کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟


جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے اسے ام الخبائث کہا جاتا ہے۔ تمام برائیوں کو ایک کمرے میں بند کریں۔ اس کی چابی جھوٹ ہے۔ جب تک چابی کے ذریعے کمرے کو نہ کھولیں کمرہ بند رہتا ہے۔

جی قارئین گرامی۔ ایک سبق آموز واقعہ جو اس وقت ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ ایک صحابی حضور اقدس صلی اللہ کے پاس آیا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی میں بہت پریشان ہوں۔ مجھ سے گناہ نہیں چھوٹتا۔ جتنی بھی کوشش کروں۔ کہ گناہ چھوڑ دوں لیکن بالآخر مجھ سے گناہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔

رسول اللہ نے فرمایا :۔ میں تمہیں ایک آسان نسخہ دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم بس جھوٹ نہ بولو۔ اور تم وعدہ کرو کہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں جھوٹ نہیں کہنا۔ تم سے تمام برائی چھوٹ جائے گی۔ یہ سو فیصد گارنٹی ہے۔

عرض کی۔ اتنی سی بات یا رسول اللہ صلی اللہ۔
یہ تو آسان ہے میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔

واپس گھر آیا اتنے میں اسے حسب عادت شراب نوشی کا ذہن میں آیا۔ جوں ہی بوتل سامنے آیا۔ اسے رسول اللہ صلی سے کیا ہو وعدہ یاد آیا۔ میں نے تو وعدہ کر کے آیا تھا کہ جھوٹ کبھی نہیں بولوں گا لیکن ابھی میں کیا کر نے جا رہا ہوں؟ اگر میں شراب پی کے رسول اللہ صلی کے پاس جاؤں تو پوچھے تو کیا کہوں گا؟

اگر کہہ دوں گا کہ میں نے شراب نوشی کی ہے پھر شراب پینے کی سزا۔ کیونکہ خود جو اقرار کر رہا ہو گا اور اگر پینے کے بعد جھوٹ کہوں کہ نہیں میں نے کوئی شراب نوشی نہیں کی۔ تو پھر بھی میں سزا کو مستحق ہو گا۔ اور وعدہ خلافی بھی۔ یہ سوچ کر اس نے شراب کی بوتل کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دل چاہا کہ فلاں گناہ انجام دوں۔ لیکن اسے رسول اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔ کہ جھوٹ نہیں بولنا۔ اب اگر اس گناہ کو انجام دینے کے بعد بارگاہ اقدس میں حاضر ہو جاؤں گا میرا کیا بنے گا۔ جب کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔

حسب عادت جو جو گناہ اس کے ذہن میں آ جاتا۔ ایک ایک کر اس سے چھٹکارا اس لیے ملتا کہ وہ اسے جھوٹ نہیں بولنا ہے۔

جی ہاں رسول خدا صلی اللہ نے یہ بہت زبردست اور عظیم نسخہ عنایت فرمائے تھے لیکن اگر ہم آج کے معاشرے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہاں معیار ہی الگ ہے۔ یہاں تو جھوٹ کہنے والا چالاک، سچ بولنے والا بے وقوف اور سادہ۔ یہاں جھوٹ کو کوئی گناہ ہی تصور نہیں کرتے۔ جھوٹ آج کے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ بن گیا ہے۔ آپ خود تجربہ کر سکتے ہیں آپ گھر سے نکلے ٹیکسی ڈرائیور آپ سے ضرور جھوٹ بولے گا۔ بازار سے کسی دکان سے کوئی چیز خریدو گے تو دکان دار قیمت کے بارے میں جھوٹ بولے گا۔ کہے گا کہ اتنے میں ہماری خود خرید بھی نہیں۔ جھوٹ ہر گھر، گلی محلے، محفل اور ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے۔

حتی کہ آپ کسی سرکاری دفاتر میں جائے وہاں بھی آپ سے کسی نہ کسی حوالے سے جھوٹ بولا جائے گا۔ حتی کہ ہمارے بڑے بڑے لوگ ہمیشہ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ جب ہمارے بڑے دن بھر ہر جگہ کانفرنسوں، جلسوں میں طرح طرح کے جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ تو عوام تو ہواؤں کی رخ کی جانب چلی جاتی ہیں۔

ہمارے موجود وزیراعظم عمران خان صاحب سے معذرت کے ساتھ سب سے زیادہ جھوٹ میڈیا پر وہ بولتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یو ٹرن وزیراعظم کہتے ہیں۔ اگر ان کے جھوٹ کی فہرست بنانا شروع کریں تو شاید ایک کتابچہ بن جائے گی۔ اس لیے یہ سوال خود بہ خود ذہن میں آ جاتا ہے کہ کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟ ہمیں اس کے جواب مثبت دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا ہی راج ہے۔ جب ہمارے بڑوں کی صورت حال یہ ہے تو بچے تو بڑوں کو ہی دیکھتے ہیں۔

ان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ بھی پہلے اپنے دوستوں سے سکولوں میں جھوٹ بولتے ہیں۔ کھیلوں میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اپنے والدین سے جھوٹ کہنا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ اپنے والدین کو اور گھر میں جھوٹ بولنا شروع کریں سمجھئے یہاں سے اس کی تربیت میں خلل آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب وہ ہر بات پے جھوٹ بولے گا۔ اب وہ جھوٹ بولنے کو کوئی گناہ تصور نہیں کرتا اور نہ ہی عیب سمجھتا ہے۔ جب اس حالت تک پہنچ جائے تو وہ سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ آسانی سے بناتا ہے۔

آج جھوٹ ہمارے کلچر اور ثقافت میں شامل ہونے لگا ہے۔ اس لیے ہمیں سچ کو ہمارے معاشرے میں دوبارہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ کی سرزنش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس کے برعکس سچائی کی قدر نہیں کرتے۔ بچے سے اگر کوئی کوتاہی سرزد ہو جائے۔ اگر وہ اس کوتاہی کے مرتکب ہونے کے بارے میں آپ کو بتا دیے تو بجائے اس کے کہ آپ اس کے کوتاہی ہونے پر اس کو کوسنے لگ جائے آپ اس کے سچ بولنے پر داد دیں۔ پہلے اس کے سچ بولنے پر تعریف کریں پھر اس کے غلطیوں کی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دیں۔

اگر آپ ایسا نہ کریں تو آئندہ وہ جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جائے گا۔ پھر جھوٹ بولنے کی لت میں گرفتار ہو جائے گا۔ پھر آپ بھی اس گناہ میں مدد گار بنیں گے۔ اس لیے اس طرح کے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ ان چیزوں کو بالکل نظر انداز کرتی ہے۔ سکولوں کے حوالے سے بھی یہ بات اساتذہ کے ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ اگر بچہ یا بچی سکول میں ہوم ورک کر کے نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کے بجائے اسے آرام سے کام نہ کرنے کی وجہ پوچھے۔

اگر وہ سچ بولے دے تو ایک دو دفعہ اسی سچ بولنے کے انعام میں اسے سزا نہ دیں یقین کیجئے آئندہ وہ کسی سے بھی جھوٹ نہیں بولے گا مجھے پولیس والوں کا یہ جملہ بہت ہی اچھا لگتا ہے کہ وہ اپنے مجرم یا ملزم سے اقرار جرم کرانے کے لیے کہتی ہے کہ اگر تم سچ سچ بولو گے تو میں تمہاری سزا میں تخفیف کروں گا۔ ورنہ جھوٹ بولنے کی صورت میں میں تمہیں کڑی سزا دوں گا۔

اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب پی کر شراب خانے بولا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سب سے زیادہ جھوٹ مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر عدالتوں میں بولا جاتا ہے۔

آج کے معاشرے میں جھوٹ بولنے والے افراد کو ہی عاقل اور کامل انسان ہی گردانتے ہیں۔ جب کہ سچ بولنے والوں کو سادہ اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جب ہم اسلامی آئین کی پاسداری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہمیں مسلمان کہلانے کے قابل بھی نہیں۔ صرف مسجد میں پانچ سے دس منٹ مومن باقی اس سے باہر ہم سب کی زندگی میں آئین اسلام کدھر ہے۔ جب کہ دین اسلام میں آپ کے زندگی کے ہر لمحہ کے لیے احکام موجود ہے۔ جھوٹ کے نقصانات بھی کم نہیں ہے۔

دین اسلام میں یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جھوٹ بولنے والا ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے۔ جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔ رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں اور جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

سب سے بڑھ کر جھوٹ برائیوں اور گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ آج کے اس پر آشوب دور میں جھوٹ کے عام ہونے سے عجیب چیز سچ بولنے والوں کا یہ کہہ جھوٹ بولنا کہ باقی سارے لوگ ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں تو میرے ایک جھوٹ سے کیا ہوتا ہے؟ کبھی کبھار وہ سچ بولنے پر پچھتاتے بھی ہیں۔

شہر والے جھوٹ پر رکھتے ہیں بنیاد خلوص
مجھ کو پچھتانا پڑا محسن یہاں سچ بول کر

لیکن یہ انسان حضرت محمد ص کی بابرکت زندگی کو بھول جاتا ہے۔ رسول کریم ص نے ابھی رسالت کا اعلان ہی نہیں کیا تھا لیکن عرب کے اس دور جاہلیت میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے مزین ہوئے تھے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب کے اس دور میں اکثریت جھوٹ بولتے تھے لیکن آپ ص ان کی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ اسی لئے ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں کہ آغاز اسلام میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ وہ آپ پر ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اپنے امانتوں کو آپ کے پاس رکھتے۔ کیو نکہ وہ بھی آپ کو صادق و امین سمجھتے تھے۔

آخر میں ہم اس تحریر کے ذریعے حکام بالا سے درخواست کرتے ہیں۔ کہ وطن عزیز پاکستان دنیا میں ایک اسلامی ملک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے شہری اچھے ہوتو ہمیں سچ کو عام کرنا ہو گا اور جھوٹ کی سرزنش کرنی ہوگی۔ ہمارے بڑوں کو میڈیا اور اسمبلی میں سر عام جھوٹ بولنے کی اجازت نہ دیں۔ خصوصاً پپمرا میں کام کرنے والے انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہونی چاہیے کہ اگر کوئی چینل جھوٹ بولے تو اس چینل کو بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ اس چینل کے خلاف نوٹس لے۔ ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments