کوئی سرکس ہے نوجوانوں کی زندگی


اصولاً تو پہلے کسی بھی مسئلے کو بیان کیا جاتا ہے اور پھر وضاحت کے لئے مثالیں دی جاتی ہیں مگر میں اپنا اصل مدعا سامنے رکھنے سے پہلے کچھ مثالیں دینا چاہوں گی۔

یہ کچھ انتہائی عام سے جملے ہیں جو آپ اور میں ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ ”نوجوان نسل میں بڑوں کے لئے احترام نہیں“ اور ”آج کل کے نوجوان نافرمان ہیں“ یا پھر ”نوجوان بغاوت پسند ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ ماں باپ ہوں یا استاد ہر ایک کے منہ سے ایسے ہی عظیم جملے سننے کو ملتے ہیں اور نوجوانوں کے متعلق تاثر یہ جاتا ہے کہ تمام نوجوان نسل انتہائی کمینگی کی راہوں پر نکل چکی ہے اور ہمارے بزرگ اخلاقیات کے عظیم پیکر اور کنفرم جنتی لوگ ہیں۔ یہ صاف دامن، عظیم لیکن معصوم لوگ ابلیس نما نوجوان نسل سے شدید نالاں ہیں۔ ابلیس نما نوجوان ان کی بات کو پتھر پر لکیر نہیں سمجھ رہے جو کہ یقیناً قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے۔

ہم جس شخص یا نظریے کے متعلق جس طرح کی باتیں سنتے رہتے ہیں اور اچھے سے ان پر کان دھرتے رہتے ہیں۔ اس متعلقہ شخص کی ویسی ہی تصویر ہمارے ذہن میں بن جاتی ہے اور ہماری کہانی کے دوسرے رخوں کو جانچنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ شاید نوجوان نسل اور ہمارے پاکیزہ بزرگان کے درمیان جو تضادات ہیں ان میں ہم ریڈی میڈ تصویروں سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ ہم نے نوجوانوں کو بے حیائی اور بدتمیزی کے ٹیگز اتنے اہتمام سے دیے ہیں کہ ہم نوجوانوں کی شخصیت سازی میں ملوث سماجی و نفسیاتی پہلؤوں پر لمحہ بھر سوچ لینا وقت کا ضیاء اور گناہ کا کام سمجھتے ہیں۔ وہیں ہم نے ہر بڑے کو صرف عمر میں بڑے ہونے کی بناء پر ایسے اعلٰی تخت پر بٹھایا ہوا ہے کہ کہ ہمارے ہاں اعلٰی مقام کا حصول جسمانی عمر کے ساتھ ہے۔

جناب۔ عین ممکن ہے کہ ذہنی عمر میں کچھ نوجوان بزرگان سے زیادہ بڑے بزرگ ہوں چونکہ سوچنا اور سوال کرنا ہمارے ہاں گناہ کے برابر ہے سو جو جیسا دکھ رہا ہے بس ویسا ہی ہے۔ ہم کبھی تہہ میں اترنا گوارا نہیں کریں گے۔

تو بات ہو رہی تھی نوجوانوں پر باغی ہونے اور بزرگان ہر روحانیت کی عظیم مثال ہونے کے ٹیگز کی۔ ہم نے ان دونوں گروہوں کو دو شدید متضاد درجوں پر فائز کر دیا ہے۔ ہم نوجوانوں کے مسائل پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں مگر ان پر بے حیائی اور بغاوت کی مہریں لگانے کے وقت دوڑے چلے آتے ہیں اور ذہین تو ہم ایسے ہیں کہ اپنے یہی روزمرہ کے بزرگان پر کی جانے پر بجا تنقید کو بھی جلدی جلدی مذہب کی توہین کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور یوں بات تنقید کرنے والے کے جہنم واصل ہونے پر جا کر ختم ہوتی ہے۔

مکالمہ جو آخری سانسیں لے رہا تھا یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوت ہو گیا ہے۔ بالخصوص ہمارے نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان کا مکالمہ۔ اولاد بچپن سے پکی عمر تک بھی بچوں کی طرح کی سمجھی جاتی ہے۔ ان کے فیصلوں کو فیصلہ نہیں بلکہ کسی بچے کی بات سمجھا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ رجحانات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مسائل اور مشکلات کی نوعیت بدل جاتی ہے سو بزرگان کا موجودہ دور میں پرانے ٹوٹکے اپلائی کر کے خوشحالی کی توقع رکھنا کوئی حقیقت پسندانہ رویہ نہیں دکھتا۔

بزرگان کی اپنی پرورش کچھ اس طرح سے ہوئی ہوئی ہوتی ہے کہ بڑے کی بات۔ حرف آخر! سو ایسے لوگوں کے لئے طاقت کا حصول اور بات منوانے کا ایک طریقہ بچے پیدا کر لینا ہوتا ہے جن پر کھل کر مرضی چل سکتی ہو کیونکہ بیچارے بزرگان کی اپنی زندگی پر کبھی کسی نے مرضی چلنے دی ہی نہیں ہوتی۔ فیڈر سے لے کر میجر مضمون، فیلڈ اور پھر جیون ساتھی سب بڑوں کی مرضی کا ملا ہوتا ہے تو بیچاروں نے آخر اپنی مرضی بھی تو چلانی ہوتی ہے سو وہ بچوں پر شوق پورے کرنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں سے بھرپور فرمانبرداری کی توقعات رکھتے ہیں۔

اس سب کے دوران جو چیز داؤ پر لگتی ہے وہ ہے شخصی آزادی جس کا ہمارے ہاں کوئی کون سی پٹ نہیں چونکہ ذہنیت میں غلامی میں پنہاں سکون بسا ہوا ہے سو اپنے لیے عقل پر مبنی فیصلے خود بھی کوئی کرنا چاہے تو اس کو بدتہذیب خیال کیا جاتا ہے اور جس کی عقل نے مکمل طور پر سرینڈر کیا ہوا ہو اور وہ کچھ بھی خود سے سوچے سمجھے بغیر ”جیسی آپ کی مرضی“ کا ورد کرتا جاتا ہو تو وہ بہترین انسان کا رتبہ پا لیتا ہے۔ نوجوان اگر فیصلے ماننے سے پہلے سوال کرنے لگے ہیں تو یہ شعور اجاگر ہونے کا نام ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے نفسیاتی و سماجی مسائل اوروں کی زندگی میں بے پناہ مداخلت سے بھی جنم لیتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی زندگی اپنے انداز میں گزار نہیں سکتا اور وہی شخص اوروں کو ان کے انداز میں زندگی گزارنے نہیں دیتا مگر کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے اور حدود کا تعین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر ایک کو اوروں سے گلے ہیں مگر اپنی کرتوتیں بالکل مناسب دکھتی ہیں۔ نوجوانوں کے مسائل کا حل ان کی سوچ اور ان کے سوالوں پر قدغن لگا کر اور اپنے فیصلے تھوپ کر نہیں بلکہ اگر ہم واقعی ماحول میں خوشگواری چاہتے ہیں تو ہمیں فرمانبرداری کی بجائے باہمی احترام کو فروغ دینا ہو گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اپنے فیصلے لینے کا اختیار دینا ہو گا تا کہ ان میں اعتماد اور احساس ذمہ داری آئے۔ مناسب حدود کا تعین ہر رشتے میں ضروری ہے سو بزرگوں اور نوجوانوں کو ایک دوسرے کی حدود کا بھی احترام کرنا ہوگا تا کہ شخصی آزادی کو نقصان نہ پہنچے۔

آخر۔ نوجوان انسان ہیں اور ان کی زندگی کوئی سرکس یا تماشا نہیں کہ کسی بھی کرتب یا ٹوٹکے سے کام چل جائے گا۔ مناسب مکالمہ اور باہمی احترام ہی نوجوانوں اور بزرگوں کے مسائل میں کمی لا سکتے ہیں ورنہ بغیر مکالمے اور دلی احترام کے جو عزت کروائی جاتی ہے۔ وہ آپ بھی جانتے ہیں کہ کس سٹینڈرڈ کی عزت ہوتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments