محبت کرنے والو ایک بستی بسائیں ایسی


اینٹ کی ایجاد درحقیقت تہذیب و تمدن کے عروج کی ابتدا تھی۔ اینٹ کی ایجاد و تیاری کے ساتھ ہی انسانی ترقی، تہذیب اور تمدنی و ثقافت کے بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ خواہ موہن جو دڑو سے دریافت ہونے والی بہ آسانی ہتھیلی پر اٹھا لی جانے والی چکنی مٹی کی پختہ اینٹ ہو یا مصری اہراموں والی دیوہیکل کمرہ نما سنگی اینٹیں۔ موہن جو دڑو سمیت دنیا بھر میں دریافت ہونے والے کھنڈر تہذیب و تمدن ہی کے نہیں بلکہ تعمیرات کی بھی اہم آثار ہیں۔ انسانیت کی بنیادی تعمیری سرگرمی۔ انسانی تہذیب کے سب سے زیادہ تعمیری اور مثبت کاوش۔

اینٹ وہ بنیادی تعمیری ایجاد ہے جو کہ آج بھی ریت کے بلاک اور سنگی اینٹوں کے ساتھ دنیا بھر میں تعمیراتی کام میں استعمال کی جا رہی ہے۔ اینٹ ہی ہے جو کہ ایک گھر سے لے کر دفتر، معبد سے درسگاہ، کارخانے سے لے کر ہسپتال اور شاپنگ مال سمیت ہمہ اقسام تعمیرات کا اہم جزو ہیں۔ اور اب اسی اینٹ نے بلاک ہی نہیں بلکہ بیم، ستون اور لینٹر ہی نہیں ایک پوری کی پوری دیوار کا روپ لے لیا ہے۔

انڈس سولائیزیشن سان وابستہ سفالی اینٹ کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ اس کا سائز تقریباً وہی ہے جو کے موجودہ دور کی معیاری چکنی مٹی کی پاکستانی اینٹ کا معیاری ناپ ہے۔

موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے بارے مختلف ویب سائٹس کے مطابق، ”وادی سندھ کی تہذیب کے دور میں استعمال ہونے والی سفالی اینٹیں دو بنیادی سائز میں تیار کی جاتی تھیں، جن کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی میں ایک دو اور تین کا تناسب ہوتا تھا۔

ان میں سے ایک کا سائز : 7 ضرب 14 ضرب 28 اور دوسری کا سائز: 10 ضرب 20 ضرب 40 سینٹی میٹر ہوتا تھا۔ ان میں سے چھوٹی اینٹیں گھروں یا اقامت گاہوں کے تعمیر کے لیے استعمال کی جاتی تھیں جب کہ بڑی اینٹیں غیر اقامتی اور عوامی عمارتوں اور چار دیواریوں وغیرہ کی تعمیرات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ جب کہ پاکستان کی موجودہ سفالی اینٹ کا تناسب بھی تقریباً 3 : 2 : 1 اور عمومی ناپ 7۔ 6 ضرب 11۔ 14 ضرب 23 سینٹی میٹر ہے۔ جو کہ سندھو سبھیتا کے معیار کے قریب تر ہے۔

یہ خیال عام ہے کہ انڈس سولائیزیشن موجودہ صوبہ سندھ یا پاکستان تک ہی محدود ہے اور محض موہن جو دڑو اور ہڑپہ ہی اس تہذیب کی آثار ہیں۔ لیکن حقائق کے مطابق اس وقت تک موہن جو دڑو اور ہڑپہ سمیت وادی سندھ کی تہذیب کے برصغیر بھر میں کوئی 140 سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 925 بھارت اور 475 پاکستان میں ہیں جب کہ افغانستان میں واقع کچھ ایسی ہی سائٹس کے بارے خیال ہے کہ یہ تجارتی کالونیاں ہیں۔ صرف 40 سائٹس دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے کنارے واقع ہیں، اور تقریباً گیارہ ہزار ( 80 فی صدی) سائٹس گنگا اور دریائے سندھ کے درمیانی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس میں سے قدیم ترین بھرڑانا اور بھارت کی وسیع ترین راکھی گڑھی سائٹ بھارتی ریاست ہریانہ میں واقع ہیں۔ البتہ 90 فی صدی منقش اشیا اور مہریں ہڑپہ اور موہن جو دڑو میں سے دستیاب ہوئی ہیں۔

یہ تمام تر آثار جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا صرف تہذیب و تمدن ہی نہیں بلکہ تعمیر و ترقی کے بھی آثار اور علامات ہیں۔ یہ آثار اس بات کی علامت اور ثبوت بھی ہیں کہ جس طرح سے پہیہ وادی سندھ کی تہذیب کی ایجاد ہے اسی طرح اینٹ بھی اسی تہذیب کے ایجاد ہے۔ جب کہ ان آثار کی تعمیراتی خوبیوں اور عظمت کا ایک عالم معترف و شیدا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کی محدودیت کے طرح بہت سے لوگ وادی سندھ کی تہذیب سے محبت اور اس کی عظمت کے اعتراف کو بھی محض سندھ تک محدود سمجھ کر اسے علاقہ پرستی یا صوبہ پرستی گردانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب سے مراد پورے برصغیر اور افغانستان سے محبت اور اس علاقے کی تہذیبی اور ثقافتی یا تاریخی و تمدنی عظمت کا اعتراف ہے۔ البتہ اس محبت کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم صیہونیوں کی طرح اس تمام علاقے پر سندھ یا پاکستان کی حکمرانی کا دعویٰ کردیں۔ جب کہ اس تمہید و تحریر کا مقصد محض تاریخ میں تعمیرات کے میدان میں اس تہذیب کی معاونت اور موجودہ دور میں عدم شراکت کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

موہن جو دڑو کے دور میں تو پتہ نہیں لیکن موجودہ دور میں تعمیرات گراں سے گراں تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اور آج ہر طرح سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کی بعد بھی نہ صرف یہ گراں ترین عمل ہے بلکہ اس عمل میں بہت سارے سرمایہ کے ساتھ ساتھ بہت ساری محنت اور بہت سارا وقت بھی کھپانا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعمیرات کے سلسلہ میں سرمایہ اور محنت کی کفایت بھی ہوتی رہی ہے لیکن دنیا میں وسائل کی کمی، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کے باعث اس سلسلے میں نت نئی پریشانیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

اور تو سب چھوڑیے، پانی اور ریت جیسی عام قدرتی اور ارزاں ترین نعمتیں جو کہ تعمیرات کے لیے بنیادی مواد ہیں اور دنیا میں بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں ان کی بھی انسانی حرص و ہوا کے باعث موجودہ دور میں قلت ہو گئی ہے۔ (ہمارے لوگ واٹر مافیا سے تو واقف ہوں گے لیکن شاید ریتی مافیا کے بارے میں زیادہ نہ جانتے ہوں گے۔ اور اس کے علاوہ بھی متعدد مسائل ہیں جو کہ کسی عمارت کے تصور سے مادی شکل لینے تک سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور ان کے تدارک و تلافی کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔

پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں ہنوز قدیم تعمیراتی طریقوں پر عمل جاری ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اس سلسلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ڈیجٹلائزیشن کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ موجودہ دور میں انسان جہاں دیگر سرگرمیوں میں ڈیجٹلائزیشن کی مدد سے محنت، وقت اور سرمایہ کی بچت میں کامیاب ہوا ہے اسی طرح سے تعمیرات میں بھی ڈیجٹلائزیشن کے ذریعے محنت، وقت اور سرمایہ نہ صرف ہم اپنا وقت بچا سکتے ہیں بلکہ نسبتاً کم محنت اور سرمایہ کے ساتھ زیادہ معیار، اور رفتار سے زیادہ سے زیادہ تعمیرات کر سکتے ہیں۔

ڈیجٹل فن تعمیر ایک ایسی تحریک ہے جو کہ تعمیرات اور ڈیجٹل علوم کے درمیان رابطے سے بڑے پیمانے پر تخلیق میں جدت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس کے ذریعے سے کسی بھی عمارت یا تعمیری قالب کی خیالی یا مجازی تفاصیل تیار کی جاتی ہیں اس قسم کا جدید تعمیراتی نظام اس تیزی سے متشکل و مستحکم ہو رہا ہے، اور مستقبل جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی ہی ڈیجٹلائز رہے ہیں وہاں تعمیرات میں بھی ڈیجٹلائزیشن کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔

ڈیجٹل تعمیرات میں مجازی تعمیراتی قالب (بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ /بی آئی ایم ) کا کردار بنیادی ہے۔ مجازی تعمیراتی قالب کا اطلاق نہ تعمیرات کے لیے ڈرافٹنگ اور ڈیزائننگ اور تمام تر تعمیری معاملات میں کیا جاتا ہے بلکہ کسی عمارت یا تعمیری قالب کے انہدام کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔

اس ٹکنالوجی کی مدد سے پروجیکٹ منیجر اور اسٹیک ہولڈرز کو مجازی قالبوں کے جائزے سے تعمیر کے ہر مرحلے پر درست فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جس سے کہ کام کا معیار بلند اور مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔

بلڈنگ انفارمیشن ماڈلنگ (بی آئی ایم) ایک ایسا عمل ہے جس میں مختلف ٹولز، ٹیکنالوجیوں اور ٹھیکوں کے ذریعہ مدد حاصل کی جاتی ہے جس میں تعمیرات اور تعمیراتی مقامات کی طبیعی اور فعال خصوصیات کی ڈیجیٹل نمائندگی کی تخلیق اور انتظام شامل ہوتا ہے۔ بلڈنگ انفارمیشن ماڈل (بی آئی ایم) کمپیوٹر فائلیں ہیں جن کو تعمیر شدہ اثاثے سے متعلق فیصلہ سازی کے لئے ختم، تبدیل یا پھر ان کے نیٹ ورک تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔ بی آئی ایم سافٹ ویئر افراد، کاروباری اداروں اور سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے جو عمارتوں اور متنوع طبیعی انفراسٹرکچر جیسے پانی، ضائعات ، بجلی، گیس، مواصلاتی پلوں، سڑکیں، ریلوے، پل، بندرگاہیں اور سرنگیں بنانے کی منصوبہ بندی، ڈیزائن، تعمیر، تعامل اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔

بی آئی ایم کا تصور 1970 کی دہائی سے ترقی کر رہا ہے، لیکن یہ صرف 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہی ایک متفقہ اصطلاح بن گیا۔ معیار کی ترقی اور بی آئی ایم کو اپنانے کے سلسلے میں مختلف ممالک نے مختلف انداز سے ترقی کی ہے۔

آج ریسائیکلنگ اور ڈیجٹل انفارمیشن کے دور میں نہ صرف ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعمیراتی صنعت ایک ایسی صنعت ہے جس میں وسائل کا زیاں سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک تو موجود و ناموجود مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ڈیجٹلائزیشن کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔ صنعتی سافٹ ویئر مارکیٹ کی اہم کمپنیوں میں سے ایک نمیسٹک گروپ کے ترجمان ایلیکس ہاف مین کے مطابق، ”تخمینوں کے مطابق تعمیراتی منصوبوں میں تقریباً 90 فی صدی تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ جن کے اسباب میں مواصلات، منصوبہ بندی تعاون کے مسائل شامل ہیں۔

متعدد تعمیراتی ماہرین ان تخمینوں سے اتفاق کرتے ہیں جن کی متفقہ رائے یہی ہے کہ، ”ماڈلنگ کی تعمیراتی معلومات کے مطابق وقت کی 25 فی صدی تک بچت کا اندازہ لگایا گیا ہے جس امید ہے کہ خرچ میں بھی لازما کمی آئے گی۔“

جبکہ ماہرین کے مطابق ڈیجٹلائزیشن کی فوائد واضح ہیں۔ بعض تعمیراتی شعبے پہلے سے ہی ڈیزائننگ کے عمل میں شامل ہیں۔ جیسا کہ معمار، انجنیئر، شہری منصوبہ ساز وغیرہ۔ لہذا اس ڈیجٹل تعمیراتی ڈیزائن کے میدان میں اوپن سورس آپریٹنگ سافٹویئر کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے اس وقت 30 سے 40 کمپنیاں مختلف منصوبوں میں تعاون کر رہی ہیں۔

نہ صرف بڑے منصوبوں میں غلطیوں اور نقصانات کے خدشات رہتے ہیں لیکن چھوٹے منصوبوں میں بھی بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی منصوبہ یا کام جتنا بڑا ہوگا اتنے ہی بڑی غلطیوں ناکامیوں اور پریشانیوں ‏ میں اضافے کا امکان رہتا ہے اب تمام شعبوں کا اثر تعمیراتی سرمایہ پر پڑتا ہے۔

اگرچہ کن فریقین کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تعمیراتی ڈیجٹلائزیشن میں دیر کے اسباب سیاسی ہیں لیکن متعلقہ فریقین کا کہنا ہے کہ دیر کا سبب صرف سیاسی وجوہ نہیں۔ ایک ماہر کے مطابق کمپنیاں ڈیجٹلائزیشن میں جو صلاحیتیں دیکھتی ہیں اور حقیقی طور پر جو زیر عمل آتی ہیں ان میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ڈیزائنرس، آرکیٹیکچرس، اور انجیئروں نے تعمیراتی کمپنیوں کی نسبت زیادہ بڑے اقدامات کیے ہیں۔

ڈیجٹل تعمیرات کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس طریقے سے تعمیر شدہ عمارت یا انفراسٹرکچرز کے بارے میں ہر قسم کی معلمات ڈیجٹل طور پر دستیاب ہوں گی اور برسوں کے بعد بھی ان معلومات کی مدد سے ان کی تعمیر کے سلسلے میں کسی اسکریو سے لے کر بڑے بڑے ستون کے بارے میں پتہ چل سکے گا کہ وہ کہ ان کیسا اور کس طرح سے تیار کیا گیا اور اس وقت اس کی مرمت یا تعمیر کے لیے کیا اقدام کیے جائیں۔

انسان کتنی بھی ترقی کر لے لیکن گھر اس کی بنیادی ضرورت تھا، ہے اور رہے گا۔ ترقی یافتہ ممالک تو اس سلسلہ میں ڈیجٹلائزیشن سے لے کر دوسرے سیاروں میں بستیاں بسانے کے بارے سوچ رہے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں آج بھی لاکھوں لوگ گھروں سے محروم اور گلیوں اور فٹ پاتھوں پر مٹی کے بچھونے اور دھول اور دھوئیں کے لحاف اوڑھ کر سونے پر مجبور ہیں۔

اگر پاکستان میں بھی زندگی کے تمام تر شعبوں سمیت تعمیرات کو ڈیجٹلائز کیا جائے اور ڈیجٹلائزیشن کا تعمیری استعمال کیا جائے تو نہ صرف تعمیرات کا معیار بلند ہوگا اور ملک بھر میں مکانوں اور بستیوں میں اضافہ ہوگا بلکہ شاید مکان اور گھر اتنے ارزاں اور عام ہو سکیں جتنے کہ موبائل اور اس قبیل کی چیزیں ہیں۔

آپ نے شاہ عبداللطیف کی سندھ اور تمام عالم کی خوشحالی کی دعا تو سنی ہوگی لیکن ان کی ایک اور خواہش سے شاید واقف نہ ہوں جس میں کہ انہوں نے ”عالم گیر بستی“ اور ”عالم گیر برادری“ کا تصور دیا ہے۔ ان کے ایک بیت کا مفہوم ہماری دانست میں کچھ یوں ہے :

” (دنیا بھر کے انسانیت سے ) محبت کرنے والے لوگو آؤ ایک ایسی بستی بسائیں جہاں کہ شاہ دوراں بھی آنے میں فخر محسوس کرے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments