جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط


یقین مانیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب! آپ نے اچھا نہیں کیا، دو سال تو کیا آپ نے افسران کی دہائیوں کی محنت برباد کروا دی، سارے بیانیے کو ہی بھسم کر دیا؛ ایسا بھی کوئی کرتا ہے؟ ”قومی مفاد“ بھی کوئی شے ہوتی ہے، ”حالات کی نزاکت“ بھی کسی چڑیا کا نام ہے، آپ نے تو سارا منصوبہ ہی ناکام کر دیا، کھڑی تیار فصل کو ہی آگ لگا دی، تبدیلی کی ہنڈیا ہی بیچ چوراہے میں پھوڑ دی، کوئی ایسے بھی ”قومی راز“ طشت از بام کرتا ہے؟ کوئی ایسے بھی کام کرتا ہے؟

پانچ برس سے یہ میڈیا ہمیں سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے ثبوت مل گئے ہیں، اقامہ ہی کرپشن کی جڑ ہے، بیٹے سے تنخواہ نہ لینا ہی سب سے بڑا جرم ہے، پاناما ایک تاریخی نہیں انقلابی حقیقت ہے، یہ سب چور ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور اس ملک میں باقی سب فرشتے ہیں۔ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالتوں کے سب فیصلے درست ہیں، سب ثبوت موجود ہیں۔ جس وقت سب یہ کہہ رہے ہیں تو آپ کو یہ کہانی منظر عام پر لانے کی کیا ضرورت تھی کہ جنرل فیض آپ سے جاننا چاہتے تھے کہ اگر نواز شریف کا کیس آپ کے پاس آئے گا تو آپ کیا فیصلہ کریں گے؟ یہیں آپ سے غلطی ہوئی ہے، آپ کو بھی بنا ثبوت سب کچھ مان لینا چاہیے تھا، جنرل صاحب کی تشفی کروانی چاہیے تھی کہ حضور جو آپ کہہ رہے ہیں وہی انصاف ہے، وہی فیصلہ ہے، قانون کی کتاب تو جاہلوں کا کھیل ہے، آپ کا کشف عارفانہ ہی کیس کا فیصلہ کرنے کو بہت کافی ہے۔

تین سال سے میڈیا ہمیں بتا رہا ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں، عمران خان کو لوگوں نے سچ مچ کے ووٹ دیے ہیں، تبدیلی خود بخود آئی ہے، آر ٹی ایس تو بس ذرا دیر کو بیٹھا تھا، دھاندلی کی اطلاعات تو بس خال خال تھیں، اکا دکا حلقوں میں ایسا ہو ہی جاتا ہے، کوئی ایسا منصوبہ نہیں تھا، کوئی باقاعدہ پلان نہیں تھا، کوئی دھونس دھاندلی نہیں تھی، حلقوں کے نتائج خود بخود رک گئے تھے، پریشر گروپ خود بخود بن گئے تھے، نون لیگ کے امیدواروں کی نا اہلی خود بخود ہو گئی تھی، دراصل پنجاب میں لوگ اچھی گورننس سے اکتا گئے تھے۔

جس وقت سب یہ کہہ رہے ہیں تو آپ کو یہ بات کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ جنرل فیض نے آپ کو کہا تھا کہ اگر آپ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تو ان کی دو سالہ محنت ضائع چلی جائے گی؟ کیا آپ کے قومی جرائم میں یہ فرد ہی کافی نہیں کہ آپ نے ایک افسر کی دو سال کی محنت ضائع کرنے کی سعی ناتمام کر ڈالی؟ آپ کو ”ہینڈل“ نہ کرنے کے سبب بڑے بڑے افسران کو بڑے بڑے افسران سے ڈانٹ پڑ رہی تھی، ان کی نوکری کو خطرات پیدا ہو رہے تھے، ایسے نازک حالات میں سچ بولنے کی کیا تک تھی؟ حق کا علم بلند کرنے کا کیا موقع تھا؟

سات دہائیوں سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ادارے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، سات دہائیوں سے ادارہ بھی یہی کہہ کر سیاست کر رہا ہے۔ آپ نے راولپنڈی بار کونسل کے سامنے تقریر کر کے نام لے لے کر بتا دیا کہ کون کیا کہہ رہا ہے؟ کون کس فیصلے کے لیے مجبور کر رہا ہے؟ کون کس کی طنابیں کھینچ رہا ہے؟ آپ نے یہ بھی اس تقریر میں فرمایا کی حساس اداروں کے افسران عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کو شش کر رہے ہیں۔ اب تو آپ نے تحریری ثبوت بھی دے دیے، تاریخی شواہد بھی مہیا کر دیے، ایسا نہیں کرتے صاحب! اب تبدیلی لانے والے تبدیلی لا چکے ہیں، عوام کے حق پر ڈاکا پڑ چکا ہے، اب چاہے آپ آڈیو ثبوت سنوائیں یا کوئی وڈیو منظر عام پر لے آئیں۔ اب نہ کوئی آپ کے جوابات داخل دفتر کرے گا، نہ کوئی الزامات کی انکوائری کرے گا، نہ شنوائی ہو گی نہ ہی انصاف ملے گا۔

جسٹس صاحب! آپ کیا سمجھ رہے تھے کہ سچ بولنے سے یہ معاشرہ بدل جائے گا؟ یہ تسلط ختم ہو جائے گا؟ عدالتوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ بند ہو جائے گا؟ آپ کیا سمجھ رہے تھے کہ آپ ایک تقریر سے اس ظلم کے خلاف بند باندھ لیں گے؟ جمہوری حکومتوں کے خلاف ان قومی جرائم کو روک لیں گے؟

جج صاحب۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ یہاں کوئی سچ نہیں بول رہا، دروغ کا ایک خود کار نظام عمل میں آ چکا ہے، میڈیا وہی بولتا ہے جس کا اذن ملتا ہے، عدالتیں وہی فیصلہ دیتی ہیں جس کا حکم ہوتا ہے، اسمبلیاں وہی قرارداد منظور کرتی ہیں جس کی وٹس ایپ پر منظوری ملتی ہے، ایسے میں ایک شخص سچ بولنے پر مصر رہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو آپ کے ساتھ ہوا ہے۔

اگر آپ بھی ”ہینڈل“ ہو جاتے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تو معمولی بات ہے اس وقت آپ سی پیک کے چیئر مین لگ سکتے تھے، صدر پاکستان بھی بن سکتے تھے، آپ کا اپنا ”ڈیم فنڈ“ ہوتا، آپ کے ارد گرد مرسڈیز کا لشکر ہوتا، آپ کی سیکورٹی پر سینکڑوں اہلکار تعینات ہوتے، آپ کے امریکہ میں کاروبار ہوتے، آپ کم از کم پینشن کے لیے درخواستیں نہ جمع کروا رہے ہوتے، گھر کی تزئین و آرائش والے رکیک مقدمات نہ بھگت رہے ہوتے۔

جج صاحب آپ کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اس ملک میں ستر سال سے عدالتیں ”ہینڈل“ ہو رہی ہیں، اس ملک میں ستر سال سے میڈیا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے، اس ملک میں ستر سال سے عقبی دروازے کی سیاست ہو رہی ہے، اس ملک میں جھوٹ کا ایک مکمل نظام مروج ہو چکا ہے، اس نظام کو توڑنے والے پاش پاش ہو چکے ہیں، تو جج صاحب! آپ کی خاندانی نجابت، ذہانت، شرافت، امانت داری اور حق گوئی یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی، یہاں بلند قامت شخصیات کی ضرورت نہیں رہی، یہاں ”بونوں“ کی حکومت ہے، یہ چھوٹے ذہنوں والے، نیم خواندہ لوگوں کی ریاست ہے، آپ نے سچ کا علم بلند کرنا چاہا اور منہ کی کھائی، اب اپنا علم اپنے پاس رکھیے، اپنے گھر کی الماریوں میں سجی کتب اپنے پاس رکھیے، قانون کی کتاب کے نسخے اپنے پاس رکھیے، دانش اور امانت داری کا درس اپنے پاس رکھیے، آئین و دستور کی مثالیں اپنے پاس رکھیئے۔

یہ سوغاتیں اس ملک میں کسی کو درکار نہیں، یہ سودا یہاں بکنے والا نہیں ؛ یہاں فردوس عشق اعوان والی ذہنیت درکار ہے، یہاں فیاض چوہان جیسے فصیح البیان درکار ہیں، یہاں مراد سعید جیسے شعلہ بیان مقرر درکار ہیں، یہاں شہزاد اکبر اور فروغ نسیم جیسے قانون کے ماہرین درکار ہیں، یہاں ثاقب نثار اور جاوید اقبال جیسے منصف درکار ہیں۔

یقین مانیں۔ یہاں اس قوم کو تھپڑ پڑتے رہیں، گالیاں پڑتی رہیں، جوتے لگتے رہیں تو راولپنڈی میں مٹھائیاں بٹتی رہتی ہیں، یہاں شوکت عزیز صدیقی جیسے بڑے لوگوں کا کوئی کام نہیں۔

آپ سے بس اتنا کہنا مقصود تھا کہ یہاں کسی کا ضمیر نہیں جاگے گا، یہاں ہر سچ بولنے والا عبرت کا نشان بنے گا، یہاں ہر حق گو پر بہتان لگے گا اور آہنی بوٹوں تلے اس ملک کا نظام انصاف اسی طرح ”ہینڈل“ ہوتا رہے گا۔

آپ نے سچ بول کر جبر کے اس نظام کو توڑنے کی کوشش کی لیکن یقین مانیے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب! آپ نے اچھا نہیں کیا۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments