اس سے پہلے کہ ساری دنیا اندھی ہو جائے!


قومی، مذہبی اور نسلی تعصبات اور پر تشدد رویوں سے انسانی تاریخ لبریز ہے۔ یورپ کی تاریک صدیاں محض مذہب کے نام پر لڑی گئی سالوں پر محیط جنگوں میں باہم کشت و خون سے لتھڑی پڑی ہیں۔ تاہم یورپ جب خود اندھیرے میں غرق تھا تو اس وقت بھی وہاں اسلام کو ایک ایسا مذہب سمجھا جاتا تھا جس کے پیرو کار ہمہ وقت تشدد پر آمادہ رہتے ہوں۔ یہودی مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے والے معروف یورپی نژاد اسلامی سکالر علامہ محمد اسد کے مطابق ’یورپ کا اسلام مخالف رویہ اس نوجوان کی نفسیات کی مانند ہے کہ جس پر بچپن کی متشدد یادوں نے گہرا اثر چھوڑا ہو‘ ۔

گیارہویں صدی عیسوی میں پوپ اربن دوم کے شعلہ بار خطابات کی حدت آج بھی ’عیسائی یورپ‘ کے لاشعور میں موجود ہے۔ چنانچہ آج بھی وہاں صلیبی جنگوں کی ڈراؤنی یادوں کے ساتھ نمو پانے والی نفسیات کے تحت مسلمانوں کو ایک متشدد قوم کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ حالیہ سالوں نے بھی گہرے زخموں کو کرید کر تازہ کر ڈالا ہے۔ یہ سال مگر راتوں رات نہیں اترے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کے مکمل خاتمے کے بعد مسلم علاقوں کے حصے بخرے کچھ اس طرح کیے گئے کہ وہ حق حکمرانی سے محروم اور باہم متصادم رہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد عربوں کے اندر اسرائیل کو گاڑا گیا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا قضیہ ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ اب تو مغربی مصنفین بھی مانتے ہیں کہ سویت یونین کی پیش قدمی روکنے کے لئے جہاں مغربی محاذ پر نیٹو نامی فوجی اتحاد کھڑا کیا گیا تو وہیں تاریخی سلک روٹ پر بند باندھنے کی خاطر اسلامی دنیا میں متشدد مذہبی فکر کی آبیاری کی جاتی رہی۔

گزری صدی کے دوران، جبکہ مغرب جست در جست معاشی، معاشرتی، سائنسی اور فکری ترقی کی نت نئی رفعتوں کو چھو تا رہا، تو اسلامی دنیا ہر لحاظ سے مزید پستی کے اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئی۔ غربت، جہالت، غلامی، محرومی اور نا انصافی کے شدید احساسات کے زیر اثر نوجوان مسلمان نسلیں ایک کے بعد ایک ہیجانی کیفیت سے دو چار ہوتی چلی گئیں۔ غالباً اس خیال کے ساتھ کہ مسلم علاقوں میں متشدد رویوں کی بھڑکائی گئی آگ کی تپش سے مغربی دنیا لاتعلق اور محفوظ رہے گی، روس کی پسپائی کے بعد پاکستان جیسے ملکوں کو قتل و غارت سے نمٹنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔

عسکریت پسندی کے جس نظریے کی آبیاری ہمارے خطے میں مغربی مفادات کی نگہبانی کے لئے کی گئی تھی، جلد ہی اس کا اثر ہمیں پوری دنیا میں دیکھنے کو ملنے لگا۔ تشدد کی حدت مغربی دنیا تک پہنچی تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صدیوں پرانے تعصبات جاگ اٹھے۔ اسلام کی من مانی تشریح کرنے والی چند تنظیموں کی پر تشدد کارروائیوں کو مغرب نے ’اسلامی دہشت گردی‘ کا نام دے کر پورے عالم اسلام کے ماتھے کو داغ دیا۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے اسلام کو کھڑے کھڑے ایک پر تشدد مذہب قرار دے دیا۔

گزرے سالوں یہ متعصب سوچ پروان چڑھی، تو اس کے نتیجے میں ناصرف انتہا پسند سفید فاموں بلکہ نئی مغربی نسل کے ایک بڑے حصے کے دل و دماغ میں بھی نسلی برتری کے روایتی تصور کے ساتھ ساتھ اسلام سے نفرت و حقارت کا رویہ جڑیں پکڑ نے لگا۔ انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے مغربی حکمرانوں اور نسلی تعصب پر مبنی تحریکوں کی کامیابی دراصل گزشتہ سالوں کے دوران ان معاشروں میں بتدریج نمو پانے والی اسی نفرت انگیز سوچ کا اظہار ہیں۔

تاریکی کے اس عالم میں تا ہم جس طرح تشدد پر آمادہ گروہ، اسلام اور مسلمان معاشروں میں اکثریت کی ترجمانی نہیں کرتے، اسی طرح کینیڈا کے وزیر اعظم اور کینیڈین عوام کا بحیثیت مجموعی حالیہ رد عمل بھی حوصلہ افزاء ہے۔ وزیر اعظم ٹروڈو نے بے مثال جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نفرت کی نشاندہی کی ہے جو بیس سالہ قاتل کے دل میں تھی۔ کینیڈین عوام نے جائے حادثہ پر پھولوں کے ڈھیر لگا کر اس نفرت سے برآت کا اظہار کیا ہے۔ دعا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ دنیا کے کئی دیگر معاشروں کے لئے یہ مثبت رویہ مشعل راہ ہو گا۔

انتہا پسند کسی ایک نظریے اور کسی ایک معاشرے تک محدود نہیں ہوتے۔ ہمیں ان سب کے لئے دعا کرنی ہے جن کے دل کسی بھی وجہ سے تعصب کی آگ اور نفرت سے لبریز ہیں۔ ملالہ یوسف زئی کے حالیہ سطحی اور بظاہر غیر ضروری بیان کے دفاع میں ہمارے کچھ مغرب زدہ انتہا پسندوں نے جس طرح پاکستان اور پاکستانیوں کو رگیدا ہے یا جس طرح چند ماہ قبل کینیڈا ہی میں رہائش پذیر ایک بلوچ خاتون کی حادثاتی موت پر اس گروہ نے آسمان ایک کیا تھا، اس درجے کے طیش و ملال کا اظہار ان کی طرف سے ایک بے گناہ پاکستانی خاندان کی تین نسلوں کے یوں سفید فام دہشت گردی کے ہاتھوں فنا ہو جانے پر دیکھنے کو نہیں ملا۔

پاکستان میں متروک ’بایاں بازو‘ جو اب ’لبرلز‘ اور کئی دیگر ناموں سے جانا جاتا ہے، اکثر زرخیز دماغوں پر مشتمل ہے۔ اس طبقے سے وابستہ با شعور لوگوں کو حسین حقانی نیٹ ورک، اسلام آباد کے نصف درجن مخصوص ’صحافیوں‘ اور نئے نئے ’نظریاتی‘ ہونے والے سیاستدانوں سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا، کہ اس نیٹ ورک کی چھاپ نے ہم جیسوں کو ان بڑے ناموں سے بھی متنفر کر دیا ہے کہ جن کے ہم کبھی ضیاء الحق کے سامنے سینہ سپر ہو جانے کی بناء پر مداح تھے۔

اب بھی کئی ایسے ہیں جنہیں خدا نے علم و ہنر اور سوچنے سمجھنے والا دماغ تو عطا کیا ہے، تاہم تنگی قلب ان کے آڑے آتی ہے۔ سپین میں رہائش پذیر ہمارے انگریزی اخبار کے ایک سابق ایڈیٹر اب بھی ہفتہ وار اسی اخبار میں لکھتے ہیں۔ میں ان کے فن تحریر کا قدیم مداح ہوں۔ تاہم کیا کیا جائے کہ خطے اور بالخصوص پاکستان میں مستحکم جمہوری روایات کے فقدان، باہم جنگ و جدل، مذہبی، مسلکی اور نسلی عدم برداشت، ماحولیاتی آلودگی، موسمیات میں غیر معمولی تغیر، ہمالیہ میں پگھلتے گلیشیئر، دریاؤں کے سوکھنے اور خوفناک رفتار سے بڑھتی آبادی سمیت وطن عزیز کو درپیش ہر ایک مشکل کے لئے ذمہ دار وہ موجودہ حکومت کی آڑ میں بالآخر اس کے Backers کوہی ٹھہراتے ہیں۔

کئی سالوں سے ہر ہفتے یہی لکھتے ہیں۔ آرزو ہی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرتے پھرنے اور ملک کا محض متشدد چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے، ہمارے لبرل دانشور معاشرے میں پائے جانے والی انتہا پسندی کی حقیقی وجوہ کی تلاش کے لئے اپنی عقل و دانش بروئے کار لائیں گے۔ ’فیض آباد دھرنا کیس‘ جیسے عدالتی فیصلوں کو لے کر دھول تو جی بھر کر اڑائی جا سکتی ہے، تاہم دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دھرنا دینے والوں کے امیر کے سفر آخرت میں لاکھوں افراد کی شرکت نے اس فیصلے اور اس فیصلے کی تمام تعبیروں کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

معاملے کا جائزہ نفرت اور تعصب کے زیر اثر طعن و تشنیع نہیں بلکہ تحمل، دور اندیشی اور فہم و فراست کا متقاضی ہے۔ مغرب سے مکالمے کا دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ اس سے پہلے اپنے ہاں برداشت، تدبر اور تحمل پر مبنی رویوں کو اپنایا جائے۔ ہر معاملے میں اعتدال کی ضرورت ہے۔ انتہا پسند رویوں کے سامنے قرآن و سنت کی روشنی میں ہی دین کی متبادل تعبیر پیش کرنے والوں کی فکر سے ہزار اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، تاہم ان جیسوں کی تکفیر، زبان بندی، گردن زنی یا جلاوطنی کا اختیار کسی فرد، گروہ یا جماعت کو نہیں دیا جا سکتا۔

اسی پیرائے میں ’لبرلز قبیلے‘ میں پائے جانے انتہا پسندوں سے بھی مؤدبانہ گزارش ہے کہ پاکستان، پاکستانی اداروں کے مبینہ سیاسی کردار اور پاکستانیوں کی روایتی مذہبی سوچ کو ہدف تنقید ضرور بنائیں، تاہم ضروری ہے کہ تنقید اور نفرت انگیزی میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ بصورت دیگر اندیشہ ہے کہ مغرب میں ہمارے متعلق پائی جانے والا خوف اور بدگمانی کم ہونے کی بجائے دائمی نفرت اور مزید متشدد رویوں میں بدلتے جائیں گے۔

تقسیم کے ہنگام دہلی میں مسلم کش فسادیوں کی غارت گری سے اکتا کر گاندھی جی بولے تھے، ’آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑتے چلے جاؤ گے تو ایک دن پوری دنیا اندھی ہو جائے گی‘ ۔ ضرورت ہے کہ دنیا کو اندھا ہونے سے روکنے کے خاطر مل کر کوشش کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments