سیاست کا سورج سوا نیزے پر


اس وقت میڈیا میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی بڑی ستائش ہو رہی ہے اور ستائش کا پس منظر وہ رویہ ہے جو انہوں نے امریکی سرکار کے ساتھ اختیار کیا۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں بلکہ ایک اصولی فیصلہ تھا ان کو کسی سرکاری آفیسریا ادارے نے بھی مشورہ دیا ہو گا۔ بتایا جاتا ہے کہ دو تین ماہ پہلے شایداپریل میں امریکی سرکار کے اعلیٰ عہدیدار جو سی آئی اے کے چیف بتائے جاتے ہیں پاکستان کے مختصر دورہ پر تشریف لائے تھے وہ افغانستان سے امریکی افواج کی رخصت کو آسان اور محفوظ بنانے کے مشن پر تھے پاکستان میں انہوں نے اپنے سفارتخانے کے لوگوں کے ہمراہ اپنے ہم پلہ پاکستانی آفیسروں سے مذاکرات کئے، موصوف وزیر اعظم پاکستان سے بھی مکالمہ چاہتے تھے مگر ان کو مایوسی ہوئی۔ گزشتہ ادوار میں کوئی بھی امریکی عہدیدار پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے آسانی سے ملتا رہا ہے مگر اب کی بار کچھ اصولوں کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کو مایوسی ہوئی۔

اس وقت افغانستان سے امریکی افواج کا اخراج بہت اہم نظر آ رہا ہے امریکہ کے ساتھ ساتھ دوسرے اتحادی بھی افغانستان میں زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ اس کی افواج کا جو کردار افغانستان میں رہا ہے اس کو کسی حد تک محفوظ کیا جائے چنانچہ پاکستان میں وہ اپنی خصوصی فوج کے کچھ دستے رکھنے کا متمنی ہے اور اس کے لئے فضائی اڈے اور دیگر سہولیات کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان ان سہولیات کے بدلے میں چاہتا ہے کہ امریکی دوست کشمیر کے معاملات میں بھارت کے ساتھ بات چیت کریں، یہ اصل میں علاقائی سلامتی کے لئے بھی ضروری ہے۔

ہماری اپوزیشن کو بھی امریکی دوستوں نے اعتماد میں لیا مگر پاکستان کے اپوزیشن کے اعلیٰ لوگ صرف ایک بات پر سرگرم عمل رہتے ہیں کہ کسی بھی طریقہ سے عمران خان کی سرکار کو ختم کیا جائےاور یہ بہت ہی مشکل ہدف ہے۔ ان میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو قومی اسمبلی اور سینٹ میں کوئی کردار نہیں رکھتے ‘ پھر اپوزیشن کو جمہوریت پر بھی اعتبار نہیں ہے وہ سب غیر جمہوری طریقہ سے عمران خان کی رخصتی چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ امریکہ بھی ان کی مدد کرے۔

پاکستان کی سیاست کے میچ میں عمران خان پانچ سال کے بعد بھی ابھی تک کوئی ٹیم بنانے میں بے بس نظر آ رہا ہے ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ ریاست کو درپیش معاشی اور مالی مسائل اور ان کے وسائل کے لئے پیش رفت ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات بہتر ہونے کی پشین گوئی بھی کی جا سکتی ہے مجموعی طور پر عمران خان کی سیاست اور حکمت نے بہرکیف مایوس ہی کیا ہے۔ عمران خان ملک کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرنے کے بعد وزیراعظم بنے تھے۔ ہمارے سیاسی لیڈروں کو اپنے بارے میں ہمیشہ کچھ غلط فہمیاں رہتی ہیں۔ مثلاً ان کی سوچ سب سے افضل ہے‘ عوام ان کے دیوانے ہیں مگر اقتدار میں آنے پر نوکر شاہی ان پر غلبہ پا لیتی ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بن کر مصنوعی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تاہم عمران خان عوام کو مزید مایوس نہ کریں۔ پاکستان کے عسکری حلقوں کو جمہوریت اور جمہوری نظام بہت عزیز ہے اور ان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو اس جمہوری نظام پر لوگوں کو اعتبار آ جائے وہ ہر طرح سے سرکار کی مدد کرتے نظر آتے ہیں مگر کچھ معاملات ایسے ضرور ہیں جن کی وجہ سے جمہوریت پر اعتبار کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ایک طرف پاکستان پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا بہت دبائو ہے۔ پاکستان ان کا مقروض ہے اور جو قرضے پاکستان نے ترقی اور خوشحالی کے لئے حاصل کئے وہ ہدف بھی حاصل کرنا مشکل لگ رہا ہے قرضے لینے والوں نے قومی اثاثوں کا بھی خیال نہیں کیا اور اکثر قرضے اپنی سیاست کو مقبول کرنے کے لئے کئے عوام کو کچھ حاصل نہیں ان بین الاقوامی اداروں کے قرضوں نے پاکستان کی معاشی آزادی کو دائو پر لگا دیا۔ عسکری حلقے اپنے بجٹ کو بہت طریقہ سے استعمال کرتے ہیں جبکہ عوامی حلقے اور سیاست دان ایسا بالکل نہیں سوچتےاور قرضوں کے استعمال میں موثر منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے عوام کو بڑی پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب ادارے عوامی خدمت کی بجائے نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کی خدمت میں عوام کے حقوق نظر انداز کرکے اپنے بدکرداری رویے کا الزام میڈیا پر لگا دیتے ہیں۔

اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ سب کے سب ناقابل اعتبار بتائے جا رہے ہیں۔ غضب خدا ہمارے سیاست دان کرپشن کو جرم نہیں مانتے اور اوپر سے ہماری عدلیہ سیاسی مقدمات میں فریق بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے دوست ممالک ہماری سیاست میں دخل اندازی کرتے نظر آتے ہیں کوئی بھی اہم مسئلہ اسمبلی میں طے نہیں ہوتا ذاتی مفادات کی وجہ سے اہم معاملات نظر انداز ہو رہے ہیں۔ خبریں آتی ہیں اور فیصلے ہونے کے بعد خفیہ رہتے ہیں فوج میں بھی بے چینی سی ہے کہ سیاست دان ملک کا کیوں نہیں سوچتے اور سیاست دان فوج کے ساتھ علیحدہ تعلق رکھتے ہیں اور اسی وجہ سےآج جمہوریت ناقابل اعتبار ہے۔ اس کے لئے نئے نظام پر کسی جگہ غور بھی ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments