ان کی ریسرچ سے فائدہ اٹھائیں۔ مختصراً یہ کہ پاکستانی قوم کے پاس بھی صلاحیتیں موجود ہیں اور ہم یہ اہلیت رکھتے ہیں لیکن قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ توانائی کو سمت دینے کی ضرورت ہے اور درست لوگوں کو صحیح کام پر لگانے کی بات ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جلد ہی چاند پر جانے کا ایک مشن ہے جس میں ان کا بھی حصہ ہوگا اور اس پر کام چل رہا ہے۔

اسی طرح انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ جلد ہی مریخ پر بھی کچھ ایسے منصوبے ہوں گے جن میں وہ بھی حصہ لے پائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ صرف وقت کا معاملہ ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے پاکستانی اور بھی ہوں گے جو ایسے منصوبوں میں حصہ لے رہے ہوں گے۔ لیکن ان کے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ وہ شراکت پاکستانیوں ہی کی نہ ہو بلکہ پاکستان سے بھی ہو۔

عبدالصمد سمجھتے ہیں کہ ان کے سفر کا تو اب بھی آغاز ہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے جو مقاصد سائنسی دنیا میں طے کر رکھے ہیں، ابھی وہ حاصل کرنا باقی ہیں۔ (فائل فوٹو)
عبدالصمد سمجھتے ہیں کہ ان کے سفر کا تو اب بھی آغاز ہی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے جو مقاصد سائنسی دنیا میں طے کر رکھے ہیں، ابھی وہ حاصل کرنا باقی ہیں۔ (فائل فوٹو)

‘کامیابی کے لیے اپنی زندگی کے مقاصد طے کرنا بے حد ضروری ہیں’

ڈاکٹر یار جان عبدالصمد نے طلبہ اور بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد طے کرنے ہوں گے۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ آپ نے مستقبل میں کیا کرنا ہے؟ آپ کو کہاں ہونا ہے اور کس چیز کے حصول کے لیے آپ کام کر رہے ہیں؟

ان کے بقول تبھی آپ اپنے اردگرد کے جو مواقع ہیں ان کو استعمال کرنے اور ان مقاصد کے حصول میں لگ جائیں گے۔

ڈاکٹر یار جان کے مطابق اگر آپ کی پیشہ وارانہ یا ذاتی زندگی میں مقاصد ہی نہیں ہیں تو پھر آپ بکھرے ہوئے ہوں گے۔ آپ کو کچھ نہیں پتہ ہوگا کہ آپ کس چیز کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پاکستانی سائنس دان کے مطابق ہمارے ہاں بچوں کو اپنے طویل اور قلیل المدت مقاصد ہی معلوم نہیں ہوتے۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے اور کیسے کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments