ہاؤسنگ سوسائٹیز، جنگل اور پہاڑ


ہر انسان کی ایک بنیادی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی فیملی ساتھ ہوں ان کا گھر ہوں گھر ہر قسم کے سہولیات سے آراستہ ہوں۔ کم سے کم بجلی، گیس، پانی تو لازمی موجود ہوں اور بیوی بچے ساتھ ہوں کوئی مہمان آئے تو ان کی بھی اچھی طرح سے خدمت کی جائے اور ہر قسم کی آسانی دی جائے جو کہ ایک پر آسائش گھر میں ہی ممکن ہوں۔ جہاں پر لوگ رہ رہیں ہوں تو یہ بھی ایک ضروری چیز ہوتا ہے کہ سارے سامان ضرورت گھر کی دہلیز پر دستیاب ہوں۔

مسجد، سکول، کالج، بازار، ہسپتال اور پارک وغیرہ بھی قریب ہوں۔ یہ خواب ہر انسان دیکھنا شروع کرتا ہے جیسے ہی اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، ہاں ایک قسم کے لوگوں کوئی ٹینشن نہیں ہوتا جو خاندانی طور پر ہر لحاظ پر برابر ہو اور ان کو صرف ایک ہی تلقین کی جاتی ہے کہ اپنی پڑھائی پر دہان دیا جائے باقی سب لوازمات کی کوئی فکر نہ کریں۔ خیر تو جو لوگ پڑھائی کرتے پھر نوکری اور پھر گھر کا خواب دیکھتے ہیں، اس طرح کے لوگ جب نوکری شروع کرتے ہیں تو اپنی کمائی میں سے جمع پونجی کرتے ہیں اور اسی سیونگ کو گھر یا پلاٹ خریدنے میں کار آمد بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

اسی دوران ایک ہاؤسنگ سوسائٹی شروع ہوجاتی ہیں ایک بڑے جنگل کو کاٹ کر یا ایک پہاڑ کو میدان میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ سارے درخت کاٹے جاتے ہیں ایک داخلی راستہ بنایا جاتا ہے اور یہ علاقہ پلاٹس کے شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور یہ کام ایک بڑے کاروباری شخص کے زیراثر کیا جاتا ہے ان کو حکومت کی طرف سے اجازت ہوتی ہے اور ان کو این او سی بھی دی جاتی ہیں۔ پھر اس سوسائٹی کی ایڈورٹائزمنٹ ایک بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔

ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور بل بورڈز پر اشتہارات لگائے جاتے ہیں جس کے ذریعے سے دوسرے شہروں سے بھی لوگ انویسٹمنٹ کے لیے آتے ہیں، ان سوسائٹیز میں سکول، مسجد، ہسپتال، مساجد اور پارکس کے لیے بھی جگہ مختص ہوتی ہیں، ان میں جو سب سے سود مند اور دل کو چھونے والا کام ہوتا ہے وہ آسان اقساط پر پلاٹس کی فراہمی ہوتی ہیں۔ جس سے عوام کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور مالکان بھی پیسہ زیادہ کماتے ہیں۔ اس سوسائٹیز میں بہت سارے لوگ کاروبار بھی کرتے ہیں۔

لیکن اکثر ان میں دھوکے باز ہوتی ہیں اور لوگوں سے پیسے لے کے فرار بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ایک اچھا کام ہے لوگوں کو ترقی یافتہ جگہ پر گھر مہیا کرنا۔ لیکن اگ ہم دیکھ لیں تو حالیہ وقتوں میں اس کاروبار کو پروان چھڑا ہے اور ہر جگہ پر زرخیز زمین پر سوسائٹی بنائی جاتی ہیں جس کے قوم و ملک کو نقصانات ہوتے ہیں، ایک تو جنگلہ حیات کا خاتمہ ہوں جاتا ہے اوپر سے ایٹموسفیئر تباہ ہوتا ہے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہے، اسلام آباد جیسے شہر میں جو سبزے اور خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے وہاں پر اور اس کے گرد نواں میں جنگلوں کو ختم کیا جا رہا ہے اور گھر بنائے جا رہیں ہیں اور اہم بات زیادہ لوگ فراڈ کر کے نہ تو سوسائٹی بناتے ہیں اور نہ گھر بس ویسے ہی درختوں کا کاٹ کر پھر فرار ہو کر زمین ویسے ہی رہ جاتی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اس کا روک تھام کرے کسی کو بھی مزید سوسائٹی بنانے کی اجازت نہ ہوں جن کو این او سی دی ہے ان کو بھی شرائط رکھ لیں کہ اگر 1000 درخت کاٹ ڈالیں تو ایسا پلان بنائیں کہ کم سے کم 15000 ہزار واپس لگائے اور اگر ناکام ہوتے ہیں تو ان سے مالکانہ حقوق ہی لی جائے۔ ساتھ میں ایسے قانون سازی کی جائے کہ اپنی ذاتی زمین پر بھی اگر کوئی گھر بناتا ہے تو ایک حد مقرر کیا جائے اور اس حساب سے آبادی کی جائے اور ان کو بھی درختوں کا ٹارگٹ دیا جائے۔ ملکی سطح پر ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو ان معاملات کو دیکھا کریں۔ آئیں مل کر پاکستان کو بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments